سامراجی کیمپ میں انتشار
یوکرین کے بحران میں فریقین کی طرف سے فوجی قوت کا مظاہرہ جاری ہے
MADRID:
یوکرین کے بحران میں فریقین کی طرف سے فوجی قوت کا مظاہرہ جاری ہے'روس قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے ' اس نے یوکرین کے روسی آبادی والی دو باغی ریاستوں کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا 'جیو پالیٹیکس میں تبدیلی کی وجہ سے روس اور چین نزدیک آگئے ہیں اور ان کے موقف میں بھی یکسانیت ہے'جس کا اظہار چین میں منعقد ہونے والی سرمااولمپکس کے دوران دونوںممالک کے سربراہان کی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ہوا'جب کہ مغربی طاقتیں انتشار کا شکار ہیں' انھیں سمجھ نہیں آرہی کہ روس سے کیسے نمٹا جائے؟
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ ''صاف ظاہر ہے کہ روس یورپ میں جنگ نہیں چاہتا لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ روس کے سیکیورٹی خدشات کو مدنظر رکھا جائے''۔ روسی صدر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب روس کے عسکری حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ یوکرین کی سرحد کے قریب تعینات فوجیوں میں کمی کر رہے ہیں۔
روسی حکام کی جانب سے اس اعلان کو کشیدگی میں ممکنہ کمی کی جانب پہلے اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔پوتن کا حالیہ بیان جرمنی کے چانسلر اولف شلز کے ساتھ چار گھنٹے کی طویل ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے 'ملاقات کے بعد جب مسٹر پیوٹن سے پوچھا گیا کہ جنگ کے امکانات کتنے ہیں تو انھوں نے میڈیا کے نمایندوں سے کہا کہ کیا ہم ایسا چاہتے ہیں یا نہیں؟صاف ظاہر ہے کہ ہم نہیں چاہتے 'یہی وجہ ہے کہ ہم مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے تجاویز دے رہے ہیں'لیکن اس کے باوجود امریکا جنگ کی صورت حال کو بحال رکھنا چاہتا ہے۔
امریکی حکومت کو ایک اور مسئلے کا سامنا بھی ہے' اگر ایک طرف روس اور چین میں اتفاق بڑھتا جا رہا ہے' حالانکہ بعض معاملات میں ان کے مفادات بھی ایک جیسے نہیں ہوتے لیکن اس کے باوجود وہ اس وقت امریکا اور مغربی یورپ کے خلاف متحد ہیں۔امریکا ایک طرف تو افغانستان سے نہ جانے کس سازش کے تحت واپس گیا لیکن چین کے ساتھ تائیوان کے مسئلے پر اور روس کے ساتھ یوکرین کے مسئلے پر سینگ پھنسا بیٹھا ہے۔
امریکی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ روسی حکومت کے خلاف ' مغربی اتحادی ملکوں کا ایک مضبوط محاذ قائم کرے 'لیکن اس کی کوششوں کے باوجود اتحادیوں میں وہ مضبوط یک جہتی نظر نہیں آتی ' جس کی اس وقت امریکا ضرورت محسوس کرتا ہے۔امریکی اتحادی ممالک میں اس بات پر اختلاف ہے کہ روس کے ساتھ کیسے نمٹا جائے؟
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مغربی یورپ اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے روس پر انحصار کرتا ہے 'اس کے علاوہ بہت سے ممالک کے روس کے ساتھ مضبوط معاشی اور تجارتی تعلقات ہیں۔یورپی یونین کے ممالک اپنی انرجی کی ضروریات کا 40فی صد گیس روس سے درآمد کرتے ہیں'جرمنی اپنی توانائی کی ضروریات کا نصف سے زیادہ حصہ روس سے درآمد کرتا ہے'اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ روس کے خلاف سخت ایکشن لینے کے خلاف ہے اور یوکرین کو اسلحہ بھیجنے میں بھی لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔
جہاں تک معاشی پابندیوں کا معاملہ ہے تو کچھ یورپی ممالک کو خطرہ ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات کی بگاڑ کی وجہ سے ان کو اقتصادی طور پر بہت زیادہ نقصان ہوگا 'روس پر پابندیوں کے لیے یورپی یونین کے 27ملکوں کی منظوری ضروری ہے جو ایک مشکل کام نظر آتا ہے 'کچھ مغربی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مغربی ممالک میں یہ خیال بھی مایوسی پیدا کر رہا ہے کہ امریکا نے افغانستان سے انخلاء کے وقت ان کو اعتماد میں نہیں لیا اور ان کو اب امریکی جنگی صلاحیتوں پر بھی شک ہے۔
پچھلے مہینے صدر بائیڈن نے یہ تسلیم کیا تھا کہ روس کے خلاف اقدامات کے بارے میںناٹو ممالک میں اختلافات موجود ہیں'امریکی حکام نے یہ بیان جلدی واپس لے لیا اور اتحادیوں میں روس کے خلاف اتحاد کا جھوٹا ڈھنڈورا پیٹا'امریکا کو سب سے زیادہ مسئلہ جرمنی کے روس کے خلاف کمزور موقف سے ہے 'جرمن چانسلر کے حالیہ دورہ امریکا کے بعددونوں لیڈروں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔
خاص کر روس سے جرمنی آنے والی زیر تعمیر گیس پائپ لائن (Nord Stream 2) کے مسئلے پر ' فرانس کے صدر کے سفارتی اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ فرانس بھی اس مسئلے کو جنگ کے بجائے سفارتی ذرایع سے حل کرنا چاہتا ہے 'فرانس کے صدر میکرون نے ایک بیان میں کہا ہے کہ '' یوکرین کی خود مختاری کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ روس کے تحفظ اور سیکیورٹی کے خدشات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا''یہ نکتہ نظر امریکی موقف کے خلاف ہے 'اب فرانس کے صدر نے اس مسئلے پر ایک عالمی کانفرنس کی تجویز دی ہے۔
اس نے روس کا دورہ بھی کیا اور صدر پیوٹن سے مذاکرات بھی کیے 'ان کا کہنا ہے کہ '' روس کا بنیادی مسئلہ یوکرین نہیں ہے بلکہ وہ مستقبل میں ناٹو 'یورپی یونین اور روس کے ایک ساتھ رہنے کے واضح اصول متعین کرنا چاہتا ہے''ایک بات واضح ہے کہ فرانس بھی جنگ کے خلاف ہے 'حالات ابھی تک جوں کے توں ہیں لیکن تنازعہ سرد جنگ کی طرح دنیا کومغربی اور مشرقی دو کیمپوں میں تقسیم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
روس اور امریکی سربراہی میں ناٹو کے اتحادیوں کے درمیان 'موجودہ تنازعہ کو تجزیہ نگار یورپ کے اندر سیکیورٹی کے مستقبل میں تشکیل کے طور پر دیکھتے ہیں' امریکا کی خواہش ہے کہ ناٹو کو روسی سرحد تک لے جائے اور پھر یوکرین میں ایٹمی میزائل نصب کرکے روس کو ہمیشہ کے لیے زیر نگیں کردے۔صدر پیوٹن بہت عرصے سے مشرق کی طرف ناٹو کی پیش قدمی کو دیکھ رہے تھے۔
اب جب کہ ناٹو روس کے گھر تک آپہنچا تو صدر پیوٹن نے ایک لال لکیر کھینچ دی ہے کہ '' بس اس سے آگے روسی حلقہ اثر ہے اس طرف مزید پیش قدمی بند کرو ''۔امریکا کے ساتھ مذاکرات میں روس نے واضح طور پر مطالبہ کیا کہ یوکرین اور دوسری ریاستوں کو ناٹو کا ممبر نہ بنایا جائے' یوکرین میں کوئی ایٹمی ہتھیار نہ رکھے جائیں اورسابقہ مشرقی یورپ کے ممالک سے ناٹو مکمل طور پر نکل جائے'' امریکا نے ان مطالبات سے اتفاق نہیں کیا اور اس طرح مذاکرات ختم ہو گئے۔
امریکا بھی روس کے خلاف جنگ نہیں بلکہ پابندیوں کی دھمکی دے رہا ہے 'کیونکہ امریکا کو سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ 1990میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد دنیا نے امریکی بالادستی کو تسلیم کرلیااور دنیا ایک یونی پولر (Uni Polar)دنیا بن گئی 'اب چین اور روس بحرانوں سے نکل آئے ہیں۔
معاشی طور پر چین اور اسلحے اور فوجی طاقت کے لحاظ سے روس امریکی بالادستی کو چیلنج کر رہے ہیں۔امریکا کو روس کے ہاتھوں شام میں ہزیمت اٹھانی پڑی اور چین کے ہاتھوں معاشی میدان میں پسپا ہو رہا ہے 'اب ظاہرہو رہا ہے کہ دنیا پھر یونی پولر سے ملٹی پولر(Multi Polar) ہو رہی ہے 'جس سے امریکا کو اپنی بالادستی خطرے میں نظر آرہی ہے۔
امریکی صدر کسی طرح روس کو دبانا چاہتے ہیں لیکن ان کے اتحادی راضی نہیں ہو رہے' کیونکہ ان کو افغانستان میں امریکی کمزوری اور روس کے ساتھ معاشی فائدے نظر آرہے ہیں۔31جنوری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں روس نے واضح اعلان کیا تھا کہ روس یوکرین میں فوجی مداخلت نہیں کرنا چاہتالیکن مفربی ممالک یوکرین کو اسلحہ سے بھررہے ہیں'کچھ دنوں کے بعد امریکا نے جرمنی' پولینڈ اور رومانیہ میں3000فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس کے علاوہ 8000فوجی سٹینڈ بائی رکھنے کا حکم دیا۔
روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ مغربی ممالک جنگی فضاء قائم کر رہے ہیںجو بہت خطرناک ثابت ہوگی'امریکا نہ جانے کیا کرنا چاہتا ہے۔چین کے ساتھ تائیوان کے مسئلے پر حالت جنگ میں ہے اور روس کے ساتھ بلقان اور مشرقی یورپ کے مسئلے پر حالت جنگ میں ہے لیکن سامراجی بالادستی کا دور ختم ہونے کو ہے اور یہ چراغ آخر شب کی آخری لو نظر آرہی ہے۔
امریکا کے مغربی اتحادی اس صورت حال کو سمجھ رہے ہیں اسی لیے وہ روس کے خلاف جنگی ماحول کی مخالفت کر رہے ہیں'صدر بائیڈن بھی صورت حال کو جتنا جلد سمجھ لیں'اتنا ہی اچھا ہوگا۔