پاکستان میں رُوس کا مدہم کردار
وزیر اعظم جناب عمران خان دوروزہ دَورئہ رُوس پر ماسکو گئے ہیں
لاہور:
وزیر اعظم جناب عمران خان دوروزہ دَورئہ رُوس پر ماسکو گئے ہیں۔ ممکن ہے جب یہ سطور شایع ہوں، خان صاحب ماسکو سے واپس پاکستان آ چکے ہوں۔ وزیر اعظم نے ایسے حالات میں رُوس کا دَورہ کیا ہے جب کہا جارہا تھا کہ وطنِ عزیز میں اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کے کارن شاید خان صاحب یہ دَورہ نہ کر سکیں۔
ہم نے مگر یہ دیکھا ہے کہ اپوزیشن ایک بار پھر جناب عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کی جرأت و جسارت نہیں کر سکی ہے ۔وزیر اعظم صاحب کا تازہ دَورئہ رُوس ایک اہم سفارتی بریک تھرو قرار دیا جا رہا ہے ۔ دیکھنے والی بات مگر یہ ہے کہ حالیہ دَورئہ رُوس جناب عمران خان اور پاکستان کے لیے کتنا اہم اور مفید ثابت ہوگا ؟
رُوس دُنیا کی اہم ترین اور نہایت طاقتور مملکت ہونے کے باوجودپاکستان میں غیر نمایاں محسوس کی جاتی رہی ہے۔ رُوس کے بارے میں ہمارے ہاں تصورات و احساسات اتنے مثبت کبھی نہیں رہے۔ رُوس کو ''اسلام دشمن'' اور ''غاصب'' کی شکل میں پیش کیا گیا۔ امریکی خوشنودی کا حصول اس پروپیگنڈے کے پسِ پردہ بروئے کار تھا۔
ان مہمات نے کئی ذہنوں کو متاثر کیا۔کہا جا سکتا ہے کہ وطنِ عزیز کی مغرب پسند پالیسی ساز اشرافیہ نے بھی بوجوہ رُوس اور پاکستان کو قریب نہ آنے دیا۔پچاس ، ساٹھ اور ستر کے عشرے میں سوویت رُوس نے وسط ایشیائی مسلم ریاستوں میں جو جارحانہ کردار ادا کیا، اس نے بھی ہمارے ہاں رُوس کے بارے میں ایک خوف کی فضا پیدا کیے رکھی۔ پاکستان میں رُوسی خفیہ ادارے ، کے جی بی، کی ایسی صورت پیش کی جاتی رہی کہ ''کے جی بی'' کا ہر کارکن پاکستان اور اسلام دشمن ہے۔
اگر ہم ستّر کے عشرے میں دائیں بازو کے ایک ممتاز دانشور ، جناب آباد شاہ پوری، کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے رُوس پاکستان کو توڑنا چاہتا ہے۔ یہ کتابیں ہمیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ رُوس ہر شکل میں پاکستان کے گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے بے تاب ہے۔ ایسے پروپیگنڈوں نے رُوس کے بارے میں ہمارے ہاں منفی خیالات کو فروغ دینے میں اپنا ایک اہم کردار ادا کیا۔
رُوس کے بار ے میں پاکستان کے مختلف حلقوں میں کیا خیالات رہے ہیں، اس کی ایک جھلک ہمارے سامنے اُس وقت آتی ہے جب وطنِ عزیز کے نامور اور عالمی شہرت یافتہ شاعر، جناب فیض احمد فیض ، کو 1962 میں رُوس کی طرف سے امن کا لینن انعام (Lenin Peace Prize) ملا تو پاکستان میں دائیں بازُو کے دانشوروں، جرائد اور اخبارات نے اُن پر سخت تنقید کی۔
رُوس بھی اس کی لپیٹ میں لے لیا گیا۔ اس تنقید میں بے بنیاد اور بے جا طور پر فیض صاحب مرحوم کی کردار کشی بھی کی گئی۔ اگر ایسا ہی کوئی بڑا ادبی انعام فیض صاحب کو کسی مغربی ملک کی طرف سے دیا جاتا ( جیسا کہ نوبل انعام یا پولٹزر پرائز ہے)تو فیض صاحب کے حق میں یقیناًپُر زور تالیاں بجائی جاتیں۔ اِسی سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں رُوسی کردار کیونکر مدہم اور دھیما رہا ہے ۔
رُوس کے بارے میں ہمارے ہاں کس قدر منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے ، اس کا اندازہ ہمیں فیض احمد فیض صاحب مرحوم کی صاحبزادی ، محترمہ سلیمہ ہاشمی، کے ایک انٹرویو سے بھی ہوتا ہے ۔ سلیمہ ہاشمی صاحبہ نے گزشتہ دنوں اپنے عظیم والد صاحب کی 111ویں سالگرہ کے موقعے پر ایک برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہُوئے کہا: ''مجھے یاد ہے ۔
1974، 1975 کی بات ہے جب لاہور کا دائیں بازو کا ایک مشہور اخبار( سلیمہ صاحبہ نے اس اخبار کا نام بھی بتایا ہے) صبح ہی صبح ہمارے گھر آیا تو مَیں نے اس میں ایک خبر پڑھی۔ لکھا ہوا تھا کہ فیض صاحب روس گئے ہیں اور وہاں سے ان کو پچاس ہزار روپے ملے ہیں۔ ہمیں معلوم تھا کہ اتنے پیسے ہوں تو نظر بھی آ جائیں۔
اسں زمانے میں پچاس ہزار روپے بہت بڑی رقم تھی۔ تو مَیں نے فیض صاحب سے کہا کہ آپ اخبار والوں کو فون کر کے ڈانٹیں کہ انھوں نے غلط کیوں لکھا ہے۔فیض صاحب نے مجھے کہا کہ دیکھو، جو مجھے جانتے ہیں ،انھیں پتہ ہے مَیں کیسا ہُوں اور جو مجھے نہیں جانتے ،مَیں اُن کی پرواہ نہیں کرتا''۔
پاکستان میں چھپنے والی ایسی خبریں ، پاکستان میں بروئے کار رُوسی سفارتخانے کے توسط سے، ماسکو بھی پہنچتی تھیں اور یوں ماسکو کا پاکستان کے بارے میں رویہ تلخ تر ہوتا گیا۔ اس کا نقصان رُوس کو کم اور پاکستان کو زیادہ ہُوا۔ ساٹھ، ستّر اور اسّی کے عشرے میں شایع ہونے والے ہمارے کئی اخبارات و جرائد نے بھی ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر پاکستان میں رُوس کے کردار کو مدہم سے مدہم تر کرنے اور پسِ پشت ڈالنے میں بنیادی کردار ادا کیا ۔
وطنِ عزیز میں مگر ایسے اخبارات و جرائد ( اُردو اور انگریزی) کی تعداد مقابلتاً نہایت قلیل اور کم رہی جو پاکستان میں رُوسی کردار کا جھنڈا بلند کرنے کی مقدور بھر کوشش کررہے تھے ۔ ان میں سے تقریباً سبھی کے نام ہمارے لوح ِذہن سے بھی محو ہو چکے ہیں۔ البتہ ان جرائد میں سے چند ایک کے نام یاد رہ گئے ہیں ۔ مثال کے طور پر:ویو پوائنٹ، لیل و نہار،الفتح وغیرہ۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اسلام آباد ، کراچی اور لاہور میںہمیں کئی ایسے ، مقامی اور غیر ملکی، صحافی مل جاتے ہیں جو امریکا اور مغربی ممالک کے اخبارات و جرائد اور نجی ٹی ویوں کے نمایندہ ہیں لیکن رُوسی میڈیا کے نمایندگان پاکستان میں کم کم نظر آتے ہیں۔ اِسی طرح پاکستانی میڈیا کے کم ہی لوگ ایسے ہیں جو ماسکو جا کر پاکستانی اخبارات اور ٹی وی کی نمایندگی کررہے ہوں۔
ان حقائق سے بھی پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں رُوسی کردار اتنا کیوں اور کیونکر مدہم ہے ! یہ بات اہم بھی ہے اور دلچسپ بھی کہ ہم میں سے بہت سے لوگ لندن، واشنگٹن، نیویارک ، ٹورانٹو ایسے مغربی ممالک کے کئی مشہور اخبارات و جرائد اور ٹی ویوں کے نام تو بخوبی جانتے پہچانتے ہیں لیکن ہم میں سے کتنے ایسے لوگ ہوں گے جو رُوس کے بڑے اور اہم ترین شہروں سے شایع ہونیوالے اخبارات اور ٹی ویوں (مثلاً : رُوسیا24 چینل) کے ناموں سے آشنا ہیں؟ یہ حقیقت بھی رُوس کی طرف ہمارے کم کم رجحان اور جھکاؤ کی غمازی کرتی ہے۔
ہم ہالی وُڈ( امریکا) میں بننے والی فلمیں تو دیکھتے ہیں لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جنھوں نے کبھی رُوسی فلم انڈسٹری اور کسی رُوسی اداکار کا نام بھی سُنا ہو؟ ہم امریکی آرٹسٹ ، میڈونا، اور امریکی گلوکار، مائیکل جیکسن ، کو تو بخوبی جانتے ہیں لیکن کسی رُوسی گلوکارہ کا نام تک نہیں جانتے۔
یہ حقائق رُوس کی جانب ہمارے رجحانات کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر ہم معروف پاکستانی اشتراکی دانشور، جناب جمعہ خان صوفی، کی سیاسی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ('' فریبِ نا تمام'') کا مطالعہ کریں تو ہم پر منکشف ہوتا ہے کہ ستّر کے عشرے میں بعض پاکستانی اشتراکی دانشور و سیاستدان (از قسم اجمل خٹک وغیرہ) ماسکو میں بیٹھ کرپاکستان کے خلاف کیا کچھ کرتے رہے ہیں؟جمعہ خان صوفی کی مذکورہ کتاب پڑھ کر کوئی بھی محبِ وطن پاکستانی رُوس کے بارے میں مثبت خیالات نہیں رکھ سکتا۔
سوویت رُوس کے ٹوٹنے کے بعد مگر حالات میں جوہری تبدیلیاں آ چکی ہیں ۔ رُوس اور پاکستان رفتہ رفتہ قریب آنے کی کوشش کررہے ہیں۔اُمید کی جانی چاہیے کہ فروری کے ان ایام میں عمران خان نے ولادیمیر پوٹن سے ماسکو میں جو مصافحہ و معانقہ کیا ہے، اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔