ہندوستان کی ایک متعصب استاد

میرے والد پاکستان میں مقیم تھے اور ہم بہت جلد پاکستان جانے والے تھے


Zaheer Akhter Bedari February 25, 2022
[email protected]

لاہور: سات دہائیاں پہلے کی بات ہے، ہم حیدرآباد دکن میں رہتے تھے ہمارے گھر کے پاس ایک اسکول تھا جہاں ہندو اور مسلمان بچے تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے۔ اسکول میں ہندو اور مسلمان ٹیچرز بچوں کو تعلیم دیتی تھیں۔

میرے والد پاکستان میں مقیم تھے اور ہم بہت جلد پاکستان جانے والے تھے ، ہمارے اسکول میں ایک ہندو ٹیچر تھی جو ہمیں تیلگو پڑھاتی تھی، اس ٹیچر کی عمر تقریباً پچاس برس ہوگی۔

دبلی پتلی لمبی ساڑھی پہنتی تھی اس ٹیچر کا نام نرما دیوی تھا۔ صبح 8 بجے جب اسکول کے بچے اسمبلی میں کھڑے ہوتے تو ترانہ پڑھنے کے دوران وہ ٹیچر خود بھی لائن میں آکر کھڑی ہو جاتی اور بچوں کو ایک خطرناک نگاہ سے دیکھتی اور ہمارے قریب آ کر اس کے ہاتھ میں ایک پتلی سی چھڑی ہوتی تھی، ہم بچوں کے جسم پر مارتی تھی، ہم بری طرح سے رونے لگ جاتے۔

میرے دل میں خاص طور پر اس ٹیچر سے اتنی نفرت ہوگئی تھی کہ دل چاہتا تھا اس کے ہاتھ سے چھڑی چھین کر خوب مارتے اور مارتے جائیں اور پاکستان زندہ باد کا بھی نعرہ لگاتے جائیں مگر افسوس یہ حسرت دل ہی دل میں رہ گئی۔ ہمیں معلوم ہوا کہ ہم پاکستان جانے والے ہیں اور میرے والد پاکستان میں ہیں۔

بہرحال کچھ دنوں کے بعد ہم پاکستان آگئے مگر میرے ذہن میں اس ٹیچر کی آنکھوں میں جو مسلمانوں کے لیے نفرت تھی وہ میں کبھی بھی نہیں بھول سکتا۔

آج جب میں نے ٹی وی کی اسکرین پر ایک بہادر مسلمان طالبہ کو دیکھا تو دل خوش ہوا کہ ایک باہمت لڑکی مسکان وہ کام کرگئی جو ہم ستر برس سال پہلے نہ کر پائے، دل کو ایک بڑا سکون ملا اور میری بچپن کی خواہش پوری ہوگئی۔

کٹر ہندو انتہا پسند مسلمانوں کے لیے کوئی نہ کوئی اذیت دینے والی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی مساجد میں عید اور جمعہ کی نماز پڑھنے اور ٹوپی پہننے سے روکا جاتا ہے۔

مودی حکومت نے بھارت میں مسلمانوں کے لیے سانس لینا مشکل کردیا ہے۔ اب مسلمان لڑکیوں اور خواتین پر حجاب کی پابندی مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھارت میں مسلمان خواتین کو حجاب پہننے سے روکا جا رہا ہے۔

مختلف ممالک میں مسلمان خواتین اپنے آپ کو پردے میں رہنے کا طریقہ اختیار کرتی ہیں جس میں حجاب، برقعہ، اسکارف وغیرہ استعمال کرتی ہیں ، حجاب جس کا استعمال ہماری مسلمان خواتین نوجوان نسل میں بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے، شرم حیا عورت کا زیور ہے۔ مسلمان خواتین کا قابل فخر امتیاز ہے۔ مسلمان خواتین اور لڑکیاں گھر کے اندر اور گھر کے باہر تشدد کا شکار ہیں۔

بھارت کی ریاست کرناٹک سے تعلق رکھنے والی بہادر باہمت لڑکی مسکان حجاب پہنے کالج کے اندر داخل ہوتی ہے تو وہاں درجنوں ہندوتوا حامی زعفرانی جھنڈے اٹھائے حجاب کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔ مسلمان لڑکی مسکان برقعے میں حجاب باندھے کالج میں داخل ہوتے دیکھا تو کٹر ہندو انتہا پسند مسکان کی طرف دوڑ پڑے اور اسے ہراساں کرنے لگے۔

مسکان بڑی ہمت جرأت اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے ہوئے آگے بڑھتی رہی سب لوگ دنگ رہ گئے اور بڑے آرام سے نعرے لگاتی ہوئی کالج میں داخل ہوگئی اس دلیر لڑکی مسکان کی وڈیو تھوڑی سی دیر میں پوری دنیا میں وائرل ہوگئی۔

دنیا کی تمام مسلم خواتین مسکان کی حمایت میں کھڑی ہوگئیں، مودی حکومت اور انتہا پسند طبقہ بڑا پریشان ہے۔ حجاب فقط ہندوستان میں بسنے والی مسلمان خواتین کا حق نہیں بلکہ تمام کلمہ گو خواتین کا شرعی فریضہ ہے۔ ملک بھر میں جہاں جہاں مسلمان خواتین موجود ہیں، حجاب زندہ باد بھارت مردہ باد مسکان زندہ باد کے نعرے لگا ئے جا رہے ہیں۔

بھارت میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج ملک گیر تحریک بن گیا ہے۔ دنیا کے تمام مسلم طالب علم سڑکوں پر نکل آئے ہیں حجاب پر پابندی کو مسترد کردیا اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتے رہے۔

تمام امت مسلمہ کی ذمے داری ہے کہ وہ بھارت میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی کے لیے مل کر آواز اٹھائیں۔ مسلمان روزانہ کہیں نہ کہیں تعصب کا شکار ہوتے رہتے ہیں، کب تک ہم مسلمان ہندو انتہا پسندی کا نشانہ بنتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔