لیاری کی موجودہ صورت حال
شہر کراچی کے قدیمی علاقے لیاری کی ایک جداگانہ شناخت ہے
ISLAMABAD:
شہر کراچی کے قدیمی علاقے لیاری کی ایک جداگانہ شناخت ہے ۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ جیسے لیاری کراچی کا ایک حصہ ہونے کے باجود کراچی کا حصہ نہ ہو ۔بالکل اسی طرح جس طرح کراچی سندھ کا حصہ ہونے کے باوجود سندھ سے الگ معلوم ہوتا ہے ۔
یہ تفریق در تفریق دراصل سیاست کی پیدا کردہ ہے یہی وجہ ہے کہ دیہی اور شہری سندھ کی اصطلاح عام سی بات ہے اسی طرح لیاری اور کراچی کے متعلق معاملہ ہے کہ لیاری کی حدود سے باہر نکلوتو لیاری کے بارے میں بھی ایک الگ سوچ پائی جاتی ہے جب کہ لیاری بھی کراچی کا ایک حصہ ہے اور کراچی بھی سندھ ہے لیکن سیاست نے ان میں تفریق پیدا کی ہوئی ہے ۔
جس طرح کراچی سندھ کا حصہ ہوتے ہوئے بھی سندھ سے الگ مقام رکھتا ہے اسی طرح لیاری بھی کراچی کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اپنا منفرد حیثیت و شناخت رکھتا ہے ۔اس معروف تفریق کے مد نظر ہم آپ کو لیاری کی موجودہ صورت حال سے باخبر رکھنے کی سعی کررہے ہیں ۔
ان دنوں لیاری میں تحریک انصاف پاکستان اور ان کی اتحادیوں پرمشتمل وفاقی حکومت کا بوریا بسترا گول کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے 27فروری کے لانگ مارچ کی تیاریاں عروج پر ہیں ۔
لیاری بھر میں پی پی کے مرکزی ،صوبائی اور مقامی رہنما متحرک ہیں ۔لیاری کے مختلف علاقوں کے لوگوں کو لانگ مارچ میں شرکت کرنے کے لیے گرمایا جارہا ہے ۔ نعرہ بھٹو جئے بھٹو ، زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ۔ جیسے نعروں کی صدا ہے ایسے میں پی پی پارٹی کی بلوچی زبان کا ترانہ ، دلا تیر بجا ایں دشمناں تئی،کی گونج ہے ۔یعنی دلوں پر تیر چلاؤ ، یہ دشمن ہیں تیرے ۔ پر پارٹی جیالے رقصاں ہیں ۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت لیاری میں منتخب ایم این اے اور منتخب ایم پی ایزکا تعلق پی پی سے نہیں ہیں البتہ لیاری سے تعلق رکھنے والی شازیہ کریم سنگھار پی پی کی جانب سے خاتون کی خصوصی نشست پر سندھ اسمبلی کی رکن ہیں ۔
لیاری کااکلوتا رکن قومی اسمبلی شکور شاد جو کبھی پی پی کا سرگرم جیالا تھا اب پی ٹی آئی سے تعلق رکھتا ہے ،ایک رکن سندھ اسمبلی عبدالرشید کا تعلق جماعت اسلامی سے ،ایک ایم پی اے کا تعلق تحریک لبیک سے ہے ۔ان عوامی نمایندوں میں سے شکور شاد ،عبدالرشید اور شازیہ سنگھار کسی نہ کسی حد تک عوام کے درمیان نظر آتے ہیں ۔
عوامی خدمت کرنے کے حوالے سے رکن قومی اسمبلی شکور شاد کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے لیاری میں 55کروڑ روپے کی لاگت سے ترقیاتی کام کروائے جارہے ہیں جب کہ رکن سندھ اسمبلی عبدالرشید پی پی کی صوبائی سندھ حکومت سے نالاں نظر آتے ہیں اور فنڈز کی عدم فراہمی کی شکایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اپنی تنخواہ میں سے علاقے میں ترقیاتی کام کرواتے ہیں اور ان کی عوامی خدمت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہی ہیں ۔
حال ہی میں ایم پی اے عبدالرشید کے حلقے میں سیوریج کے مسائل گھمبیر صورت حال اختیار کرگئے ۔ دوسری طرف پی پی کی صوبائی حکومت لیاری کے لیے ڈھائی ارب روپے کا ترقیاتی پیکیج کا اعلان کرچکی ہے ۔
جب کہ تیسری جانب لیاری کے مکینوں کی داد و فریادیں ہیں کہ کوئی انھیں پوچھتا تک نہیں کہ لیاری والو تم زندہ ہوکہ مرگئے ہو ؟ ابلتے گٹر ،گندگی کے ڈھیر ، سیوریج کے نظام نے ہم لیاری والوں کا جینا حرام کررکھا ہے ،گٹر کا گندا پانی گھروں میں داخل ہورہا ہے ،گھروں میں نماز پڑھنے کے لے بھی جگہ نہیں ہے ، کوئی صاف کرنے والا نہیں ہے ، کوئی دیکھنے اور سننے والا نہیں ہے۔
گٹر کا پانی ٹوٹی پھوٹی گلیوں سے ہوتا ہوا مسجد اور مدرسہ کے اطراف جمع ہے جہاں نمازیوں اور طالب علموں کو مشکلات کا سامنا ہے اس ابتر صورت حال کی ذمے داری اٹھانے والا کوئی نہیں ہے ، سب جلسہ جلوس میں مصروف ہیں۔
اہل لیاری کی شکایت میں سے چند درج ذیل ہیں ۔ درسگاہوں کو تباہ کیا جارہا ہے ، اساتذہ کرام کی تذلیل کی جارہی ہے ،شہید محترمہ بے نظیر بھٹویونی ورسٹی لیاری کے وائس پرنسپل کو سندھ حکومت نے 45روز کے لیے جبری چھٹی پر بھیج دیا ہے۔ میڈیکل کالج لیاری میں بیرونی لوگوں کو کھپایا جارہا ہے ،بلدیہ کا لیاری زونل آفس ویران کردیا گیا ہے۔
لیاری میں منشیات فروشی عام کی جارہی ہے ، جوئے اور سٹے کے اڈے پھل پھول رہے ہیں ،مین شارع عبدالرحیم بلوچ گزشتہ چار سالوں سے تباہ حال ہے اس سڑک پر آئے روز حادثات ہوتے رہتے ہیں اور اب تک اس کھنڈر سڑک پر تین چار اموات ہوچکی ہیں کوئی پرسان حال نہیں ہے ،لیاری سے وابستہ بلدیہ جنوبی کے اسکولوں کے دوسو اساتذہ کووعدے کے مطابق مستقل کرنے کے بجائے ان کے کنٹریکٹ کو ختم کیا جارہا ہے جب کہ وہ گزشتہ دس سالوں سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
بلدیہ عالیہ جنوبی کے صحت کے مراکز تباہ حال ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں، لیاری بلڈر مافیا کے نرغے میں ہے سادہ لوح لوگوں کو سنہرے خواب دکھلاکر ان کی زمینیں ہڑپ کی جارہی ہیں اور چھوٹی جگہوں پر بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں ،لیاری ڈگری کالج میں اساتذہ کی کمی کی وجہ سے طالب علموں کی پڑھائی متاثر ہورہی ہے ،بلاول بھٹو زرداری انجینئر کالج لیاری کا تعمیراتی کام التوا کا شکار ہے ،گزشتہ تین سالوں سے لیاری میڈیکل کالج کا مزید تعمیراتی کام التوا میں ہے۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو لاء کالج کو لیاری سے منتقل کرنے کی باز گشت ہے ، ڈھائی ارب روپے کی ترقیاتی پیکیج کہاں ہے ؟ لیاری میں سیوک سینٹر تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا ،اس کا کیا بنا ؟ لیاری میں سوئی گیس کی فراہمی بند ہے لیکن بھاری بل برابر صارفین کو ارسال کیے جارہے ہیں ،اسی طرح بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کے باوجود ہزاروں اور لاکھوں روپے کے بل صارف کو بھیجے جارہے ہیں ، بلدیہ عالیہ جنوبی کی لائبریریز کے فنڈز بند کردیے گئے ہیں جس وجہ سے وہاں ویرانی چھائی ہوئی ہے ۔
وہ دن دور نہیں جب لیاری کے لوگ اپنے حق کے لیے سڑکوں پر احتجاج کررہے ہونگے۔اس سے پہلے کہ متوقع بلدیاتی انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو مایوسی کا سامنا ہو وہ لیاری کے درد کو محسوس کریں اور مسائل حل کریں ۔ اب لیاری کے لوگ وعدوں پر اعتبار نہیں کرتے ،وہ اب عملی کام چاہتے ہیں ۔