ایک جن کی سر گزشت
یہ چند برس پہلے کا واقعہ ہے ، ایک شب میں اپنی چھت پر ٹہل رہا تھا
NEW DELHI:
یہ چند برس پہلے کا واقعہ ہے ، ایک شب میں اپنی چھت پر ٹہل رہا تھا۔ رات کے کوئی دو بج رہے ہوں گے میری چہل قدمی کی وجہ طبیعت کی بے چینی تھی جو اس رات مجھے عجیب طرح سے مضطرب کیے ہوئے تھی، چھت پر نیم تاریکی تھی۔
ایک زیرو کا بلب جل رہا تھا ، ماحول پر عجیب سی وحشت طاری تھی ہر سو سناٹا تھا جو آواز تھی وہ خود میرے ہی قدموں کی تھی۔ میں آہستہ آہستہ walk کر رہا تھا کہ کسی طور کچھ تھکاوٹ ہو اور نیند آنے کا کوئی سلسلہ بنے ، کہ ایک چکر میں مجھے احساس ہوا جیسے کوئی مجھے دیکھ رہا ہو اور ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا ہو۔ میں نے فوری طور پرگرد و پیش کا جائزہ لیا اور بغور دیکھنے کی کوشش کی کہ کون ہے۔
میں نے اب باقاعدہ چھت کے کونے کھدروں کا جائزہ لینا شروع کیا تو پتا چلا کہ چھت کے ایک کونے میں کوئی اکڑوں بیٹھا ہوا ہے ، یہ دیکھ کر خوف کی ایک شدید پھریری میرے سارے جسم میں کوند گئی اور میں یہ سوچ کرکہ کوئی شخص میرے گھر میں میری اجازت کے بغیر موجود ہے یقینا یہ کوئی ڈاکو یا چور ہے جو ابھی گن نکالے گا اور مجھے نیچے گھر میں جانے کا حکم دے گا پھر لوٹ کھسوٹ کا عمل شروع کرے گا۔ میں خوف سے کانپ رہا تھامگر وہ وجود اپنی جگہ ویسے ہی بیٹھا رہا ایک خاص بات یہ تھی کہ اس نے اپنا سرگھٹنوں میں دیا ہوا تھا اور وہ مسلسل اسی حالت میں بیٹھا ہوا تھا کوئی جنبش تک نہ تھی گویا ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ شخص بیمار ہو۔
اب میرے خوف میں کچھ کمی آنا شروع ہوگئی تھی اور اس کی جگہ حیرت و استعجاب نے لے لی تھی کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے لیکن خوف اب بھی کسی قدر تھا کہ آخر یہ ہے کون اور میرے سارے گھر کو عبور کرکے چھت تک کیسے جا پہنچا ؟ میں ایک ٹک اسی کودیکھ رہا تھا اس کا پورا وجود سیاہ تھا لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے کوئی چادر بھی نہیں اوڑھی ہوئی تھی پھر بھی اس کے چاروں اطراف اندھیرا تھا بہت گہری سیاہی۔ پھر میں نے آخر کار کچھ ہمت کرنے کی ٹھانی اور ایک دو قدم اس کی جانب بڑھائے کچھ ہنکار نے کی آواز پیدا کی ، لیکن اس طرف مکمل خاموشی رہی میں کچھ اور آگے بڑھا اور سوال کیا '' کون؟'' کوئی جواب نہیں ملا۔ میں نے پھر پوچھا ''بھائی کون ہو ؟ اور یہاں کیا کر رہے ہو؟'' اس بار بھی جواب نہ ملنے پر میں اور آگے بڑھا اور کسی قدر قریب ہوکر اس کا جائزہ لیا تو مجھے ایک عجیب سی بوُ کا احساس ہوا ایسی بو جس کا کوئی تجربہ یا مشاہدہ مجھے اس سے قبل نہ ہوا تھا وہ گٹھڑی نما کوئی چیز تھی۔
اب میر ے خوف میں نمایاں کمی آچکی تھی میں نے ہمت کرکے زیادہ تیز آواز میں دریافت کیا ''کون ہے بتائے ورنہ میں پولیس کو کال کررہا ہوں'' اور یہ کہتے ہوئے میں نے اسے کاندھے کی طرف سے ہلایا تب پہلی بار اس نے اپنا سر اٹھایا اور میری سمت دیکھا۔
اف خدایا وہ چہرہ کسی انسان کا نہیں تھا ، اس پر ناک ایک چونچ جیسی کافی آگے کی جانب نکلی ہوئی تھی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور اتنی چھوٹی تھیں کہ نظر ہی نہیں آرہی تھیں وہ ایسے گڑھے تھے جن میں اندھیرا تھا ، ماتھا ضرورت سے زیادہ بڑا تھا ہاتھ پیر دکھائی ہی نہیں دے رہے تھے چہرہ وجود کی مانند سیاہ تھا میں اب بری طرح سے خوفزدہ تھا مجھے لگا موت مجھ سے کہیں قریب ہی کھڑی ہے یا یہی موت ہے کیونکہ وہ اس قدرکریہہ المنظر چہرہ تھا کہ بیان سے باہر۔ ظاہر ہے وہ کوئی انسانی چہرہ نہیں تھا نا وہ جسم انسانی تھا میں تھر تھرکانپ رہا تھا اور قریب تھا کہ بے ہوش ہوجاتا اس وجود سے ایک منحنی سی آواز برآمد ہوئی۔
یہ دور سے آتی ہوئی آواز کی جیسی تھی اور اس میں ن غنّہ کی کافی آمیزش تھی جیسے کوئی ناک میں بول رہا ہو '' تم سیف الزماں '' ہو ، میں جانتا ہوں پہلی بات یہ ہے کہ مجھ سے مت ڈرو میں تم جیسا نہیں ہوں لیکن خطرناک بالکل نہیں ہوں۔ میں ہنوز خاموش تھا اور کانپ رہا تھا مجھے لگ رہا تھا کہ یہ کوئی بلا ہے جو مجھے ہلاک کردے گی ، لیکن میں ہلنے جلنے سے بھی معذور سا ہوگیا تھا ، ششدر تھا اور سہما ہوا وہ پھر گویا ہوا ''سنو مجھ سے مت ڈرو ، میں تمہاری منت کرتا ہوں میں تم ہی سے ملنے تو آیا ہوں۔ '' وہ آواز پتہ نہیں میری تھی یا کوئی اور بول رہا تھا بہرحال کسی نے میرے حلق سے سوال کیا تھا '' تم کون ہو؟'' جواب ملا بیٹھ جاؤ اور پھر میں تمہیں سب کچھ بتادوں گا۔
میں گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گیا جیسے کسی نے مجھے پھانسی کی سزا سنا دی ہو۔ اب میں اس کی تحویل میں تھا ،اس نے کہا '' میں ایک جن ہوں ۔یہیں تمہارے گھر سے کچھ دور ایک خالی ٹوٹے ہوئے گھر میں فی الحال میرا بسیرا ہے۔ میرا تم سے ملنے کا مقصدکچھ موضوعات پرگفتگوکرنا ہے میں جانتا ہوں کہ تم شوقیہ ایک اخبار میں کالم کے نام پر کچھ لکھنے کی طبع آزمائی کرتے ہو اور تقریبا گمنام ہو۔ تمہاری آواز صدا بہ صحرا ہے کوئی تمہیں نہیں پڑھتا کوئی تمہیں نہیں جانتا لیکن میں تمہاری ہر تحریر کا قاری ہوں یہ بات سن کر خوش ہوسکتے ہو تو ہوجاؤ کہ میں تمہارا مداح بھی ہوں کیونکہ میں خود بھی تمہارے جیسا ہوں میں بھی اپنی دنیا میں ایک اخبار میں تمہاری ہی طرح کا ایک بے اثر ، بے ثمر لکھنے والا ہوں مجھ سے مت ڈرو ، میری بات سنو جو مجھے جاننا ہے وہ صرف تم بتاسکتے ہو۔
میں اب بھی نیم بے ہوش ہی تھا کیونکہ وہ ایک بہت خوفناک وجود تھا جس سے گھن آرہی تھی اور وہ smell ناقابلِ برداشت تھی۔ بہرحال میں چاروناچار وہاں بیٹھنے پر بھی مجبور تھا اور جیسے تیسے اس کی بات بھی سن رہا تھا وہ اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھا۔ سنو یہی وہ خوف ہے جو ہمیں اپنے لیے کچھ بھی نہیں کرنے دیتا ایک جن کا خو ف ایک طاقت کا ڈر ، مارے جانے کی دہشت ، سیف بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ یہ خوف ہے۔
سنو ایک جن کا اوسطا قد ساڑھے تین فٹ سے زیادہ کبھی نہیں ہوتا وہ سب بھی میری طرح سے اکڑوں ہی بیٹھتے ہیں تم نے آج مجھے دیکھ لیا وہ مخلوق جس سے تمہاری دنیا کے سبھی انسان خوفزدہ رہتے ہیں ، لیکن میرا سوال یہ ہے کہ ہمارا خوف اسی لیے ہے نہ کہ تمہیں ہم سے جان کا خطرہ ہے حالانکہ ہم نے کبھی کسی کی جان نہیں لی حقیقت تم بھی جانتے ہو ، میں بھی۔ کہ جب کوئی غربت سے فاقہ کشی سے مرجاتا ہے تو اس کے گھر والے کہتے ہیں مرحوم پر کسی چڑیل کا سایہ تھا ، افلاس کے باعث جب کسی لڑکی کی شادی نہیں ہو پاتی تو کہتے ہو اس پر جن کا قبضہ ہے ، کاروبار ملکی حالات کی وجہ سے بیٹھ جاتا ہے تو قرار دیتے ہو کہ بندش ہے! میرا سوال یہ بھی ہے کہ APS SCHOOLکے ساڑھے تین سو بچے کیا جنات نے مارے تھے ؟ آج ملک میں بدترین مہنگائی ہے تو کیا انڈیا نے بندش کروا دی ہے؟
تم 98%غریب اپنے الیکشنز میں 2% امیر ترین ، بے ایمان ، کرپٹ لوگوں کا انتخاب کرتے ہو اور قسمت کی خرابی کو ذمے دار بتاتے ہو ، تم ہم سے ڈرتے ہو، موت کی وجہ سے تو تمہیں اپنی صفوں سے اس ظالم کا خو ف کیوں نہیں ہے جو تمہاری نسلوں کا مستقبل برباد کر رہا ہے ۔ سیف خوف کی کیمسٹری تو ایک ہی ہوتی ہے پھر یہ جن اور انسان کے بیچ بدل کیسے گئی۔ اچانک چھت پر خاموشی طاری ہوگئی میں نے سامنے دیکھا تو کچھ نہیں تھا ،کوئی نہیں تھا۔البتہ میرا خوف تھا۔
یہ چند برس پہلے کا واقعہ ہے ، ایک شب میں اپنی چھت پر ٹہل رہا تھا۔ رات کے کوئی دو بج رہے ہوں گے میری چہل قدمی کی وجہ طبیعت کی بے چینی تھی جو اس رات مجھے عجیب طرح سے مضطرب کیے ہوئے تھی، چھت پر نیم تاریکی تھی۔
ایک زیرو کا بلب جل رہا تھا ، ماحول پر عجیب سی وحشت طاری تھی ہر سو سناٹا تھا جو آواز تھی وہ خود میرے ہی قدموں کی تھی۔ میں آہستہ آہستہ walk کر رہا تھا کہ کسی طور کچھ تھکاوٹ ہو اور نیند آنے کا کوئی سلسلہ بنے ، کہ ایک چکر میں مجھے احساس ہوا جیسے کوئی مجھے دیکھ رہا ہو اور ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا ہو۔ میں نے فوری طور پرگرد و پیش کا جائزہ لیا اور بغور دیکھنے کی کوشش کی کہ کون ہے۔
میں نے اب باقاعدہ چھت کے کونے کھدروں کا جائزہ لینا شروع کیا تو پتا چلا کہ چھت کے ایک کونے میں کوئی اکڑوں بیٹھا ہوا ہے ، یہ دیکھ کر خوف کی ایک شدید پھریری میرے سارے جسم میں کوند گئی اور میں یہ سوچ کرکہ کوئی شخص میرے گھر میں میری اجازت کے بغیر موجود ہے یقینا یہ کوئی ڈاکو یا چور ہے جو ابھی گن نکالے گا اور مجھے نیچے گھر میں جانے کا حکم دے گا پھر لوٹ کھسوٹ کا عمل شروع کرے گا۔ میں خوف سے کانپ رہا تھامگر وہ وجود اپنی جگہ ویسے ہی بیٹھا رہا ایک خاص بات یہ تھی کہ اس نے اپنا سرگھٹنوں میں دیا ہوا تھا اور وہ مسلسل اسی حالت میں بیٹھا ہوا تھا کوئی جنبش تک نہ تھی گویا ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ شخص بیمار ہو۔
اب میرے خوف میں کچھ کمی آنا شروع ہوگئی تھی اور اس کی جگہ حیرت و استعجاب نے لے لی تھی کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے لیکن خوف اب بھی کسی قدر تھا کہ آخر یہ ہے کون اور میرے سارے گھر کو عبور کرکے چھت تک کیسے جا پہنچا ؟ میں ایک ٹک اسی کودیکھ رہا تھا اس کا پورا وجود سیاہ تھا لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے کوئی چادر بھی نہیں اوڑھی ہوئی تھی پھر بھی اس کے چاروں اطراف اندھیرا تھا بہت گہری سیاہی۔ پھر میں نے آخر کار کچھ ہمت کرنے کی ٹھانی اور ایک دو قدم اس کی جانب بڑھائے کچھ ہنکار نے کی آواز پیدا کی ، لیکن اس طرف مکمل خاموشی رہی میں کچھ اور آگے بڑھا اور سوال کیا '' کون؟'' کوئی جواب نہیں ملا۔ میں نے پھر پوچھا ''بھائی کون ہو ؟ اور یہاں کیا کر رہے ہو؟'' اس بار بھی جواب نہ ملنے پر میں اور آگے بڑھا اور کسی قدر قریب ہوکر اس کا جائزہ لیا تو مجھے ایک عجیب سی بوُ کا احساس ہوا ایسی بو جس کا کوئی تجربہ یا مشاہدہ مجھے اس سے قبل نہ ہوا تھا وہ گٹھڑی نما کوئی چیز تھی۔
اب میر ے خوف میں نمایاں کمی آچکی تھی میں نے ہمت کرکے زیادہ تیز آواز میں دریافت کیا ''کون ہے بتائے ورنہ میں پولیس کو کال کررہا ہوں'' اور یہ کہتے ہوئے میں نے اسے کاندھے کی طرف سے ہلایا تب پہلی بار اس نے اپنا سر اٹھایا اور میری سمت دیکھا۔
اف خدایا وہ چہرہ کسی انسان کا نہیں تھا ، اس پر ناک ایک چونچ جیسی کافی آگے کی جانب نکلی ہوئی تھی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور اتنی چھوٹی تھیں کہ نظر ہی نہیں آرہی تھیں وہ ایسے گڑھے تھے جن میں اندھیرا تھا ، ماتھا ضرورت سے زیادہ بڑا تھا ہاتھ پیر دکھائی ہی نہیں دے رہے تھے چہرہ وجود کی مانند سیاہ تھا میں اب بری طرح سے خوفزدہ تھا مجھے لگا موت مجھ سے کہیں قریب ہی کھڑی ہے یا یہی موت ہے کیونکہ وہ اس قدرکریہہ المنظر چہرہ تھا کہ بیان سے باہر۔ ظاہر ہے وہ کوئی انسانی چہرہ نہیں تھا نا وہ جسم انسانی تھا میں تھر تھرکانپ رہا تھا اور قریب تھا کہ بے ہوش ہوجاتا اس وجود سے ایک منحنی سی آواز برآمد ہوئی۔
یہ دور سے آتی ہوئی آواز کی جیسی تھی اور اس میں ن غنّہ کی کافی آمیزش تھی جیسے کوئی ناک میں بول رہا ہو '' تم سیف الزماں '' ہو ، میں جانتا ہوں پہلی بات یہ ہے کہ مجھ سے مت ڈرو میں تم جیسا نہیں ہوں لیکن خطرناک بالکل نہیں ہوں۔ میں ہنوز خاموش تھا اور کانپ رہا تھا مجھے لگ رہا تھا کہ یہ کوئی بلا ہے جو مجھے ہلاک کردے گی ، لیکن میں ہلنے جلنے سے بھی معذور سا ہوگیا تھا ، ششدر تھا اور سہما ہوا وہ پھر گویا ہوا ''سنو مجھ سے مت ڈرو ، میں تمہاری منت کرتا ہوں میں تم ہی سے ملنے تو آیا ہوں۔ '' وہ آواز پتہ نہیں میری تھی یا کوئی اور بول رہا تھا بہرحال کسی نے میرے حلق سے سوال کیا تھا '' تم کون ہو؟'' جواب ملا بیٹھ جاؤ اور پھر میں تمہیں سب کچھ بتادوں گا۔
میں گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گیا جیسے کسی نے مجھے پھانسی کی سزا سنا دی ہو۔ اب میں اس کی تحویل میں تھا ،اس نے کہا '' میں ایک جن ہوں ۔یہیں تمہارے گھر سے کچھ دور ایک خالی ٹوٹے ہوئے گھر میں فی الحال میرا بسیرا ہے۔ میرا تم سے ملنے کا مقصدکچھ موضوعات پرگفتگوکرنا ہے میں جانتا ہوں کہ تم شوقیہ ایک اخبار میں کالم کے نام پر کچھ لکھنے کی طبع آزمائی کرتے ہو اور تقریبا گمنام ہو۔ تمہاری آواز صدا بہ صحرا ہے کوئی تمہیں نہیں پڑھتا کوئی تمہیں نہیں جانتا لیکن میں تمہاری ہر تحریر کا قاری ہوں یہ بات سن کر خوش ہوسکتے ہو تو ہوجاؤ کہ میں تمہارا مداح بھی ہوں کیونکہ میں خود بھی تمہارے جیسا ہوں میں بھی اپنی دنیا میں ایک اخبار میں تمہاری ہی طرح کا ایک بے اثر ، بے ثمر لکھنے والا ہوں مجھ سے مت ڈرو ، میری بات سنو جو مجھے جاننا ہے وہ صرف تم بتاسکتے ہو۔
میں اب بھی نیم بے ہوش ہی تھا کیونکہ وہ ایک بہت خوفناک وجود تھا جس سے گھن آرہی تھی اور وہ smell ناقابلِ برداشت تھی۔ بہرحال میں چاروناچار وہاں بیٹھنے پر بھی مجبور تھا اور جیسے تیسے اس کی بات بھی سن رہا تھا وہ اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھا۔ سنو یہی وہ خوف ہے جو ہمیں اپنے لیے کچھ بھی نہیں کرنے دیتا ایک جن کا خو ف ایک طاقت کا ڈر ، مارے جانے کی دہشت ، سیف بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ یہ خوف ہے۔
سنو ایک جن کا اوسطا قد ساڑھے تین فٹ سے زیادہ کبھی نہیں ہوتا وہ سب بھی میری طرح سے اکڑوں ہی بیٹھتے ہیں تم نے آج مجھے دیکھ لیا وہ مخلوق جس سے تمہاری دنیا کے سبھی انسان خوفزدہ رہتے ہیں ، لیکن میرا سوال یہ ہے کہ ہمارا خوف اسی لیے ہے نہ کہ تمہیں ہم سے جان کا خطرہ ہے حالانکہ ہم نے کبھی کسی کی جان نہیں لی حقیقت تم بھی جانتے ہو ، میں بھی۔ کہ جب کوئی غربت سے فاقہ کشی سے مرجاتا ہے تو اس کے گھر والے کہتے ہیں مرحوم پر کسی چڑیل کا سایہ تھا ، افلاس کے باعث جب کسی لڑکی کی شادی نہیں ہو پاتی تو کہتے ہو اس پر جن کا قبضہ ہے ، کاروبار ملکی حالات کی وجہ سے بیٹھ جاتا ہے تو قرار دیتے ہو کہ بندش ہے! میرا سوال یہ بھی ہے کہ APS SCHOOLکے ساڑھے تین سو بچے کیا جنات نے مارے تھے ؟ آج ملک میں بدترین مہنگائی ہے تو کیا انڈیا نے بندش کروا دی ہے؟
تم 98%غریب اپنے الیکشنز میں 2% امیر ترین ، بے ایمان ، کرپٹ لوگوں کا انتخاب کرتے ہو اور قسمت کی خرابی کو ذمے دار بتاتے ہو ، تم ہم سے ڈرتے ہو، موت کی وجہ سے تو تمہیں اپنی صفوں سے اس ظالم کا خو ف کیوں نہیں ہے جو تمہاری نسلوں کا مستقبل برباد کر رہا ہے ۔ سیف خوف کی کیمسٹری تو ایک ہی ہوتی ہے پھر یہ جن اور انسان کے بیچ بدل کیسے گئی۔ اچانک چھت پر خاموشی طاری ہوگئی میں نے سامنے دیکھا تو کچھ نہیں تھا ،کوئی نہیں تھا۔البتہ میرا خوف تھا۔