سیاست دان توجہ دیا کریں
رب نے آپ کو ہمت عزت و توقیر سے نوازا ہے اس کھیل کا خاتمہ رینجرز ہی کرسکتی ہے
گزشتہ کچھ دنوں سے اخبارات میں متواتر خبریں شایع ہو رہی ہیں، جن پر ابھی تبصرہ کرنا بے کار ہے اور یہ دیکھنا ہوگا کہ ان خبروں کے کیا رزلٹ ہیں۔
پچھلے دنوں نیشنل اسٹیڈیم میں سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ (ایس ڈبلیو ائی ٹی) کے زیر اہتمام ایک سادہ مگر پروقار تقریب منعقد ہوئی اس موقع پر صدر پاکستان عارف علوی نے خصوصی شرکت کرکے آئی ٹی سے وابستہ طلبا کی بہتر انداز میں حوصلہ افزائی کی انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں آئی ٹی میں 8 کروڑ لوگوں کی ضرورت ہے۔
حکومت نے آئی ٹی کے شعبے کے لیے نئے قوانین بنائے ہیں اور حکومت نے 10 لاکھ روپے تک مالی مدد کے حوالے سے کامیاب نوجوانوں پر خاص توجہ دی یہ 10 لاکھ روپے کی مالی مدد سود سے پاک ہوگی نوجوان اپنی تعلیم پر خصوصی توجہ دیں۔
سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے بانی مولانا بشیر احمد فاروقی نے کہا کہ ہماری زندگی عوام کی خدمت ہے۔ روزنامہ ایکسپریس سے مولانا بشیر فاروقی نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگر ہم غریبوں کے دستر خوانوں کا اہتمام کرتے ہیں تو میں نے سوچا کیوں اپنے پیارے پاکستان کے ہونہاروں کے لیے آئی ٹی کے حوالے سے قدم اٹھایا جائے میں صدر پاکستان کا بھی مشکور ہوں کہ انھوں نے اس نیک کام میں سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کا بھرپور ساتھ دیا اور مجھے امید ہے کہ ہم عوام کی دعا کے ناتے اس مرحلے میں بھی رب کی منظوری سے کامیابی سے تعلیم کے ہونہار آئی ٹی پروگراموں میں ترقی کریں گے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہمارا ملک تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو یہ میری بہت بڑی خواہش تھی جو پوری ہوئی۔
اخبارات کے مطابق 2025 میں پاکستان پانی کی مکمل قلت کی طرف بڑھ رہا ہے ، آج سے 15 سال پہلے راقم گیس کے حوالے سے بہت کچھ پڑھا کرتا تھا کہ مستقبل میں پاکستان میں گیس کی قلت کا اندیشہ ہے اس پر میں نے ایکسپریس میں کالم بھی لکھا تھا کاش اس وقت کے سیاستدان جو برسر اقتدار بھی رہے خصوصی توجہ دیتے تو ہمیں گیس کے حوالے سے یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ 15 سال سے سیاست میں جو نئے پودے تشکیل ہوئے ہیں وہ صرف اپنا دامن بچاؤ کے فارمولے پر کھڑے ہیں۔
اس وقت کے سینئر سیاستدان اگر گیس کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچتے تو قوم کو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ، لہٰذا اب وقت ہے کہ ڈیم بنائے جائیں تاکہ آنے والے برے وقت سے پہلے ہم پانی کے حوالے سے خوشحالی کی زندگی گزار لیں۔
ابھی تین سال میں ہمارے پاس یہ ڈیم بنے گا وہ ڈیم نہیں بنے گا کے جھگڑے کو چھوڑ دیں اور قوم کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہوں کیوں کہ پانی گھروں کی ضرورت تو ہے مگر زمینوں کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے پانی بہت ضروری ہے۔ ملک تو خود کفیل جب ہی ہوگا جب زمیندار اور زمین کو پانی ملے گا لہٰذا اس پر خصوصی توجہ دی جائے۔
آج کل پیکا آرڈیننس (صحافیوں کے حوالے سے ) کا تذکرہ دن رات اخبارات کی زینت بنا ہوا ہے۔ اس مسئلے کو بھی سب کو خوش اسلوبی سے حل کرنا ہوگا اور اس مسئلے کو ہماری معزز عدالتیں ہی خوش اسلوبی سے نمٹا دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
بس اتنا ہی کافی ہے ڈی جی رینجرز کی صدارت کے تحت گزشتہ دنوں اسٹریٹ کرائم کے سدباب کے لیے حکمت عملی ڈی جی رینجرز میجر جنرل افتخار حسن چوہدری صاحب نے تجویز دی ۔آپ کے اس نیک جذبے کو کراچی کے لوگ آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
ڈاکوؤں نے زندگی عذاب کردی ہے کسی کو مار دیتے ہیں یا زخمی کرتے ہیں جو زخمی ہوتے ہیں وہ زندگی بھر کے لیے محتاج ہو جاتے ہیں ویسے بھی ایک شخص اپنے بچوں کے لیے روزگار پر نکلتا ہے اور لاش کی صورت میں گھر واپس آ جاتا ہے اب تو 15 سال کے لڑکے بھی یہ کام کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا اس کا گواہ ہے آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ آپ اس شہر کے لوگوں کی مدد کریں کیونکہ اب صرف اس قوم کے پاس ایک ہی حل ہے رینجرز میدان عمل میں آئے اور اس گھناؤنے کھیل کا اختتام کرے کیونکہ دیگر ادارے خاموش ہیں اور وارداتیں اپنے عروج پر ہیں جب بھی برا وقت آتا ہے کراچی والوں کی نگاہیں رینجرز کو تلاش کرتی ہیں۔
رب نے آپ کو ہمت عزت و توقیر سے نوازا ہے اس کھیل کا خاتمہ رینجرز ہی کرسکتی ہے شہریوں کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے لوگ آس لگائے بیٹھے ہیں ویسے بھی ہر برے وقت میں فوج نے بگڑتے حالات کو ٹھیک کیا ہے یقینا رینجرز ان ڈاکوؤں سے شہریوں کی جان چھڑانے میں سو فیصد کامیاب ہو جائے گی اور پھر یقینا قوم آپ کو اور رینجرز کو خراج تحسین پیش کرے گی۔
ایسے ایسے بیانات پڑھنے کو ملتے ہیں کہ ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے ایک جماعت کے امیر فرما رہے تھے کہ وہ وقت دور نہیں جب عمران خان اور نواز شریف ایک دن اکٹھے گھومیں گے ، پھریں گے۔ آپ نے بیان دے دیا قوم نے سن لیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا آج سیاسی دشمن ایک ساتھ نہیں پھر رہے، ماضی کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں۔ ایک دوسرے پر کیا کیا تنقید کرتے تھے آج ایک جان دو قالب ہیں ہمارے ہاں سارا کھیل اقتدار کا ہوتا ہے جس دن فیصلہ ہو گیا کہ وزیر اعظم کون بنے گا اور صدر کون بنے گا اس دن ان سیاستدانوں کی تحریک میں تیزی آجائے گی اور سب قوم کے خادم کے طور پر ابھریں گے مگر اب قوم نے بھی سوچ لیا ہے کہ بہت سوچ کر فیصلہ کرنا ہوگا اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو آنے والا الیکشن ہی بتائے گا۔
وفاقی وزیر شبلی فراز نے کہا کہ انفارمیشن کی وزارت میرے مزاج کی تھی ہی نہیں شبلی فراز بنیادی طور پر ایک ماہر اور اچھے پائلٹ ہیں ہمارے ہاں وزارتوں پر توجہ نہیں دی جاتی اگر انھیں قومی ایئر لائنز کا چیئرمین کا منصب دیا جاتا یا مواصلات کا وفاقی وزیر نامزد کیا جاتا تو یقینا قومی ایئرلائن بہت ترقی کرتی اور قومی ایئرلائن کو ایک ذہین شخص میسر ہوتا اور آج قومی ایئرلائن نہ جانے ترقی کی سیڑھی پر کہاں کھڑی ہوتی۔
ماضی اٹھا کر دیکھیں ہمارے ہاں وفاقی وزیر داخلہ سویلین کو نامزد کردیا جاتا ہے اس جگہ اگر فوج کا ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ہو تو سوچیں قانون کی کیسی حکمرانی ہو ہمیں کسی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کہ فوجی حضرات اصول پسند اور اپنے کام کے ماہر ہوتے ہیں لہٰذا میری وزیر اعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ حساس وزارتوں پر سوچ کر وزارتیں دیں۔
بھارتی حکومت لتا منگیشکر کی یاد میں میوزک اکیڈمی بنائے گی مہدی حسن ، نور جہاں، مہ ناز کو نوجوان نسل بھولتی جا رہی ہے ان کی یاد میں حکومت پاکستان بھی ان کی خدمات کے عوض اکیڈمی تشکیل دے۔ لتا جی کہتی تھیں کہ مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتے ہیں نور جہاں مجھ سے اچھی گلوکارہ تھیں جب انڈین قوم نے اور انھوں نے تسلیم کرلیا تو ہمیں ان تینوں افراد کے لیے اکیڈمی بنانی چاہیے تاکہ قوم کے بچے مستفید ہوں۔
آئیے اب کالم میں دل بہلانے کا بھی تھوڑا سا انتظام ہو کہ تھکے ہوئے ذہن کچھ مسکرالیں۔ بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا نے بہت خوبصورت بیان دیا انڈین اخبار روزنامہ سیاست میں فرما رہی تھیں شعیب ملک فٹ ہیں مزید 2 سال کرکٹ کھیل سکتے ہیں۔ ہمارے مشرقی روایتی معاشرے میں کسی خاتون نے 20 کلو کا وزنی دل کرکے شوہر کی تعریف کی یہاں تو دوست ان کے اس بیان سے بہت افسردہ ہیں کہ کاش ہماری بیویاں بھی ہماری کبھی حوصلہ افزائی کرتیں تو ہم بھی بڑے بڑے کام کرتے اور یوں دل کی حسرت دل میں رہ گئی۔