نعمتوں کی قدر اور شُکر

حضور اقدسؐ نے ارشاد فرمایا: دیکھو! یہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں، روٹی ہے، گوشت ہے، ہر قسم کی کچی اور پکی کھجوریں ہیں


فوٹو : فائل

COLOMBO: قیامت کے دن میدانِ حشر میں جہاں نیکیاں اور برائیاں تولی جائیں گی تو وہاں اس چیز کا بھی مطالبہ اور محاسبہ کیا جائے گا کہ اﷲ تعالیٰ نے جو اپنی نعمتیں عطا فرمائی تھیں اُن کا کیا حق اور کیا شکر ادا کیا ؟ بندے کے پاس ہر چیز اﷲ تعالیٰ ہی کی عطا کی ہوئی ہے۔ ہر چیز کا ایک حق ہے اور اس حق کی ادائی کا مطالبہ کل قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کے حضور ضرور ہونا ہے۔

قرآنِ مجید میں سورۂ تکاثر میں بھی اس کا ذکر موجود ہے کہ قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ بندے سے اپنی نعمتوں کا بھی سوال فرمائیں گے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بدن کی صحت، کانوں کی صحت اور آنکھوں کی صحت کے بارے میں سوال ہوگا کہ اﷲ تعالیٰ نے یہ نعمتیں اپنے لطف سے عطا فرمائیں ان کو اﷲ تعالیٰ کے کس کام میں خرچ کیا ؟

سورۂ بنی اسرائیل، مفہوم: بلاشبہ! قیامت والے دن ہر شخص سے اس کے کان، آنکھ اور دل کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ان کا استعمال کہاں کیا ؟ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس کا مفہوم یہ ہے: ''کل قیامت کے دن آدمی سے جن نعمتوں کے بارے سوال کیا جائے گا ان میں سے ایک چیز بے فکری ہے اور دوسری چیز بدن کی صحت و سلامتی بھی ہے اور یہ دونوں چیزیں اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔

امام مجاہدؒ کہتے ہیں: ''دنیا کی ہر لذت نعمتوں میں داخل ہے جس کے بارے میں سوال ہوگا۔'' حضرت علیؓ فرماتے ہیں: ''اس میں عافیت بھی داخل ہے۔'' ایک شخص نے حضرت علیؓ سے پوچھا: ''قرآن مجید میں جو یہ ہے کہ : پھر اس دن نعمتوں کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا؟ اس کا مطلب کیا ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا: ''گیہوں کی روٹی اور ٹھنڈا پانی مراد ہے ان کے بارے میں بھی سوال ہوگا اور رہنے کے لیے مکان کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔''

جب یہ مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی تو بعض صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! کن نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا ؟ آدھی بھوک روٹی ملتی ہے اور وہ بھی جو کی (اور پیٹ بھر کر روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی) تو وحی نازل ہوئی کہ کیا پاؤں میں جوتا نہیں پہنتے ؟ کیا ٹھنڈا پانی نہیں پیتے؟ یہ بھی تو اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔

بعض صحابہؓ نے اس آیت شریفہ کے نازل ہونے پر عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! کن نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا؟ کھجور اور پانی صرف یہ دو چیزیں کھانے اور پینی کو ملتی ہیں اور ہماری تلواریں (جہاد کے لیے) ہر وقت ہمارے کندھوں پر رہتی ہیں اور دشمن ہر وقت سامنے ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ دو چیزیں بھی سکون اور اطمینان سے نصیب نہیں ہوتیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''عن قریب نعمتیں میسر ہونے والی ہیں۔''

حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''قیامت والے دن جن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا ان میں سب سے اوّل یہ سوال ہوگا کہ ہم نے تیرے بدن کو تن درستی عطا فرمائی ( تُونے اس کا کیا حق ادا کیا؟) ہم نے ٹھنڈے پانی سے تجھ کو سیراب کیا۔ (اس میں تُونے ہم کو کس طرح راضی کیا)

حدیث میں وارد ہے کہ قیامت والے دن جن نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا وہ یہ ہیں: روٹی کا ٹکڑا کہ جس سے پیٹ بھرا جاتا ہے۔ پانی کہ جس سے پیاس بجھائی جاتی ہے۔ کپڑا کہ جس سے بدن ڈھانکا جاتا ہے۔

ایک مرتبہ دوپہر کے وقت سخت دھوپ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ پریشان ہوکر گھر سے چلے، مسجد میں پہنچے ہی تھے کہ حضرت عمر فاروقؓ بھی اسی حالت میں تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بیٹھا ہوا دیکھ کر دریافت کیا: تم اس وقت یہاں کہاں ؟ ابوبکرؓ نے فرمایا: بھوک کی بے تابی نے پریشان کیا۔

حضرت عمرؓ نے عرض کیا: واﷲ! اسی چیز نے مجھے بھی مجبور کیا کہ کہیں جاؤں۔ یہ دونوں حضرات یہ گفت گو کر ہی رہے تھے کہ نبی اکرمؐ تشریف لے آئے۔ ان کو دیکھ کر دریافت فرمایا: تم اس وقت کہاں ؟ انہوں نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! بھوک نے پریشان کیا، جس سے مضطرب ہوکر نکل پڑے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اسی مجبوری سے میں بھی آیا ہوں۔

تینوں حضرات اکٹھے ہوکر حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان پر پہنچے۔ وہ تشریف نہیں رکھتے تھے۔ بیوی نے بڑی مسرت و افتخار سے ان حضرات کو بٹھایا۔ حضور اقدس ﷺ نے دریافت فرمایا: ابُوایوب کہاں گئے ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا: ابھی حاضر ہوتے ہیں، کسی ضرورت سے گئے ہوئے ہیں۔ اتنے میں حضرت ابُوایوب انصاریؓ بھی حاضر خدمت ہوگئے اور فرطِ خوشی میں کھجور کا ایک بڑا سا خوشہ توڑ لائے۔

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سارا خوشہ کیوں توڑا ؟ اس میں کچی اور ادھ کچری بھی ٹوٹ گئیں، چھانٹ کر پکی ہوئی توڑ لیتے۔ انہوں نے عرض کیا: اس خیال سے توڑا کہ ہر قسم کی سامنے ہوں جو پسند ہو وہ نوش فرمائیں'' (کیوں کہ بعض مرتبہ پکی ہوئی سے ادھ کچری زیادہ پسند ہوتی ہیں) خوشہ سامنے رکھ کر جلدی سے گئے اور ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اور جلدی جلدی کچھ تو ویسے ہی بھون لیا کچھ سالن تیار کرلیا۔

حضور اقدس ﷺ نے ایک روٹی میں تھوڑا سا گوشت رکھ کر حضرت ابُوایوب انصاریؓ کو دیا کہ یہ فاطمہؓ کو پہنچا دو، ان کو بھی کئی دن سے کچھ نہیں مل سکا۔ وہ فوراً پہنچا کر آئے، ان حضرات نے بھی سیر ہوکر نوش فرمایا۔ اس کے بعد حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: دیکھو! یہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں، روٹی ہے، گوشت ہے، ہر قسم کی کچی اور پکی کھجوریں ہیں۔ یہ فرما کر نبی اکرم ﷺ کی پاک آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ارشاد فرمایا: ''اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، یہی وہ نعمتیں ہیں جن کا قیامت میں سوال ہوگا۔

جن حالات کے تحت میں اس وقت یہ چیزیں میسر ہوئی تھیں ان کے لحاظ سے صحابہ کرامؓ کو بڑی گرانی اور فکر پیدا ہوگئی کہ ایسی مجبوری اور اضطرار کی حالت میں یہ چیزیں میسر آئیں اور ان پر بھی سوال و حساب ہوگا؟ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا تو ضروری ہے ہی، لہٰذا جب اس قسم کی چیزوں پر ہاتھ ڈالو تو اوّل ''بسم اﷲ ...الخ'' پڑھو اور جب کھا چکو تو کہو: ''الحمدﷲ ...الخ'' اس دعا کا پڑھنا شُکر ادا کرنے میں کافی ہے۔

حضرت عبد اﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: قیامت میں تین دربار ہیں۔ ایک دربار میں نیکیوں کا حساب ہے۔ دوسرے دربار میں اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا حساب ہے۔ تیسرے دربار میں گناہوں کا مطالبہ ہے۔

نیکیاں نعمتوں کے مقابلہ میں ہوجائیں گی اور برائیاں باقی رہ جائیں گی جو اﷲ تعالیٰ کے فضل کے تحت میں ہوں گی۔ ان سب کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ جل شانہ کی جس قدر نعمتیں ہر آن اور ہر دم آدمی پر ہوتی ہیں ان کا شکر ادا کرنا اور ان کا حق بجا لانا بھی آدمی کے ذمے ہے۔ اس لیے جتنی مقدار بھی نیکیوں کی پیدا ہوسکے ان کو حاصل کرنے میں کمی نہیں کرنا چاہیے اور کسی مقدار کو بھی زیادہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہاں پہنچ کر معلوم ہوگا کہ کتنے گناہ ہم نے اپنی آنکھ، ناک، کان اور دوسرے بدن کے حصوں سے ایسے کیے ہیں جن کو ہم گناہ بھی نہ سمجھے۔

حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے: ''تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جس کی قیامت والے دن اﷲ تعالیٰ کے یہاں پیشی نہ ہو کہ اس وقت نہ کوئی پردہ درمیان میں حائل ہوگا اور نہ کوئی ترجمان اور وکیل وغیرہ۔ دائیں طرف دیکھے گا تو اپنے اعمال کا انبار ( ڈھیر) لگا ہوگا۔ بائیں طرف دیکھے گا تب بھی یہی منظر ہوگا۔ جس قسم کے بھی اچھے یا بُرے اعمال کیے ہیں وہ سب ساتھ ہوں گے۔

جہنم کی آگ سامنے ہوگی۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو صدقہ دے کر جہنّم کی آگ سے اپنے آپ کو بچاؤ! خواہ کھجور کا ٹکڑا صدقہ کرکے ہی جہنم کی آگ سے کیوں نہ بچا جائے۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن سب سے پہلا سوال یہ کیا جائے گا کہ ہم نے تجھے صحت مند بدن عطا کیا تھا اور پینے کے لیے ٹھنڈا پانی دیا تھا تو نے ان کا کیا حق ادا کیا ؟ دوسری حدیث میں آتا ہے: اس وقت تک میدانِ حساب سے نہ ہٹ سکے گا جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کا سوال نہ کرلیا جائے: عمر کس کام میں خرچ کی؟ جوانی کس مشغلہ میں صرف کی؟ مال کس طریقہ سے کمایا تھا ؟ اور کس طریقہ سے خرچ کیا ؟ جو کچھ علم حاصل کیا اس پر کیا عمل کیا ؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں