سیاست دانوں میں پھیلی ’’ملو ناں‘‘ کی وبا
’’ملوناں‘‘ کی وبا میں ہونے والی سب سے اہم دل چسپ ملاقات میاں شہبازشریف اور چوہدری شجاعت کی ہے
LOS ANGELES:
پہلے کورونا آیا، جس کی وجہ سے سماجی فاصلہ رکھنے کی پابندی عاید ہوگئی اور ملنے ملانے کا سلسلہ ختم ہوگیا، اب ہمارے ہاں ایک اور وبا پھیل چکی ہے، جس کا نام ہے ''مِلوناں'' البتہ یہ وائرس عام لوگوں کے بہ جائے صرف سیاست دانوں میں پھیلا ہے، اور حزب اختلاف کے سیاست داں اس سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
یہ سارے ایک دوسرے سے یوں تڑپ تڑپ کر مل رہے ہیں گویا خدشہ ہو کہ ''اب کے ہم بچھڑیں تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں۔'' اب یہ تو طے ہے کہ سیاست دانوں کی ملاقات ہمارے آپ کے ملنے والا معاملہ نہیں ہوتی کہ چائے کے ہوٹل کے باہر پڑی کرسیوں پر جابیٹھے، چِینَک منگائی، اور جب تک ''کوئٹہ، بلوچستان کاکڑ ہوٹل'' کی روشنی گُل نہ کردی جائے اور ''اُٹو بئی ہوٹل بند کر رہا ہے'' کی باقاعدہ بے عزتی کرتی آواز سننے کو نہ ملے، چائے پیتے اور ''اور بتا، اور سُنا'' کہہ کر دنیا بھر کی فضول باتیں کرتے رہیں۔
سیاست داں، بانو آپا اور جمیلہ خالہ بھی نہیں ہوتے کہ ''اے بہن کیا بتاؤں'' سے آغاز کریں تو بہو سے اپنی شکایات، بیاہی بیٹی کے صدمات، شوہر کے خیالات، پڑوس کے حالات اور محلے کی ناگفتنی حکایات تک سب بتاتی چلی جائیں۔ اہل سیاست اسی سے ملتے ہیں اور اتنی ہی بات کرتے ہیں جس سے کچھ ملنے کا آسرا ہو۔
صاحب اقتدار کے کرسی سے ہلنے کا امکان ہو، نیب جیسی کسی آئی بلا کے ٹلنے کی امید بندھے اور اپنے حکم رانی کے راستے پر چلنے کی راہ سوجھے۔ سیاست داں کُھل کُھلا بلکہ ''دن دیہاڑے'' بھی ملتے ہیں اور چھپ چھپ کر بھی ملاقاتیں کرتے ہیں، لیکن یہ چھپ چُھپا کر ملنا آپس میں نہیں ہوتا، بلکہ ان سے ہوتا ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے ''یہ منصبِ بلند ملا جس کو مل گیا''، لیکن صرف ان سے مل لینا کافی نہیں، ان کے ساتھ مل کر چلنے سے بات بنتی ہے، ایسا نہ کرنے والے ہاتھ مَلتے رہ جاتے ہیں، اور پھر انھیں لبھانے اور رجھانے کے لیے گاتے ہیں۔
''اگر تم مل جاؤ، زمانہ چھوڑ دیں گے ہم'' یہ گانا گانے کے لیے گانے والے بہ طور ریاض ''ایسے دستور کو، صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا'' گاتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف ''منصبِ بلند والے'' سیاست دانوں کو اِدھر اُدھر ملتے دیکھ کر مسکراتے اور گاتے ہیں۔۔۔۔شوق سے سب سے ملو، سب سے مل آؤ تو اک بار مرے ''دَل'' سے ملو۔ ان سے مل کر جنھیں کچھ نہیں ملتا، وہ وہیں ملتے ہیں جہاں سے چلے تھے، اور جنھیں تھپکی مل جائے پھر ان کا دماغ نہیں ملتا۔
ان سے خفیہ ملاقاتیں کرنے والے کسی بہ ظاہر الہڑ بہ باطن گڑبڑ خاتون کی محبوب سے وصل کی طرح ایسی کسی بھی ملاقات سے انکاری ہوجاتے ہیں، لیکن پردہ فاش ہوجائے تو شرما کر کہہ دیتے ہیں، ''یونہی کوئی مل گیا تھا سر راہ چلتے چلتے۔''
''ملوناں'' کی وبا میں ہونے والی سب سے اہم دل چسپ ملاقات میاں شہبازشریف اور چوہدری شجاعت کی ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں شجاعت اور شہباز لازم وملزوم ہیں، مگر یہ دونوں ایک دوسرے کو اپنا ملزم سمجھتے اور کہتے رہے ہیں، لیکن جب ملاقات لازمی ٹھہری تو چودہ سال بعد مل بیٹھے۔ ان دو ''شین'' کے ملنے کا سین دیکھ کر لطف آگیا۔ دونوں شخصیات نے ایک دوسرے کو دیکھنے کے بعد یقیناً یہ مصرع تو نہیں پڑھا ہوگا ''برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دل ربا سا'' لیکن مجبوریوں کے پیش نظر برا سا منہ بھی نہیں بنایا ہوگا۔
ممکن ہے اس موقع پر چوہدری شجاعت کو ایک پرانا فلمی گانا یاد آگیا ہو اور وہ گنگنا اٹھے ہوں ''مجھے تم سے ہیں کتنے گِلے۔۔۔کیوں اتنے دن بعد ملے۔۔۔بولو اتنے دن کیا کیا'' اگر شہباز شریف کی سماعت نے بہ زبان چوہدری شجاعت ادا ہونے والے یہ بول سمجھ لیے ہوں گے تو جواباً وہ لہک لہک کر اور جھوم جھوم کر گانے کے اگلے بول گانے لگے ہوں گے ''ترا نام لیا تجھے یاد کیا'' اس ملاقات میں جو بھی کہا سنا گیا ہو لیکن یہ تو سامنے کی بات ہے کہ ن لیگ جو چوہدری شجاعت کے جنرل پرویزمشرف سے ناتا جوڑنے کے بعد سے اپنی جماعت میں ان کا کھاتا بند کرچکی اور چوہدری صاحب اور ان کی جماعت ق لیگ کا وجود جسے ایک آنکھ نہیں بھاتا اسے حالات نے مجبور کردیا ''سبق پھر پڑھ شجاعت کا۔''
ن لیگ اور ایم کیوایم کے راہ نماؤں کی بھی ملاقات ہوئی۔ صاف ظاہر ہے اس ملاقات میں ن لیگ نے ایم کیو ایم سے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی درخواست کی ہوگی۔ ن لیگ کو توقع ہوگی کہ ایم کیوایم والے ہیں تو ''ساتھی'' لیکن ساتھ چھوڑنے پر آئیں تو ''بھائی'' سے بھی ''جی بھائی جی بھائی'' کرتے کرتے ''جا بھائی'' کہہ کر ٹاٹا بائے بائے کردیں۔ ان سے ن لیگ نے کہا ہوگا ''آپ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں'' جواب ملا ہوگا۔۔۔جی نہیں ہم ''پوچھ'' سمجھ کر فیصلہ کریں گے۔
یہ سن کر ن لیگ کو یاد آگیا ہوگا کہ ایم کیو ایم اب ''جو تم کروگے وہ ہم کریں گے'' کے بجائے۔۔۔جو تم ''کہو'' گے وہ ہم کریں گے، کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔
پہنچنا آصف زرداری اور بلاول کا شریف خاندان کی رہائش گاہ بھی ''ملوناں'' وبا ہی کے زیراثر تھا۔ اس موقع پر شریف اور زرداری ایک ساتھ کھاتے نظر آئے، جس سے یہ ثابت ہوا کہ بعض سیاست دانوں کی کھوپڑی میں دماغ اور سیاست کے سینے میں دل ہو نہ ہو اس کا پیٹ ضرور ہوتا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا بھی ملنا ملانا جاری ہے۔ خیر مولانا کا تو حکومت کو گرانے کی دُھن میں شروع دن سے یہ عالم ہے کہ ''کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا۔'' اور، مولانا عمران خان کی حکومت آنے کے بعد سے ہر ایک سے اسی خواہش کے ساتھ بات کرتے ہیں کہ۔۔۔۔یا ہو یہ بات کہ گِرے وہ شخص۔۔۔یا کوئی ہم سے گفتگو نہ کرے۔
سنا ہے کہ ''ملوناں'' کی لہر تحریک حکومت کے خلاف عدم اعتماد آنے تک اسی طرح جاری رہے گی اور اگر تحریک عدم اعتماد عدم کو سدھار گئی تو مارچ اور دھرنے کے لیے ''چلوناں'' کی وبا پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہے۔
پہلے کورونا آیا، جس کی وجہ سے سماجی فاصلہ رکھنے کی پابندی عاید ہوگئی اور ملنے ملانے کا سلسلہ ختم ہوگیا، اب ہمارے ہاں ایک اور وبا پھیل چکی ہے، جس کا نام ہے ''مِلوناں'' البتہ یہ وائرس عام لوگوں کے بہ جائے صرف سیاست دانوں میں پھیلا ہے، اور حزب اختلاف کے سیاست داں اس سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
یہ سارے ایک دوسرے سے یوں تڑپ تڑپ کر مل رہے ہیں گویا خدشہ ہو کہ ''اب کے ہم بچھڑیں تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں۔'' اب یہ تو طے ہے کہ سیاست دانوں کی ملاقات ہمارے آپ کے ملنے والا معاملہ نہیں ہوتی کہ چائے کے ہوٹل کے باہر پڑی کرسیوں پر جابیٹھے، چِینَک منگائی، اور جب تک ''کوئٹہ، بلوچستان کاکڑ ہوٹل'' کی روشنی گُل نہ کردی جائے اور ''اُٹو بئی ہوٹل بند کر رہا ہے'' کی باقاعدہ بے عزتی کرتی آواز سننے کو نہ ملے، چائے پیتے اور ''اور بتا، اور سُنا'' کہہ کر دنیا بھر کی فضول باتیں کرتے رہیں۔
سیاست داں، بانو آپا اور جمیلہ خالہ بھی نہیں ہوتے کہ ''اے بہن کیا بتاؤں'' سے آغاز کریں تو بہو سے اپنی شکایات، بیاہی بیٹی کے صدمات، شوہر کے خیالات، پڑوس کے حالات اور محلے کی ناگفتنی حکایات تک سب بتاتی چلی جائیں۔ اہل سیاست اسی سے ملتے ہیں اور اتنی ہی بات کرتے ہیں جس سے کچھ ملنے کا آسرا ہو۔
صاحب اقتدار کے کرسی سے ہلنے کا امکان ہو، نیب جیسی کسی آئی بلا کے ٹلنے کی امید بندھے اور اپنے حکم رانی کے راستے پر چلنے کی راہ سوجھے۔ سیاست داں کُھل کُھلا بلکہ ''دن دیہاڑے'' بھی ملتے ہیں اور چھپ چھپ کر بھی ملاقاتیں کرتے ہیں، لیکن یہ چھپ چُھپا کر ملنا آپس میں نہیں ہوتا، بلکہ ان سے ہوتا ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے ''یہ منصبِ بلند ملا جس کو مل گیا''، لیکن صرف ان سے مل لینا کافی نہیں، ان کے ساتھ مل کر چلنے سے بات بنتی ہے، ایسا نہ کرنے والے ہاتھ مَلتے رہ جاتے ہیں، اور پھر انھیں لبھانے اور رجھانے کے لیے گاتے ہیں۔
''اگر تم مل جاؤ، زمانہ چھوڑ دیں گے ہم'' یہ گانا گانے کے لیے گانے والے بہ طور ریاض ''ایسے دستور کو، صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا'' گاتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف ''منصبِ بلند والے'' سیاست دانوں کو اِدھر اُدھر ملتے دیکھ کر مسکراتے اور گاتے ہیں۔۔۔۔شوق سے سب سے ملو، سب سے مل آؤ تو اک بار مرے ''دَل'' سے ملو۔ ان سے مل کر جنھیں کچھ نہیں ملتا، وہ وہیں ملتے ہیں جہاں سے چلے تھے، اور جنھیں تھپکی مل جائے پھر ان کا دماغ نہیں ملتا۔
ان سے خفیہ ملاقاتیں کرنے والے کسی بہ ظاہر الہڑ بہ باطن گڑبڑ خاتون کی محبوب سے وصل کی طرح ایسی کسی بھی ملاقات سے انکاری ہوجاتے ہیں، لیکن پردہ فاش ہوجائے تو شرما کر کہہ دیتے ہیں، ''یونہی کوئی مل گیا تھا سر راہ چلتے چلتے۔''
''ملوناں'' کی وبا میں ہونے والی سب سے اہم دل چسپ ملاقات میاں شہبازشریف اور چوہدری شجاعت کی ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں شجاعت اور شہباز لازم وملزوم ہیں، مگر یہ دونوں ایک دوسرے کو اپنا ملزم سمجھتے اور کہتے رہے ہیں، لیکن جب ملاقات لازمی ٹھہری تو چودہ سال بعد مل بیٹھے۔ ان دو ''شین'' کے ملنے کا سین دیکھ کر لطف آگیا۔ دونوں شخصیات نے ایک دوسرے کو دیکھنے کے بعد یقیناً یہ مصرع تو نہیں پڑھا ہوگا ''برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دل ربا سا'' لیکن مجبوریوں کے پیش نظر برا سا منہ بھی نہیں بنایا ہوگا۔
ممکن ہے اس موقع پر چوہدری شجاعت کو ایک پرانا فلمی گانا یاد آگیا ہو اور وہ گنگنا اٹھے ہوں ''مجھے تم سے ہیں کتنے گِلے۔۔۔کیوں اتنے دن بعد ملے۔۔۔بولو اتنے دن کیا کیا'' اگر شہباز شریف کی سماعت نے بہ زبان چوہدری شجاعت ادا ہونے والے یہ بول سمجھ لیے ہوں گے تو جواباً وہ لہک لہک کر اور جھوم جھوم کر گانے کے اگلے بول گانے لگے ہوں گے ''ترا نام لیا تجھے یاد کیا'' اس ملاقات میں جو بھی کہا سنا گیا ہو لیکن یہ تو سامنے کی بات ہے کہ ن لیگ جو چوہدری شجاعت کے جنرل پرویزمشرف سے ناتا جوڑنے کے بعد سے اپنی جماعت میں ان کا کھاتا بند کرچکی اور چوہدری صاحب اور ان کی جماعت ق لیگ کا وجود جسے ایک آنکھ نہیں بھاتا اسے حالات نے مجبور کردیا ''سبق پھر پڑھ شجاعت کا۔''
ن لیگ اور ایم کیوایم کے راہ نماؤں کی بھی ملاقات ہوئی۔ صاف ظاہر ہے اس ملاقات میں ن لیگ نے ایم کیو ایم سے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی درخواست کی ہوگی۔ ن لیگ کو توقع ہوگی کہ ایم کیوایم والے ہیں تو ''ساتھی'' لیکن ساتھ چھوڑنے پر آئیں تو ''بھائی'' سے بھی ''جی بھائی جی بھائی'' کرتے کرتے ''جا بھائی'' کہہ کر ٹاٹا بائے بائے کردیں۔ ان سے ن لیگ نے کہا ہوگا ''آپ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں'' جواب ملا ہوگا۔۔۔جی نہیں ہم ''پوچھ'' سمجھ کر فیصلہ کریں گے۔
یہ سن کر ن لیگ کو یاد آگیا ہوگا کہ ایم کیو ایم اب ''جو تم کروگے وہ ہم کریں گے'' کے بجائے۔۔۔جو تم ''کہو'' گے وہ ہم کریں گے، کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔
پہنچنا آصف زرداری اور بلاول کا شریف خاندان کی رہائش گاہ بھی ''ملوناں'' وبا ہی کے زیراثر تھا۔ اس موقع پر شریف اور زرداری ایک ساتھ کھاتے نظر آئے، جس سے یہ ثابت ہوا کہ بعض سیاست دانوں کی کھوپڑی میں دماغ اور سیاست کے سینے میں دل ہو نہ ہو اس کا پیٹ ضرور ہوتا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا بھی ملنا ملانا جاری ہے۔ خیر مولانا کا تو حکومت کو گرانے کی دُھن میں شروع دن سے یہ عالم ہے کہ ''کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا۔'' اور، مولانا عمران خان کی حکومت آنے کے بعد سے ہر ایک سے اسی خواہش کے ساتھ بات کرتے ہیں کہ۔۔۔۔یا ہو یہ بات کہ گِرے وہ شخص۔۔۔یا کوئی ہم سے گفتگو نہ کرے۔
سنا ہے کہ ''ملوناں'' کی لہر تحریک حکومت کے خلاف عدم اعتماد آنے تک اسی طرح جاری رہے گی اور اگر تحریک عدم اعتماد عدم کو سدھار گئی تو مارچ اور دھرنے کے لیے ''چلوناں'' کی وبا پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہے۔