8 مارچ خواتین کا حق
غیر سرکاری خواتین تنظیموں نے خواتین میں آگاہی اور رائے عامہ کو ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے
تحریک انصاف کی حکومت تضادات کا مجموعہ ہے۔کبھی اسلامی نظریات اورکبھی جمہوری نظریات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان جنھوں نے زندگی کا بیشتر حصہ برطانیہ کے کرکٹ کے میدانوںاور برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں گزارا ہے اب طالبان کے نظریات کو جواز فراہم کرتے ہیں۔
ایک وزیر صاحب اپنے سیکیولر نظریات کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ایک وزیر صاحبہ کبھی زور دار کبھی دھیمے لہجہ میں انسانی حقوق اور خواتین کی آزادی کی حمایت کرتی ہیں۔ ایک وزیر کے خیالات اور کابل کی حکومت کے خیالات ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ پارلیمانی نظام کی روح کے منافی ہر وزیرکی اپنی ڈاکٹرائن سے ملک کی فضاء گنجلک رہتی ہے۔
خواتین کی زندگی کی دوڑ میں برابری سے ہی ملک ترقی کرسکتا ہے۔ یورپ کا شمار صدیوں پہلے پسماندہ ترین براعظموں میں ہوتا تھا۔ صنعتی انقلاب نے یورپی معاشرہ میں بنیادی تبدیلیاں کیں۔ برطانیہ میں صنعتوں کے ارتقاء کے ساتھ نئے شہر آباد ہوئے۔
کسانوں نے اپنا آبائی پیشہ زراعت چھوڑ کر صنعتوں میں مزدوری شروع کی۔ صنعتی ترقی کے لیے تعلیم حاصل کرنا ضروری تھا ، یوں مردوں میں تعلیم حاصل کرنے کا رواج بڑھا۔ صنعتوں میں عورتیں مزدورکی حیثیت سے کام کرنے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں 12ویں صدی سے خواتین میں خواندگی کی شرح بڑھنا شروع ہوئی۔ اس زمانہ میں مزدوروں سے 20,20 گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔ عورتوں کے ساتھ اس سے بھی زیادہ برا سلوک ہوتا تھا۔
مزدوروں میں تنظیم سازی کا شعور آیا اور مزدور تحریک منظم ہوئی۔ شکاگوکے مزدوروں کی قربانیوں کے نتیجہ میں آٹھ گھنٹے کام ، آٹھ گھنٹے آرام کا حق تسلیم ہوا مگر خواتین کو مردوں کے برابر حقوق کے لیے زیادہ جدوجہد کرنی پڑی۔ پہلی سوشلسٹ ریاست سوویت یونین کے قیام کی جدوجہد میں خواتین کا اہم کردار تھا۔ سوویت یونین دنیا کا پہلا ملک تھا جس کے آئین میں تحریر کیا تھا کہ خواتین اور مردوں کے حقوق یکساں ہیں۔ سوویت یونین نے بھی سرکاری طور پر 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیا گیا تھا۔
سوویت یونین میں زندگی کا ہر شعبہ خواتین کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ خواتین کی مسلسل جدوجہد کے نتیجہ میں 1920 میں برطانیہ میں خواتین کو ووٹ کا حق ملا۔ ان ہی برسوں میں برطانیہ کی یونیورسٹیوں کے دروازے خواتین کے لیے کھل گئے۔
بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح ہمیشہ سے خواتین کے حقوق کے حامی تھے۔ جب برطانوی ہند حکومت نے گزشتہ صدی کے دوسرے عشرہ میں کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی عائد کی تھی تو مسلمان علماء اور ہندو (پجاری) اس قانون کے خلاف تھے ، مگر محمد علی جناح واحد رہنما تھے جنھوں نے اس قانون کی حمایت کی۔
ہندوستان کے ایک سب سے بڑے امیر شخص ڈنشا کی بیٹی رتی نے ان سے اظہار عشق کیا اور بیرسٹر محمدعلی جناح رتی سے شادی کے لیے تیار ہوئے۔ رتی کے والدین کی مخالفت کی بناء پر انھوں نے خواتین کی اپنی پسند کی شادی کے حق میں بمبئی ہائی کورٹ میں مقدمہ لڑا۔ بمبئی ہائی کورٹ کا Free Willکے بارے میں فیصلہ آج بھی بھارت اور پاکستان کی عدالتوں میں خواتین کے اس حق کو تسلیم کرنے کے لیے وکلاء اپنی مقدمات کی کامیابی کے لیے پیش کرتے ہیں۔
رتی ڈنشا سے رتی جناح بن گئیں اور مغرب کی خواتین کے لباس پہننا ان کی ایک وجہ شہرت تھا۔ بیرسٹر محمد علی جناح رتی کو ہر تقریب میں ساتھ لے کر جاتے تھے۔ جب برطانوی ہند حکومت نے بمبئی کے اخبار ہیورمین کو جو انگریزتھے ہندوستان بدرکیا تو آل انڈیا ٹریڈ یونین فیڈریشن نے بمبئی میں ایک احتجاجی جلوس منظم کیا۔ رتی اور بیرسٹر محمد علی جناح ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے اس جلوس کی قیادت کررہے تھے۔
بیرسٹر محمد علی جناح نے رتی کے انتقال کے بعد اپنی سب سے چھوٹی ہمشیرہ فاطمہ کو جوڈینٹل سرجن تھیں ، پاکستان کی ساری تحریک میں اپنے ساتھ رکھا۔ جناح کی تربیت تھی کہ فاطمہ نے ایوب آمریت کو چیلنج کیا۔ ان کے صدارتی امیدوار بننے کے حامیوں میں سیکیولر نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ اور ایک مذہبی سیاسی جماعت بھی شامل تھیں۔
ملک کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی دوسری اہلیہ رعنا لیاقت سیاسی جلسوں میں ان کے ساتھ رہتیں۔ رعنا لیاقت علی خان نے خواتین کی پہلی غیر سرکاری تنظیم اپوا قائم کی۔ یہ خواتین کی تحریک کا اثر تھا کہ سابق صدر ایوب خان نے عائلی قوانین نافذ کیے۔ ان قوانین کے تحت مرد پر یہ بندش عائد ہوتی تھی کہ پہلی بیوی کی اجازت سے مرد دوسری شادی کرسکتا ہے۔
ان قوانین کے تحت شادی ، نکاح اور طلاق کے معاملات کو دستاویزی شکل دی گئی۔ خواتین کے حالات کارکو بہتر بنانے کے لیے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ نصرت بھٹو نے اہم کردار ادا کیا۔ سابق صدر جنرل ضیاء الحق کا دور اقلیتوں اور خواتین کے لیے ایک سیاہ دور تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے متنازعہ قوانین کی بناء پر بے گناہ خواتین کو سزائیں ہوئیں۔ طاہرہ مظہر علی خان، عاصمہ جہانگیر اور دیگر خواتین نے ان قوانین کے خلاف قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے خواتین کی بہبود کے لیے متعدد اقدامات کیے ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں خواتین کا عالمی دن بھرپور انداز میں منایا جانے لگا۔ خواتین تنظیموں نے خواتین کے حقوق سے آگہی کے لیے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالنا شروع کیں۔
جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام میں 40 فیصد نشستیں خواتین کے لیے مختص ہوئیں۔اس نظام کی مخالفت کرنے والی مذہبی و سیاسی جماعتوں کو بعدازاں نچلی سطح کے اختیارات کے نظام کی خوبیاں نظر آگئیں۔2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے خواتین کے وراثت کے حق ، گھریلو تشدد ، کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کے قوانین بنائے۔ سندھ میں کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی کا قانون بھی نافذ ہوا۔
پنجاب میں مسلم لیگ ن نے گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے ایک جامع منصوبہ بنایا۔ جب 8مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے کے لیے مختلف شہروں میں ریلیاں نکلنا شروع ہوئیں تو رجعت پسند عناصر ان ریلیوں کو رکوانے کے لیے متحرک ہوگئے۔ مختلف شہروں میں مارچ کو روکنے کے لیے مقدمات دائر ہوئے۔خواتین کا نعرہ تھا کہ ہر عورت کو اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کا حق اور اپنی پسند کی شادی کا حق ہے۔ عورت کو اپنی تعلیم اور صحت کو برقرار رکھنے، اپنا پروفیشن اور جینے کا حق ہے۔ اس حق کے لیے تو بیرسٹر محمد علی جناح نے لڑائی شروع کی تھی۔
ملالہ یوسفزئی سوات کی بیٹی ہے۔ اس نے خواتین کے تعلیم کے حق کے لیے اپنی جان کو مشکل میں ڈالا اور پوری دنیا میں خواتین کی تعلیم کے حق کا استعارہ بن گئی۔ ان ہی خدمات پر ملالہ کو دنیا کا سب سے بڑا نوبل پرائز دیا گیا۔ ملالہ نے نوبل امن پرائز سے ملنے والی رقم کا ایک حصہ خواتین کی تعلیم کے لیے وقف کیا مگر رجعت پسند ملالہ کی زندگی کے درپے ہیں۔ ملالہ پہلی فرد ہے جس نے بھارت کی ریاست کیرالہ کی مسلمان لڑکی مسکان خان کے عبایا پہننے کے حق کی حمایت کی۔
پاکستان میں خواتین ہر شعبہ میں پسماندہ ہیں۔ خواتین میں خواندگی کی شرح محض افغانستان سے زیادہ ہے۔ خواتین کے حالات کتنے خراب ہیں اس کا اندازہ اس ہفتہ سپریم کورٹ میں ایک عورت بتول کے اغواء کے مقدمہ کی سماعت کے دوران ہوا۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ کی قیادت جسٹس مقبول باقر کررہے تھے۔
سرگودھا کے پولیس افسر کی اس رپورٹ پر حیران رہ گئے کہ بتول تو برآمد نہیں ہوئی مگر پولیس نے سرگودھا کے مختلف علاقوں سے151 اغواء شدہ لڑکیاں برآمد کرلیں۔ خواتین کی بہبود کے لیے نافذ ہونے والے قوانین پر عملدرآمد کی رفتار انتہائی سست ہے۔ خواتین کا عزت کے نام پر قتل، کم عمری میں شادی، جائیداد سے محرومی ، تعلیم حاصل کرنے اور پسند کی شادی کے حق کو تسلیم نہ کرنے کی روایت اب بھی موجود ہے۔
غیر سرکاری خواتین تنظیموں نے خواتین میں آگاہی اور رائے عامہ کو ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ خواتین کے عالمی دن پر خواتین کی ریلیوں سے صرف خواتین میں آگاہی کا عمل ہی تیز نہیں ہوتا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کا روشن چہرا طلوع ہوتا ہے۔