سارے رنگ

ارے کبھی اپنے ادارے کی خدمات کی بھی خبر لو اور اپنے ادارے میں موجود ایسی ’کالی بھیڑیں‘ بھی نکال باہر کرو


Rizwan Tahir Mubeen February 27, 2022
ارے کبھی اپنے ادارے کی خدمات کی بھی خبر لو اور اپنے ادارے میں موجود ایسی ’کالی بھیڑیں‘ بھی نکال باہر کرو

''سوئی'' گیس والے 'جاگے' بھی تو گیس منقطع کرنے۔۔۔!
خانہ پری
رط م

گذشتہ دنوں ہم نے 'خانہ پُری' کے انھی کالموں میں 'ایس ایس جی سی' یعنی 'سوئی سدرن گیس کمپنی' کی روز افزوں ''ترقی'' کا تذکرہ کیا تھا کہ کس طرح شہریوں کو بجلی کے لیے ترسانے والے ''عالمی شہرت یافتہ'' کے الیکٹرک کی طرح اب خیر سے یہ بھی ''نیک نامی'' کمانے میں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور بھرپور طریقے سے یہ ثابت کر رہا ہے کہ 'کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ' 'کے الیکٹرک' کے ساتھ 'سوئی گیس' بھی دراصل پانی، بجلی اور گیس کی فراہمی کے نہیں، بلکہ پانی، بجلی اور گیس کے حوالے سے کراچی والوں کو اذیت پہنچانے اور پریشان کرنے کے ادارے بن چکے ہیں۔

بھئی، ان اداروں میں عام شکایات کا ماجرا یہ ہوتا ہے کہ سنوائی ہوئی ہوئی، اور نہیں ہوئی، تو کچھ پتا ہی نہیں، لیکن جہاں ذرا سا اپنے مفاد میں جاتا ہوا کوئی ذرا سا ٹیڑھا معاملہ دکھائی دیا، وہاں گویا اُڑ کر پہنچتے ہیں اور شہری کو صحیح یا غلط ذلیل کرنے اور مطعون کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور فخر سے خبریں بھی جاری کرتے ہیں کہ بجلی چور پکڑ لیا، بجلی کا کنڈا نکال دیا یا اپنے طور پر فیز بدلوانے والوں کے خلاف کارروائی کر ڈالی۔۔۔!

ارے کبھی اپنے ادارے کی خدمات کی بھی خبر لو اور اپنے ادارے میں موجود ایسی 'کالی بھیڑیں' بھی نکال باہر کرو، جو مبینہ طور پر خود بجلی چوری کے راستے دکھاتے ہیں اور رشوت خوری کے عوض 'جگاڑیں' کراتے ہیں۔ کبھی عوام کے 'پیٹک پیّے' پر بھی سرنگوں ہوا کرو اور یہ ثابت کرو کہ تم واقعی عوام کے خادم ہی ہو۔

بعینہٖ پانی کا مسئلہ دیکھ لیجیے، جتنی سرعت سے عام شہریوں کی ''چوری'' پر کارروائی ہوتی ہے، اتنی برق رفتاری صارفین کو سہولت پہنچانے میں کبھی نہیں دکھائی جاتی۔۔۔! گذشتہ دنوں راقم کو 'ایکسپریس' کے لیے پانی کے مسئلے پر فیچر کرتے ہوئے 'کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ' جانا ہوا، تو ان کے حکام کا یہ اصرار تھا کہ شہریوں کی جانب پانی کھینچنے کی موٹریں لگانا کُلی طور پر ''ناجائز'' اور ''غیرقانونی'' عمل ہے۔۔۔! تب بھی دست بدستہ ان سے عرض کیا تھا کہ سرکار ہم بھی نسلوں سے اس بدنصیب شہرِقائد کے باسی ہیں۔

ذرا بتا تو دیجیے کہ آپ کے نام نہاد پمپنگ اسٹیشنوں سے کَے گلیوں تک پانی پہنچ پاتا ہے اور وہ بھی کتنی دیر کو۔۔۔؟ نہیں، صاحب۔۔۔ وہ بضد رہے کہ پانی تو بنا موٹر کے ہی 'قانونی' ہوگا، جب کہ حقیقت میں اسی شہر کے بیسیوں ایسے علاقے ہوں گے کہ جہاں موٹروں کے باوجود بھی پانی عنقا ہو چکا ہے۔۔۔

اب آجائیے 'سوئی گیس' والوں پر جس کا درست تلفظ سُوئی نہیں بلکہ 'سوئی' ہونا چاہیے، یعنی 'سوئی ہوئی'۔۔۔ اور یہ اب جاگی بھی ہے، تو اپنے صارفین ہی پر چڑھ دوڑنے کو۔۔۔ انھی کی جاری کردہ ایک خبر کے

مطابق 18 فروری 2022ء کو کراچی کے علاقے 'نانک واڑہ' میں ایک شہری کے گھر پر چھاپا مارا گیا، جس نے گیس کھینچنے کے واسطے کمپریسر لگایا ہوا تھا، بتایا گیا ہے کہ سیٹیزن پورٹل پر اس عمل کی شکایت کی گئی تھی، جس پر پولیس، لیڈی پولیس اور وغیرہ وغیرہ پورے لائو لشکر کے ساتھ انھوں نے یہ 'شان دار' کارروائی کر ڈالی۔ ٹھیک ہے جناب، آپ نے بہت اچھا کام کیا۔۔۔ قابلِ داد بلکہ قابلِ فخر ہے، شہر کے معاشی دارالحکومت میں گیس بند کرنے کے زمانے میں کوئی کارنامہ آپ کے بھی گلے کا ہار اور سر کا تاج بن سکا، ہمیں بھی بڑی ''خوشی'' ہوئی۔ اخبار میں تین کالمی خبر بھی چھپ گئی، واہ واہ ہوگئی، لیکن وہ جو پوری سردی ختم ہوگئی اور شہر کو ڈھنگ سے گیس نہ مل سکی، اس کا مداوا کون کرے گا۔۔۔؟

کیا سیٹیزن پورٹل پر گیس نہ آنے کی کوئی ایک شکایت بھی نہیں ہے۔۔۔؟ اس کے باوجود اس ملک کے وہ کون سے 'بقراط' ہیں جنھوں نے سردی کم ہونے کے باوجود گیس کی فراہمی تو یقینی نہ بنائی، الٹا بند 'سی این جی' اسٹیشن کھولنے کا اعلان کر ڈالا تھا۔۔۔! کسی کے کان پر کوئی جوں بھی رینگتی ہے یہاں۔۔۔؟

یہاں گھروں میں لوگ خوار ہیں۔۔۔ مجبوراً 'بم' جیسے خطرناک گیس کے سلینڈر گھروں میں رکھے جا رہے ہیں، سات سال پرانی تنخواہوں کے ساتھ شہریوں پر گیس کی لوڈشیڈنگ کا عذاب بھی مسلط کر دیا گیا ہے۔۔۔ ان سوئی گیس والوں سے اتنا تک تو ہوتا نہیں ہے کہ سیدھے طریقے سے گیس بندش کے اوقات کار ہی کبھی منہ سے پُھوٹ دیں۔۔۔! کم از کم اب یہ تو نہ ہو کبھی گیس علی الصبح غائب، تو کبھی شام کو نہیں۔۔۔ کبھی رات کو نایاب، تو کبھی سرِدوپہر عنقا۔۔۔! یعنی غیرذمہ داری اور بے حسی کی کوئی حد بھی ہوتی ہے۔۔۔! گھر میں ہنڈیا چولھے پر ہے، کبھی دودھ جوش ہو رہا ہے، کبھی کسی بزرگ، کسی مریض، کسی بچے کو گرم پانی کی فوری ضرورت ہے اور بھی دس طرح کے ضروری کام ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن گیس ہے کہ 'سوئی گیس' والوں کی ''بَڑھیا'' کارکردگی کا منہ چڑا رہی ہے۔ ان کے پاس اس کام کے لیے کوئی چابک دستی نہیں۔۔۔ بس صارفین کے گھروں پر چھاپے پڑوالو!

اور یہ گھر میں گھُسے بھی، تو کمپریسر لگانے والے ''مجرم'' کے گھر پر۔۔۔! اور اعلان کرتے ہیں کہ اب بطور سزا دو ماہ تک گیس بند رکھی جائے گی۔۔۔ ارے، کیا گیس ڈھنگ سے آتی ہے، جو بند رہے گی! اور یہ بھی تو سوچو کہ کیا شہری نے گیس کے غبارے بیچنے کے لیے کمپریسر لگایا ہوا تھا۔۔۔؟ یہاں ملک کے سب سے بڑے شہر میں خود گیس جیسی بنیادی ضرورت کے لیے تماشا بنا دیا گیا، تبھی تو مجبوری میں لوگ کمپریسر لگوا رہے ہیں۔۔۔ ظاہر ہے یہ ٹھیک سے گیس تو فراہم کرنے جو کے ہیں نہیں، تو اب کیا چھاپے مار کر عام شہریوں پر اپنی بالادستی بھی نہ دکھائیں، یہاں ڈاکو اور پولیس وغیرہ سے لے کر سبھی کو بلا کم وکاست یہی شہری تو ملتے ہیں، سارے کے سارے ان کے ساتھ سڑکوں سے لے کر گلیوں اور اب گھرو تک پر یہ 'حسن سلوک' کرتے آرہے ہیں، اور بڑے دھڑلے سے کر رہے ہیں، تو یہ بھی تو بالآخر ایک ریاستی ادارہ ہے، اپنے شہریوں پر اتنا ''حق'' تو ان کا بھی بنتا ہے!

جب کلکتے جانے کے لیے
بہانے کی بھی ضرورت نہ تھی!
مشتاق احمد یوسفی

دارالخلافہ اسلام آباد ابھی پاکستان کے نقشہ پر نہیں ابھرا تھا اور کراچی ہی 'دارالخون خرابا' تھا۔ کراچی کا نقشہ ہی نہیں، تلفظ اور اِملا تک گنوارو سا تھا ۔ زکام نہ ہو تب بھی لوگ کراچی کو 'کرانچی' ہی کہتے تھے۔ چیف کورٹ کے سامنے 'گاندھی جی' کا ایک نہایت بھونڈا مجسمہ نصب تھا، جس کی کوئی چیز گاندھی جی سے مشابہت نہیں رکھتی تھی۔ سوائے لنگوٹی کی سلوٹوں کے۔

گوانیر جوڑے وکٹوریہ گاڑی میں بندر روڈ پر ہوا خوری کے لیے نکلتے اور نورانی شکل کے پیرانِ پارسی شام کو ایلفنسٹن اسٹریٹ کی دکانوں کے تھڑوں پر ٹھیکی لیتے۔ ایلفنسٹن اسٹریٹ پر کراچی والوں کو ابھی پیار نہیں آیا تھا اور وہ ''ایلفی'' نہیں کہلاتی تھی۔ سارے شہر میں ایک بھی نیوسائن نہ تھا۔ اس زمانے میں خراب مال بیچنے کے لیے اتنی اشتہار بازی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔

نیپیئر روڈ پر طوائفوں کے کوٹھے، ڈان اخبار کا دفتر اور اونٹ گاڑیوں کا اڈّا تھا۔ یہاں دن میں اونٹ گاڑیوں کا اوّل الذکر حصّہ کلیلیں کرتا اور رات کو تماش بین۔ اہل کمال اس زمانے میں بھی آشفتہ حال پھرتے تھے۔ کچھ ہماری طرح تھے کہ محض آشفتہ حال تھے۔ شریف گھرانوں میں جہیز میں سنگر مشین، ٹین کا ٹرنک اور بہشتی زیور دیا جاتا تھا۔ اردو غزل سے معشوق کو ہنوز شعر بدر نہیں کیا گیا تھا اور گیتوں اور کجریوں میں وہی ندیا، نِندیا اور نَندیا کا رونا تھا۔ میٹھانیوں اور اونچے گھرانوں کی بیگمات نے ابھی ساریاں خریدنے اور ہندوستانی فلمیں دیکھنے کے لیے بمبئی جانا نہیں چھوڑا تھا۔

ڈھاکا اور چٹاگانگ کے پٹ سن کے بڑے تاجر ''ویک اینڈ'' پر اپنی آرمینین داشتائوں کی خیرخیریت لینے اور اپنی طبیعت اور امارت کا بار ہلکا کرنے کے لیے کلکتے کے ہوائی پھیرے لگاتے تھے۔ کیا زمانہ تھا، کلکتے جانے کے لیے پاسپورٹ ہی نہیں، بہانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی۔ آم، کیلا اور شاعر ہندوستان سے اور لٹھا جاپان سے آتا تھا۔

بینکوں میں ابھی ایئرکنڈیشنر، میز پر فنانشل ٹائمز، ایرانی قالین، سیاہ مرسیڈیز کار، قلم چھوڑ ہڑتال، رشوت، آسٹن ریڈ کے سوٹ، مگرمچھ کی کھال کے بریف کیس اور اتنی ہی موٹی ذاتی کھال رکھنے کا رواج نہیں ہوا تھا۔ فقیر ابھی ہاتھ پھیلا پھیلا کر ایک پیسہ مانگتے اور مل جائے، تو سخی داتا کو کثرت اولاد کی 'بددعا' دیتے تھے۔ اور یہ فقیر پُرتقصیر اپنی اوقات کو نہیں بھولا تھا۔ کنڈوں کی آنچ پر چکنی ہانڈی میں ڈوئی سے گھٹی ہوئی ارد کی بے دھلی دال چٹخارے لے لے کر کھاتا اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا تھا۔

'سوشل میڈیا' سے باہر بھی موجود رہیں!
محمد علم اللہ، نئی دلی

'سوشل میڈیا' یا 'سماجی ذرایع اِبلاغ' پر مسلسل فعال رہنے، کچھ نہ کچھ لکھنے، دوسروں کی تحریریں پسند کرنے، ان پر تبصرے کرنے، انھیں بانٹنے اور اپنی سوچ کے مطابق کسی نقطۂ نظر پیش کرنے کا ہم پر یہ اثر ہوتا ہے کہ ہم خود کو بہت اہم سمجھنے لگتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اس کائنات کی حرکت ہمارے لکھنے، پڑھنے اور متحرک رہنے سے ہے۔ یہ اثر اتنا خفیف ہے کہ ہمیں اس کی خبر تک نہیں ہوتی اور ہم بس اپنی دھن میں ہی رہتے ہیں، لیکن یہ اثر بہت گہرائی تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔ اس قدر گہرا کہ اس کی وجہ سے آپ کو کسی بھی وقت دھچکا لگ سکتا ہے۔

یہ باریک اثر آپ کو اس وقت بہتر انداز میں سمجھ آئے گا جب کبھی آپ اچانک اس سے دور چلے جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ کسی اور کی تحریر کو پڑھنے، اسے مشتہر کرنے اور پسند کرنے کے بہ جائے ہم اپنی تحریر کو پڑھتے ہیں اور اس سمت میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ کیا یہ سب لکھنے کی ضرورت تھی؟ ایسا سوچنا خود کو نظم و نسق کی اس بھٹی میں جھونکنا نہیں ہوتا، جہاں ہماری باطنی فطرت ختم ہوتی چلی جائے اور ہم سب کچھ میکانکی طور پر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

جس طرح برگر کے پیاز اور ٹماٹر کے سلائس کے سائز کے بارے میں منطق اور توازن کی بات کی جاتی ہے، ایسا ہی کچھ کرنا شروع کر دیں۔ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کہیں اس چیز کا وہم ہمارے اندر نہ پیدا ہونے لگے اور اس وہم کی موٹی تہہ اس طرح جمنے لگے کہ ہم اپنے سامنے کسی اور کو دیکھنا اور سمجھنا ضروری نہ سمجھیں۔

دانستہ یا نادانستہ، یہاں لکھتے ہوئے ہم اپنی ایک ایسی تصویر بنا رہے ہوتے ہیں، جس کا بنیادی احساس یہ ہے کہ ہم سب سے بہتر، سلجھے ہوئے اور بہترین انسان ہیں۔ یہ رویہ دنیا کے لیے نہیں ہمارے لیے مہلک اور جان لیوا ہے۔

مطلب ہم کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں اور اس کا براہ راست اثر ہماری حقیقی زندگی پر پڑتا ہے۔ حقیقی زندگی میں ہم ہر قسم کی کم زوریوں اور خامیوں کے ساتھ موجود رہتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ضروری ہے کہ ہم بیچ، بیچ میں اس 'آن لائن' دنیا سے 'غائب' ہو کر اور اس سے باہر نکل کر بھی سوچیں اور اس بے ساختگی کے دامن کو تھامے رہیں، جس کے ایک بار چلے جانے سے سب کچھ منتشر اور درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اپنے آپ کو معمولی سمجھ کر خود کو بچائے رکھنے سے بڑھ کر کوئی اہم کام نہیں ہو سکتا۔ باقی کلکس، ہٹس، لائکس، شیئرز، وائرل، ٹرولز... ان سب کی ایک منصوبہ بند معاشیات اور حکمت عملی ہے۔ اس لیے ہمیں اسے کبھی ہوا میں اڑا کر ٹھوس مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔

امیر اور غریب کیوں۔۔۔؟
حبا رحمٰن، کراچی
میری تحریر کے عنوان سے ہی سب سمجھ گئے ہوں گے کہ آخر میں کیا کہنا چاہتی ہوں۔۔۔ کیوں اس زمانے میں 'امیر غریب' اتنا سننے کو ملتا ہے۔۔۔ ہر خبر میں یہ کہا جاتا ہے کہ 'اب غریب آدمی آخر کیا کرے گا۔۔۔؟' اس مہنگائی نے تو غریب کی کمر توڑ دی ہے، کیوں کوئی یہ نہیں کہتا کہ امیر آخر اتنا امیر کیسے ہوگیا۔۔۔؟

شاید میری یہ بات بہت سے لوگوں کو بری بھی لگے، مگر بات تو سچی ہے کہ کوئی اس بارے میں بات ہی نہیں کرنا چاہتا، آخر اتنا پیسہ آ کہاں سے رہا ہے۔۔۔؟ کیوں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کیوں صرف ایک غریب شخص ہی پریشان ہے، یہ سوچ کر کہ آج رات روٹی پیٹ بھر کر میرے گھر والے کھا پائیں گے کہ نہیں۔۔۔؟ اور دوسری طرف امیر اور ان کی اولادیں، بڑے سے ریسٹورنٹ میں آدھا کھانا کھا کے اور باقی چھوڑ کر چلے آتے ہیں۔ نہ چہرے پر افسوس، نہ ندامت، نہ اور نہ کوئی احساس۔۔۔ اور جب واپسی کے راستے میں ان کی بڑی سی گاڑی کی کھڑکی پر آ کے کوئی واقعی غریب بچّہ بھیک مانگ لے یا اپنی بھوک کا اظہار کر دے، کبھی کوئی چھوٹی موٹی چیز انھیں فروخت کرنا چاہے، تو وہ اس کو غصے سے دھتکار دیتے ہیں کہ ان کا تو یہ روز کا کام ہے۔

کیوں یہ نہیں سوچتے کہ ان کا اگر یہ روز کا ہے تو آخر کیوں ہے؟ کیوں یہ اتنا بھوک سے بلبلاتے ہیں، کیوں بھیک مانگتے ہیں اور کیوں ہم اپنے اس غرور میں ان کو ایسے دھتکارتے ہیں۔ ہاں یہ مجھے معلوم ہے کہ اس کے پیچھے حکومتی فیصلوں کا بھی بہت ہاتھ ہے، مگر یہ امیر لوگ جو غلط طریقوں سے پیسے کماتے ہیں، تو وہ بھی تو غلط ہی ہوتا ہے، کبھی وہ کسی غریب کا حق مارتے ہیں، وہ بھی ایسے کہ سب کو بے چارے غریب ہی کی غلطی لگنے لگتی ہے جیسا کہ گذشتہ دنوں گرائے جانے والے کراچی کے 'نسلہ ٹاور' پر سب کی جمع پونجی لگی ہوئی تھی۔

گھر تھے وہاں لوگوں کے۔۔۔ ان کے سر کی چھت تھی! مگر ہماری حکومت کو اس سے کیا۔۔۔؟ اور بنانے والے کا کیا گیا۔۔۔؟ کسی کا بھی کچھ نہیں گیا۔۔۔ بس گیا، تو وہاں کے رہنے والوں کا، جنھوں نے اپنی پوری زندگی کی پونجی لگا دی۔ کسی نے تو اس غم میں اپنی جان تک گنوا دی، لیکن فرق کسی کو بھی نہیں پڑا۔۔۔ کسی نے ان کو نہیں پکڑا، جنھوں نے اس رہائشی منصوبے کی منظوری دی، جنھوں نے اس کے لیے قرض دیا۔

یہ سب ذمہ داران اپنی زندگیوں میں مست ہیں۔ یہ بھی امیر غریب کا مسئلہ ہے؟ کیوں ہے ہر جگہ پیسے کو اتنی ترجیح۔۔۔؟ اس امیری نے بھی تو غریب کے لیے مشکلیں پیدا کر دی ہیں۔ غریب ہونا، غلط نہیں باہر کے ملکوں میں غریب کو بھی عزت دی جاتی ہے۔ غریب آدمی بھی سکون سے رہتا ہے۔ نہ کسی الجھن اور احساس کم تری کا شکار ہوتا ہے، نہ کچھ۔۔۔ بس سب اپنی اپنی زندگیوں میں خوش رہتے ہیں، مگر یہاں تو ہر جگہ ایک بے بسی ہے، جو سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ غریب آدمی تو یہاں بس ذلیل و خوار ہوا جاتا ہے، پتا نہیں کب تک چلے گا یہ امیر غریب کا مسئلہ اور کہاں جاکے رکے گا۔ 'اپنے کردار پر ڈال کے پردہ۔۔۔ ہر شخص کہہ رہا ہے کہ زمانہ خراب ہے!'

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں