اپوزیشن نو من تیل اور رادھا کا ناچ
اپوزیشن حکومت کے خلاف نہ نو من تیل جمع کرپائے گی اور نہ ہی کامیابی کا ناچ ہوپائے گا
CIUDAD JUáREZ, MEXICO:
''نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی''۔
ہم میں سے اکثر لوگوں نے یہ کہاوت تو سن ہی رکھی ہے، جس کا پسِ منظر کچھ یوں ہے کہ رادھا جو ہندوؤں کی مذہبی داستانوں کے مطابق شری رام کرشن کی محبوبہ تھی، جسے بعد میں دیوی بنا دیا گیا۔ رادھا گنگا کنارے شری رام کے ساتھ ناچتی تھی اور رادھا کا ناچ باقی تمام گوپیوں سے منفرد تھا۔
اس کہاوت کے تعلق سے کرشن جی اور رادھا کے قصے کی تلمیح ڈاکٹر شریف احمد قریشی نے اپنی تصنیف ''کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر'' میں کچھ اس طرح بیان کی ہے: ''ایک رات کرشن جی نے اپنی محبوبہ رادھا سے ناچنے کے لیے کہا۔ رادھا نے معذرت طلب کی، مگر کرشن جی ناچنے کےلیے مسلسل اصرار کرتے رہے۔ رادھا جی کو جب یہ محسوس ہوا کہ کرشن جی کسی طرح ماننے والے نہیں ہیں، تو انہوں نے کرشن جی سے کہا، ٹھیک ہے! میں ناچوں گی، آپ پہلے نو من تل کا چراغ جلوائیے۔ کیوں کہ میں ایسی ویسی نہیں ہوں، آپ کی محبوبہ ہوں۔ اس لیے میری بھی کچھ حیثیت ہے۔ کرشن جی یہ کہہ کر خاموش ہوگئے کہ نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی۔''
اس دور میں نو من تیل کا حصول ناممکن تھا۔ اس طرح یہ کہاوت ایک ضرب المثل بن گئی اور جہاں بھی کوئی کام کرنے کےلیے ایسی کڑی شرائط لگادی جائیں کہ جن کا پورا کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہو تو اس وقت یہ ضرب المثل سب کو یاد آتی ہے۔
ہمیں یہ کہاوت دراصل ہماری اپوزیشن کی پھرتیاں دیکھ کر یاد آئی کہ کس طرح اپوزیشن کی تمام پارٹیاں اور ان کے قائدین حکومت کو گرانے کےلیے سر توڑ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور اپنا مقصد حاصل کرنے کےلیے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ اور یہ اپوزیشن کی پہلی کوشش نہیں ہے، اس سے پہلے بھی گزشتہ تین سال میں یہ کئی بار عمران خان کو وزیراعظم کی کرسی سے ہٹانے کی کوشش کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف بھی اپنی پوری توانائیاں صرف کرچکی ہے مگر نہ تو سینیٹ میں اسے کامیابی حاصل ہوئی اور نہ ہی ابھی تک وزیراعظم کا کوئی بال بیکا ہوسکا ہے۔ گویا وزارت عظمیٰ کی سیٹ نہ ہوئی رادھا کا ناچ ہوگیا کہ جس کے لوازمات پورے ہی نہیں ہورہے۔
ادھر وزیراعظم ہیں کہ شلوار قمیض پر واسکٹ پہنے کبھی ادھر جا رہے ہیں اور کبھی ادھر جارہے ہیں۔ اور ساتھ ہر جلسے اور اجلاس میں اپوزیشن کو کھلا چیلنج دے رہے ہیں کہ جو کرنا ہے کرلو اور وہ جب تک زندہ ہیں ان کو چھوڑیں گے نہیں۔ اور اب تو وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ وزارت عظمیٰ کی کرسی چھوڑ کر باہر آگئے تو اور زیادہ خطرناک ہوجائیں گے۔ کیوں کہ ابھی تو اپنے دفتر میں آرام سے بیٹھ کر ٹی وی پر اپوزیشن کے تماشے دیکھ رہے ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک تیسرا طبقہ ہے جسے عرف عام میں عوام کہتے ہیں، جس کے نہ حکومت میں رشتے دار ہیں اور نہ ہی اپوزیشن میں۔ وہ بس اس چوہے بلی کے کھیل کو پاکستان بننے کے بعد سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جسے نہ نو من تیل چاہیے اور نہ ہی اسے رادھا کے ناچ سے کوئی دلچسپی ہے۔ یہ تو بس اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور حکومت اور اپوزیشن کی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ کیوں کہ حکومت اور اپوزیشن کے ایک دوسرے کے خلاف الزامات نہ کبھی ثابت ہوں گے اور نہ ان کو کوئی تکلیف پہنچے گی۔
سچ جھوٹ کے اس کھیل میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں، مگر نصیب نہ بدلا تو اس عوام کا جو صرف الیکشن کے دنوں میں ہمارے سیاست دانوں کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں اور بعد میں اسے کوڑا کرکٹ کی طرح نظر انداز کرتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔
عوام کے بھی کیا کہنے کہ ہر بار روٹھے ہوئے محبوب کی طرح ان کی باتوں میں آجاتے ہیں اور پھر وہی ''آوے ہی آوے'' کے نعروں سے زمین لرز اٹھتی ہے۔ آج کل تو ویسے ہی لوکل گورنمنٹ کے الیکشن کا دور ہے تو ہمارے سارے لیڈر چاہے وہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں، سب عوام کے درمیان ہیں اور کوئی جنازہ، فاتحہ خوانی اور شادی ان کی حاضری سے خالی نہیں ہے۔ اور پھر ان حاضریوں میں ایک عدد کیمرہ مین بھی ان کے ساتھ موجود ہوتا ہے، جیسے وہ افسوس اور خوشی کے اظہار کے دوران ایک سچے کھرے گواہ کا رول ادا کرتا ہے۔
ہماری اپوزیشن آج کل وزیراعظم کو گرانے کےلیے نو من تیل اکٹھا کرنے میں خوب دلجمعی سے کام کررہی ہے اور عوام کے دکھ دور کرنے کےلیے اسے برسوں پرانے یارانے بھی یاد آگئے ہیں۔ ان کی بھولی بسری یادیں تازہ ہوگئی ہیں۔ نہ ملنے جانے والوں کو کوئی ماضی کا احساس ہے اور نہ ہی استقبال کرنے والے کے ماتھے پر شکن کے کوئی آثار ہیں۔ اور ہوں بھی کیسے؟ کیوں کہ یہ سب تو ملک اور عوام کی بہتری کےلیے کررہے ہیں۔
اس سارے کھیل میں بادشاہ سے زیادہ بادشاہ گر کے دام بہت بڑھ گئے ہیں اور وہ ہر ایک جوہری کو بلا کر اس سے ملاقات کرکے اپنے وزن اور سامنے والے کی ہمت کا اندازہ لگا رہے ہیں اور یقیناً وہ آخری فیصلہ اسی کے حق میں کریں گے جس کی جوہر شناس نظروں میں وہ سب سے قیمتی ہوں گے اور قیمت صرف روپے پیسے میں نہیں ہوتی، اس کے اور بھی لوازمات ہوتے ہیں۔ عشائیے اور ظہرانے زور و شور سے جاری ہیں۔ عوام ان سب کی آنیاں اور جانیاں دیکھ رہے ہیں اور اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں، جو نہ آج تک ہوا ہے اور نہ مستقبل قریب میں اس کے آثار ہیں۔
چھپن چھپائی کے اس کھیل میں پہلی بات تو یہ کہ اپوزیشن کےلیے نو من تیل کا حصول تقریباً ناممکن ہوگا، کیوں کہ اپوزیشن جماعتوں کا کسی ایک پوائنٹ پر اتفاق کرنا اور پھر اس پر قائم رہنا ایسے ہی ہے جیسے دن کو رات کہنا۔ اور ایسا کئی بار ہوچکا ہے۔ جب تمام جماعتوں کا طریقہ کار ہی متفقہ نہیں بن سکتا تو مزید کیا امید کی جاسکتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر وقتی طور پر یہ جماعتیں کوئی تیر مار بھی لیتی ہیں تو یہ آپس میں کتنے دن یا گھنٹے کسی بھی ایجنڈے پر متفق ہوکر کام کرسکیں گی؟ کیوں کہ ان کے نظریات میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور ماضی میں یہ سب ایک دوسرے کو کیا کچھ نہیں کہہ چکے ہیں۔ اس لیے چاہے حکومت حاوی آجائے یا اپوزیشن، عوام کےلیے یہ چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات والی بات کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔
ادھر حکومتی جماعت نے بھی اپنے ناراض مگر پراثر دوستوں کو منانے کےلیے ٹاسک دے دیا ہے اور اپوزیشن اپنا سارا زور حکومت کے ناراض دوستوں کو اپنے ساتھ ملانے کےلیے لگا رہی ہے اور کچھ کو اگلی حکومت میں پرکشش عہدوں کے عوض موجودہ وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے پر تیار کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں سب ایک دوسرے کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں۔
یہ بات بھی کچھ غلط نہیں کہ ہمارے وزیراعظم بھی ساڑھے تین سال سے حکومت کے کپتان ہیں لیکن افسوس کہ آج بھی وہ مولا جٹ اور نوری نت جیسی بڑھکوں کی دنیا سے باہر نہیں نکل سکے اور اپنے ہر جلسے اور میٹنگ میں ایسی ہی بڑھکیں اور دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، سب کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ جب کہ عوام ہر گزرتے دن بڑھتے مسائل کی چکی میں پستے جا رہے ہیں۔ کبھی ادھر دیکھتے ہیں تو کبھی ادھر۔
ان ساری باتوں کے باوجود الیکشن کے دن قریب ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ ہم سب کچھ بھول گئے ہیں اور پھر وہی نعرے اور وہی بھنگڑے ہوں گے اور ان ہی لوگوں کو اسمبلی میں لانے کےلیے ہم ایک دوسرے کا گریبان پکڑے کھڑے ہوں گے۔ اور کچھ شہادتیں بھی ہماری الیکشن مہم کا خاصا ہوتی ہیں جن کی بدولت ہمارے لیڈر پہلے سے زیادہ ابھر کر سامنے آتے ہیں اور اپنی پروفائل میں یہ بھی اضافہ کرلیتے ہیں کہ ہم نے جمہوریت اور عوام کی خاطر کتنی جانوں کی قربانی دی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی''۔
ہم میں سے اکثر لوگوں نے یہ کہاوت تو سن ہی رکھی ہے، جس کا پسِ منظر کچھ یوں ہے کہ رادھا جو ہندوؤں کی مذہبی داستانوں کے مطابق شری رام کرشن کی محبوبہ تھی، جسے بعد میں دیوی بنا دیا گیا۔ رادھا گنگا کنارے شری رام کے ساتھ ناچتی تھی اور رادھا کا ناچ باقی تمام گوپیوں سے منفرد تھا۔
اس کہاوت کے تعلق سے کرشن جی اور رادھا کے قصے کی تلمیح ڈاکٹر شریف احمد قریشی نے اپنی تصنیف ''کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر'' میں کچھ اس طرح بیان کی ہے: ''ایک رات کرشن جی نے اپنی محبوبہ رادھا سے ناچنے کے لیے کہا۔ رادھا نے معذرت طلب کی، مگر کرشن جی ناچنے کےلیے مسلسل اصرار کرتے رہے۔ رادھا جی کو جب یہ محسوس ہوا کہ کرشن جی کسی طرح ماننے والے نہیں ہیں، تو انہوں نے کرشن جی سے کہا، ٹھیک ہے! میں ناچوں گی، آپ پہلے نو من تل کا چراغ جلوائیے۔ کیوں کہ میں ایسی ویسی نہیں ہوں، آپ کی محبوبہ ہوں۔ اس لیے میری بھی کچھ حیثیت ہے۔ کرشن جی یہ کہہ کر خاموش ہوگئے کہ نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی۔''
اس دور میں نو من تیل کا حصول ناممکن تھا۔ اس طرح یہ کہاوت ایک ضرب المثل بن گئی اور جہاں بھی کوئی کام کرنے کےلیے ایسی کڑی شرائط لگادی جائیں کہ جن کا پورا کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہو تو اس وقت یہ ضرب المثل سب کو یاد آتی ہے۔
ہمیں یہ کہاوت دراصل ہماری اپوزیشن کی پھرتیاں دیکھ کر یاد آئی کہ کس طرح اپوزیشن کی تمام پارٹیاں اور ان کے قائدین حکومت کو گرانے کےلیے سر توڑ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور اپنا مقصد حاصل کرنے کےلیے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ اور یہ اپوزیشن کی پہلی کوشش نہیں ہے، اس سے پہلے بھی گزشتہ تین سال میں یہ کئی بار عمران خان کو وزیراعظم کی کرسی سے ہٹانے کی کوشش کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف بھی اپنی پوری توانائیاں صرف کرچکی ہے مگر نہ تو سینیٹ میں اسے کامیابی حاصل ہوئی اور نہ ہی ابھی تک وزیراعظم کا کوئی بال بیکا ہوسکا ہے۔ گویا وزارت عظمیٰ کی سیٹ نہ ہوئی رادھا کا ناچ ہوگیا کہ جس کے لوازمات پورے ہی نہیں ہورہے۔
ادھر وزیراعظم ہیں کہ شلوار قمیض پر واسکٹ پہنے کبھی ادھر جا رہے ہیں اور کبھی ادھر جارہے ہیں۔ اور ساتھ ہر جلسے اور اجلاس میں اپوزیشن کو کھلا چیلنج دے رہے ہیں کہ جو کرنا ہے کرلو اور وہ جب تک زندہ ہیں ان کو چھوڑیں گے نہیں۔ اور اب تو وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ وزارت عظمیٰ کی کرسی چھوڑ کر باہر آگئے تو اور زیادہ خطرناک ہوجائیں گے۔ کیوں کہ ابھی تو اپنے دفتر میں آرام سے بیٹھ کر ٹی وی پر اپوزیشن کے تماشے دیکھ رہے ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک تیسرا طبقہ ہے جسے عرف عام میں عوام کہتے ہیں، جس کے نہ حکومت میں رشتے دار ہیں اور نہ ہی اپوزیشن میں۔ وہ بس اس چوہے بلی کے کھیل کو پاکستان بننے کے بعد سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جسے نہ نو من تیل چاہیے اور نہ ہی اسے رادھا کے ناچ سے کوئی دلچسپی ہے۔ یہ تو بس اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور حکومت اور اپوزیشن کی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ کیوں کہ حکومت اور اپوزیشن کے ایک دوسرے کے خلاف الزامات نہ کبھی ثابت ہوں گے اور نہ ان کو کوئی تکلیف پہنچے گی۔
سچ جھوٹ کے اس کھیل میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں، مگر نصیب نہ بدلا تو اس عوام کا جو صرف الیکشن کے دنوں میں ہمارے سیاست دانوں کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں اور بعد میں اسے کوڑا کرکٹ کی طرح نظر انداز کرتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔
عوام کے بھی کیا کہنے کہ ہر بار روٹھے ہوئے محبوب کی طرح ان کی باتوں میں آجاتے ہیں اور پھر وہی ''آوے ہی آوے'' کے نعروں سے زمین لرز اٹھتی ہے۔ آج کل تو ویسے ہی لوکل گورنمنٹ کے الیکشن کا دور ہے تو ہمارے سارے لیڈر چاہے وہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں، سب عوام کے درمیان ہیں اور کوئی جنازہ، فاتحہ خوانی اور شادی ان کی حاضری سے خالی نہیں ہے۔ اور پھر ان حاضریوں میں ایک عدد کیمرہ مین بھی ان کے ساتھ موجود ہوتا ہے، جیسے وہ افسوس اور خوشی کے اظہار کے دوران ایک سچے کھرے گواہ کا رول ادا کرتا ہے۔
ہماری اپوزیشن آج کل وزیراعظم کو گرانے کےلیے نو من تیل اکٹھا کرنے میں خوب دلجمعی سے کام کررہی ہے اور عوام کے دکھ دور کرنے کےلیے اسے برسوں پرانے یارانے بھی یاد آگئے ہیں۔ ان کی بھولی بسری یادیں تازہ ہوگئی ہیں۔ نہ ملنے جانے والوں کو کوئی ماضی کا احساس ہے اور نہ ہی استقبال کرنے والے کے ماتھے پر شکن کے کوئی آثار ہیں۔ اور ہوں بھی کیسے؟ کیوں کہ یہ سب تو ملک اور عوام کی بہتری کےلیے کررہے ہیں۔
اس سارے کھیل میں بادشاہ سے زیادہ بادشاہ گر کے دام بہت بڑھ گئے ہیں اور وہ ہر ایک جوہری کو بلا کر اس سے ملاقات کرکے اپنے وزن اور سامنے والے کی ہمت کا اندازہ لگا رہے ہیں اور یقیناً وہ آخری فیصلہ اسی کے حق میں کریں گے جس کی جوہر شناس نظروں میں وہ سب سے قیمتی ہوں گے اور قیمت صرف روپے پیسے میں نہیں ہوتی، اس کے اور بھی لوازمات ہوتے ہیں۔ عشائیے اور ظہرانے زور و شور سے جاری ہیں۔ عوام ان سب کی آنیاں اور جانیاں دیکھ رہے ہیں اور اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں، جو نہ آج تک ہوا ہے اور نہ مستقبل قریب میں اس کے آثار ہیں۔
چھپن چھپائی کے اس کھیل میں پہلی بات تو یہ کہ اپوزیشن کےلیے نو من تیل کا حصول تقریباً ناممکن ہوگا، کیوں کہ اپوزیشن جماعتوں کا کسی ایک پوائنٹ پر اتفاق کرنا اور پھر اس پر قائم رہنا ایسے ہی ہے جیسے دن کو رات کہنا۔ اور ایسا کئی بار ہوچکا ہے۔ جب تمام جماعتوں کا طریقہ کار ہی متفقہ نہیں بن سکتا تو مزید کیا امید کی جاسکتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر وقتی طور پر یہ جماعتیں کوئی تیر مار بھی لیتی ہیں تو یہ آپس میں کتنے دن یا گھنٹے کسی بھی ایجنڈے پر متفق ہوکر کام کرسکیں گی؟ کیوں کہ ان کے نظریات میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور ماضی میں یہ سب ایک دوسرے کو کیا کچھ نہیں کہہ چکے ہیں۔ اس لیے چاہے حکومت حاوی آجائے یا اپوزیشن، عوام کےلیے یہ چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات والی بات کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔
ادھر حکومتی جماعت نے بھی اپنے ناراض مگر پراثر دوستوں کو منانے کےلیے ٹاسک دے دیا ہے اور اپوزیشن اپنا سارا زور حکومت کے ناراض دوستوں کو اپنے ساتھ ملانے کےلیے لگا رہی ہے اور کچھ کو اگلی حکومت میں پرکشش عہدوں کے عوض موجودہ وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے پر تیار کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں سب ایک دوسرے کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں۔
یہ بات بھی کچھ غلط نہیں کہ ہمارے وزیراعظم بھی ساڑھے تین سال سے حکومت کے کپتان ہیں لیکن افسوس کہ آج بھی وہ مولا جٹ اور نوری نت جیسی بڑھکوں کی دنیا سے باہر نہیں نکل سکے اور اپنے ہر جلسے اور میٹنگ میں ایسی ہی بڑھکیں اور دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، سب کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ جب کہ عوام ہر گزرتے دن بڑھتے مسائل کی چکی میں پستے جا رہے ہیں۔ کبھی ادھر دیکھتے ہیں تو کبھی ادھر۔
ان ساری باتوں کے باوجود الیکشن کے دن قریب ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ ہم سب کچھ بھول گئے ہیں اور پھر وہی نعرے اور وہی بھنگڑے ہوں گے اور ان ہی لوگوں کو اسمبلی میں لانے کےلیے ہم ایک دوسرے کا گریبان پکڑے کھڑے ہوں گے۔ اور کچھ شہادتیں بھی ہماری الیکشن مہم کا خاصا ہوتی ہیں جن کی بدولت ہمارے لیڈر پہلے سے زیادہ ابھر کر سامنے آتے ہیں اور اپنی پروفائل میں یہ بھی اضافہ کرلیتے ہیں کہ ہم نے جمہوریت اور عوام کی خاطر کتنی جانوں کی قربانی دی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔