روس یوکرین محاذ ’سرد جنگ‘ کی ”گرم ہوائیں “

یوکرین اور روس کا موجودہ محاذ کو دیکھیے تو اس کی جڑیں براہ راست سوویت یونین کے زمانے میں جا نکلتی ہیں

روس اس وقت یوکرین کی پارلیمنٹ سے محض 9 کلومیٹر کی دوری پر ہے، فوٹو: فائل

لاہور:
1990 کی دہائی میں دنیا کے نقشے پر 'سوویت یونین' کی 'سلطنت' منہدم ہوئی، تو ایشیا اور یورپ میں 15 نئے ممالک خودمختار ہو کر ابھرے اس کے کچھ ہی عرصے بعد یورپ میں 1993ء ایک کھلی ڈلی 'یورپی یونین' نے انگڑائی لی، جو ہر گزرتے وقت کے ساتھ بہتر اور فعال ہوتی چلی گئی اور آج براعظم یورپ کے 27 ممالک اس کے رکن کہلاتے ہیں۔

رقبے کے لحاظ سے دیکھا جائے، تو قازقستان کے بعد 'یونین آف سوشلسٹ سوویت ریپبلکس' (یو ایس ایس آر) کا دوسرا بڑا رقبہ رکھنے والا ملک یوکرین تھا اور اگر روس کو شامل کیجیے، تو تیسرا۔ جب کہ یورپ کے نقشے کو دیکھیے، تو یہ اس براعظم کا سب سے بڑا ملک قرار پاتا ہے، لیکن تاحال اپنے 'سوویت ماضی' کے سبب یورپی یونین کا رکن نہیں بن سکا ہے۔
اس وقت 'یورپی یونین' کا حصہ نہ ہونے والے ممالک میں ایشیا اور یورپ کے بَین بَین رہنے والے ترکی، جارجیا، آرمینیا کے ساتھ وسطی ایشیا میں شمار کیے جانے والے آذربائیجان اور قازقستان کے ساتھ روس بھی گنے جاتے ہیں، ان میں ترکی، البانیہ، Montenegro اور North Macedonia کی یورپی یونین میں شمولیت کی درخواستیں زیر التوا ہیں، جب کہ سریبیا، کوسوو اور بوسنیا ہرزیگونیا شرائط پوری نہ کرنے کے باعث رکنیت سے محروم ہیں۔

رہا یوکرین، تو اس کے روس نواز صدر وکٹر ینکووچتے نے 2014ء میں روسی حمایت کے حصول کے لیے یورپی یونین سے منسلک ہونے کا معاہدہ منسوخ کر دیا، تو انھیں شدید عوامی ردعمل کے بعد مستعفی ہونا پڑ گیا تھا۔ یوں متوقع طور پر 23 ممالک ایسے ہیں، جو 'یورپی یونین' میں شامل ہو سکتے ہیں، جن میں یورپ کا اہم ترین ملک برطانیہ بھی شامل ہے، جو 31 جنوری 2020ءمیں یورپی یونین سے علاحدہ ہو چکا ہے، اس کے علاوہ ناروے، سوئٹزر لینڈ، بیلا روس، آئس لینڈ کے علاوہ ویٹی کن وغیرہ بھی یورپی یونین میں شامل نہیں۔

یوکرین اور روس کا موجودہ محاذ کو دیکھیے تو اس کی جڑیں براہ راست سوویت یونین کے زمانے میں جا نکلتی ہیں، یعنی ہم اِس جنگ کو سرد جنگ کی 'گرم ہواﺅں' سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔

٭ روس 'خوابیدہ عالمی طاقت'

رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک روس، دنیا کے رقبے کا کُل 11 فی صد بنتا ہے، جب کہ یوکرین کا رقبہ محض 0.4 فی صد ہے۔ آبادی کے لحاظ سے روس دنیا کا نواں بڑا ملک ہے۔ روس نے 'سوویت یونین' کے خاتمے کے بعد زمینی حقائق کے مطابق بتدریج اپنی خارجہ پالیسی سے اپنے مرتبے کو بڑھانا شروع کیا، جس کے باعث اسے خوابیدہ سپر پاور قرار دیا جاتا رہا کہ جو عالمی منظر نامے میں کچھ وقت کے لیے 'غائب' ضرور ہے، لیکن جب بھی ضروری ہوا اس نے اپنا وجود ثابت کیا ہے۔ جیسا کہ ایران کی امریکا سے محاذ آرائی میں روس نے کھل کر ایران کے ساتھ دیا ہے۔ اسی طرح شام میں 2011ءسے جاری بدترین خانہ جنگی کے باوجود صدر بشارالاسد کا بھرپور ساتھ دیا، اور باغیوں پر بھرپور حملے کیے، جس کی بنا پر امریکا تاحال شامی حکومت کو بے دخل نہیں کر سکا۔

٭2008ئ: اکیسویں صدی کی پہلی 'یورپی جنگ'

سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے روس اپنی سابقہ ریاستوں میں مغربی اثر رسوخ پر گہری نظر رکھتا رہا ہے اور اس نے ہر ممکن طریقے سے اپنے ہم سائے میں امریکی اور برطانوی اثر کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ اسی کوششوں میں 2008ءمیں یوکرین کی طرح جارجیا سے تنازع بھی جنگ کی شکل اختیار کر گیا، جسے اکیسویں صدی کی پہلی یورپی جنگ قرار دیا جاتا ہے۔ 'ڈی ڈبلیو اردو' کی ایک رپورٹ کے مطابق 'جنوبی اوسیتیا نے 1992ءمیں جارجیا سے علاحدگی کا اعلان کیا تھا اور تب سے عملاً آزاد اور خود مختار ہے۔ تاہم بین الاقوامی سطح پر اِسے جارجیا کا ہی حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ دو بار، 1992ءمیں اور 2006ءمیں ہونے والے ریفرنڈم میں جنوبی اوسیتیا کے شہریوں نے جارجیا سے الگ ہونے کے حق میں ووٹ دئے، تاہم بین الاقوامی سطح پر اِن ریفرنڈم کو تسلیم نہیں کیا گیا۔'

٭ سابقہ سوویت یونین میں تین کروڑ روسی

سوویت یونین کے انہدام کے بعد لگ بھگ تین کروڑ روسی روس کی سرحد سے باہر رہ گئے تھے۔ سب سے زیادہ تعداد قازقستان یوکرین اور بالٹک ریاستوں میں ہے۔ اور ان ریاستوں کو یہ خوف رہا کہ ماسکو ان ممالک میں موجود روسی آبادی کو حکومتوں پر دباﺅ ڈالنے ا ور ان پر اثرانداز ہونے کے لیے استعمال کرے گا اور یوکرین میں باقاعدہ ہم اس کا مشاہدہ بھی کرتے رہے۔


٭ روسی 'دولت مشترکہ

برطانوی 'دولت مشترکہ' کی طرح ایک 'سوویت دولت مشترکہ' یعنی Commonwealth of Independent States (CIS) 1991ءمیں بنائی گئی، جس میں 12 سابق سوویت ریاستیں، روس، بیلا روس، یوکرین، آرمینیا، جارجیا، Moldova، تاجکستان، ترکمانستان، قازقستان، کرغزستان، آذربائیجان اور ازبکستان شامل رہیں۔ تین بالٹک ریاستیں اسٹونیا، لٹیویا اور لیتھوینیا نے شمولیت اختیار نہیں کی، جو بعد ازاں مغربی جھکاﺅ رکھنے کے باعث 2004ءمیں یورپی یونین اور پھر 'نیٹو' (NATO - The North Atlantic Treaty Organisation) کے رکن بن گئے۔ دوسری طرف 2008ءمیں رو سی حملے کے بعد جارجیا اور 2014ءمیں کریمیا کی جنگ کے بعد یوکرین نے اس سے علاحدگی اختیار کرلی۔ اس تنظیم کا مرکز بیلا روس میں واقع ہے، جو باہمی سیاسی، معاشی، فوجی اور ماحولیاتی تعاون کو فروغ دیتے ہیں۔ گویا روس کو اپنی سابق سوویت ریاستوں کو یک جا کرنے میں ایک محدود سی کام یابی مل سکی، اگرچہ سابق جغرافیے پر اثر رسوخ کے لیے ماسکو کی توقعات خاطر خواہ پوری نہیں ہو سکی ہیں۔

٭ یوکرین کا تیسرا روسی اکثریتی علاقہ بھی روس کے پاس!

22 فروری 2022ءکو روس نے یوکرین سے علاحدگی اختیار کرنے والے 'لوہانسک' اور 'دونیستک' کو آزاد خودمختار ملک تسلیم کر لیا۔ جس کے بعد 2014ءمیں 'کریمیا کے بعد باقی دو روسی اکثریتی علاقے بھی یوکرین سے الگ ہو چکے ہیں۔ یوکرین نے 16 جولائی 1990ءکو سوویت یونین سے علاحدگی اور 24 اگست 1991ءکو مکمل آزادی کا اعلان کیا۔ 'انڈیپنڈنٹ اردو' کی ایک رپورٹ کے مطابق روس کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے فشاری گروہوں میں 17 فی صد روسی آبادی کے تنازعات تب سے جاری رہے، جب سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ اس لیے امریکا نے روس کو یورپ میں قابو کرنے کے لیے 'نیٹو' کے تعاون سے یوکرین کے دوسری جانب کے ہم سائے لتھوانیا، پولینڈ اور رومانیہ میں فوج اور ہتھیار نصب کر دیے۔
2014ءروس اور یوکرین تنازع کا عروج پر رہا۔ مشرقی علاقوں سے روس کی سرحد پر حملے ہوئے، جس پر روس نے کریمیا کو کنٹرول کرلیا، جس سے علاحدگی پسندوں کو مزید ہوا ملی۔ روس کہتا ہے کہ مغربی حمایت سے روسی النسل علاقوں میں جتھے خوں ریزی کر رہے ہیں۔ جب کہ مغربی ممالک بھی روس پر بے امنی کا الزامات لگاتے ہیں، موجودہ محاذ سے پہلے تک کے ایک محتاط اندازے ے مطابق اب تک اس میں 14 ہزار افراد مارے گئے۔ 2015ءمیں فرانس کے تعاون سے معاہدہ ہوا اور گذشتہ سال جھڑپیں شروع ہوگئیں جو بالآخر روسی حملے پر منتج ہوا۔

'چرنوبل' کی تلخ یادوں سے جُڑا ہوا یوکرین!
100 فی صد خواندگی کا حامل یوکرین بہ یک وقت کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے:

٭ یوکرین کے شہر پریپیٹ میں واقع چرنوبل کی وجہ¿ شہرت یہاں پیش آنے والا 26 اپریل 1986ءکا خوف ناک حادثہ تھا، جس میں وہاں جوہری بجلی گھر سے تاب کاری خارج ہونے کے نتیجے میں 31 افراد ہلاک اور سیکڑوں متاثر ہوئے تھے۔

٭ یوکرین لوہے، تیل، گیس اور کوئلے وغیرہ جیسی قیمتی معدنی ذخائر سے ہی مالامال نہیں، بلکہ زراعت کے اعتبار سے بھی قابل رشک ملک ہے۔ معروف صحافی وسعت اللہ خان لکھتے ہیں "غلے کی پیداوار کے سبب یوکرین 'یورپ کا چنگیر' کہلاتا رہا ہے۔ دنیا بھر کی 25 فی صد گندم میں روس اور یوکرین کا حصہ ہوتا ہے۔ یوکرین کا 71 فی صد رقبہ قابلِ کاشت ہے اور زرخیز ترین سیاہ مٹی والا ایک چوتھائی عالمی رقبہ صرف یوکرین کے پاس ہے۔" اس کے علاوہ یوکرین دنیا بھر میں سب سے زیادہ سورج مکھی کے بیج پیدا کرنے و الا ملک ہے۔ 11 ملین ٹن یعنی لگ بھگ دنیا کا پاﺅ سورج مکھی کا بیج یوکرین میں پیدا ہوتے ہیں۔

٭ یوکرین کی واحد سرکاری زبان کو اطالوی زبان کے بعد دنیا کی دوسری نغمگیں ترین زبان، جب کہ فرانسیسی اور فارسی کے بعد دنیا کی تیسری خوب صورت ترین زبان قرار دیا گیا ہے۔ اکثر یوکرینی باشندے روسی زبان سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔

٭ یونیسکو کی جانب سے عالمی آثار قدیمہ قرار دیے گئے سات تاریخی مقا مات یوکرین میں واقع ہیں۔ جن میں Kyiv's Saint-Sophia Cathedral سرفہرست ہے۔ یوکرین کو قدیمی قلعوں اور ایسے تاریخی مقامات کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ منفرد لکڑی کے چرچ کے ساتھ ساتھ 'بیچ فورسٹ' قابل ذکر ہے، جو 33 ہزار 670 ہیکٹر پر مشتمل ہے، یہ مقام یورپ میں ماحولیات کے حوالے سے چند بڑے ماخذ اور سیاحوں کے لیے دنیا کے پرسکون ترین مقامات میں سے ایک شمار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دارالحکومت کیف میں جنگل میں سبزے سے ڈھکی ہوئی 4.9 کلو میٹر کی ریل کی سرنگ بھی مشہور ہے، جو 'محبت کی سرنگ' سے موسوم کی جاتی ہے۔

٭ یوکرین میں دنیا کا دوسرا سب سے گہرا میٹرو اسٹیشن واقع ہے، جو سطح زمین سے 105.5 میٹر یعنی 346 فٹ نیچے واقع ہے، 1960 میں تعمیر شدہ 'کیف میٹرو' کی دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کی تعمیر سرد جنگ کے زمانے میں ہوئی اور اسے کسی بھی ممکنہ جوہری حملے سے بچانے کی خاطر زیر زمین کیا گیا۔ شمالی کوریا نے 1973ءمیں 360 فٹ گہرا Pyongyang Metro اسٹیشن قائم کر دیا، جو دنیا سب سے گہرا اسٹیشن ہے۔
Load Next Story