آپریشن کیلیے حکومت پر بہت دبائو ہے شاہد خاقان عباسی

بہت سے معاملات طالبان کمیٹی کی دسترس میں نہیں،عرفان صدیقی، تعطل عارضی ہے، یوسف شاہ


Monitoring Desk February 20, 2014
ثالثوں کے ذریعے مذاکرات سے سنجیدگی ختم ہو جاتی ہے، بابر اعوان کی ’’کل تک‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: وزیر اعظم کے معاون خصوصی عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ جنگ بندی حکومت کی انا کا مسئلہ نہیں مگر یہ 18کروڑ عوام کی آرزو ہے۔

ایکسپریس نیوزکے پروگرام ''کل تک'' میں میزبان جاویدچوہدری سے گفتگوکرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ طالبان کی نمائندہ مذاکراتی کمیٹی کے پاس دس بار اور سر کے بل جانے کو تیار ہیں مگر بہت سے معاملات ان کی دسترس میں نہیں ہیں۔ اگر13برسوں کی جنگ ختم کرنے کیلیے نسخہ کیمیا ان کے پاس آ گیا ہے تو وہ عوام کے سامنے رکھیں، ہمارے ساتھ ملاقات پر کیوں مصر ہیں؟ عرفان صدیقی نے کہاکہ مذاکرات شروع ہونے کے بعد سے حکومت کی طرف سے تو جنگ نہیں ہو رہی مگر طالبان کی طرف سے 172لوگوں کی فہرست آ گئی ہے۔ وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ تیس برسوں سے بوئے گئے بیجوں کی فصل اب کاٹنا پڑ رہی ہے، بیٹھ کر مسئلہ حل ہو جائے تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں مگر مذاکرات کیلیے جنگ بندی ضروری ہے۔ حکومت نے پرامن حل کیلیے کوشش کی مگر بدقسمتی سے جو حالات پیدا ہوئے اس سے مذاکرات کو ٹھیس پہنچی، سیکڑوں بے گناہوں کو شہید کرکے اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کی جائے تو مذاکرات ممکن نہیں رہتے۔ اگرمذاکرات ختم ہوگئے ہیں توآپریشن کرناپڑے گا، اس کیلیے حکومت پر بہت دباؤہے۔

اگرکسی نے یہ بیان دیاہے کہ اسلام آباد بھی محفوظ نہیں ہے تو یہ غیرذمہ دارانہ بیان ہے۔ گیس پائپ لائن ہزاروں کلومیٹر طویل ہے، ہر جگہ اس کی حفاظت نہیں کی جاسکتی، حملوں کو برداشت اور مقابلہ کرنا پڑیگا اور حکومت مقابلہ کر رہی ہے۔ طالبان کمیٹی کے رکن مولانا یوسف شاہ نے کہاکہ ہم نے شروع میں طے کیا تھا کہ مذاکرات کا سفر ایک ضابطے کے تحت مکمل ہو گا، ایک دوسرے کے تحفظات اور خدشات دورکرنا ہونگے۔ مذاکرات میں تعطل عارضی ہے، ڈیڈلاک ختم ہوجائے گا، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے، مذاکرات کی کامیابی کیلیے آخری حد تک جائیںگے، وزیراعظم کی بھی یہی خواہش ہے۔ امن صرف مذاکرات سے ہوگا۔ آپریشن کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا، سوات، باجوڑ اورکراچی آپریشنوں کا نتیجہ دیکھ لیں، اس سے لاکھوں لوگ بے گھر اور ہزاروں قتل ہوتے ہیں۔ ہم خونریزی نہ ہونے کی ضمانت دینے والے تھے مگر حکومتی کمیٹی نے ملاقات سے انکار کر دیا، اگر وہ مل بیٹھنے کو تیار ہو جائیں تو معاملہ پندرہ منٹوں میں حل ہو جائے گا، جس میں جنگ بندی بھی شامل ہے۔ ایف سی اہلکاروں کی ہلاکت کا معاملہ بھی مل بیٹھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔

پیپلزپارٹی کے سینیٹر بابر اعوان نے کہا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں، بلوچستان میں علیحدگی پسند متحرک ہو چکے ہیں، کراچی میں الگ صورتحال اور ہاتھ واضح ہیں۔ اس حوالے سے قومی پالیسی درکار ہے، ایمرجنسی کا مطالبہ آئینی ہے، ہم نے سوات آپریشن سے پہلے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا، حکومت بھی ایسا کرے اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائے۔ انھوں نے کہاکہ میں نے ایسے مذاکرات اور مذاکرات کار کہیں نہیں دیکھے، جن کے پاس میڈیا کے سامنے بیٹھے رہنے اور پریس کانفرنسیں کرنے کے علاوہ وقت نہ ہو۔ فریقین کے درمیان ابھی تک براہ راست مذاکرات نہیں ہو سکے، ثالثوں کے ذریعے گفتگو ہو رہی ہے، جس سے اس کی سنجیدگی ختم ہو جاتی ہے۔ حکومتی کمیٹی اہل لوگوں پر مشتمل ہے مگر ارکان پارلیمینٹ کو اس سے باہر رکھا گیا ہے، کیا وہ اس قابل نہیں ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں