پی ایس ایل نے سماں باندھ دیا
فائنل میں ٹکر کا مقابلہ متوقع ہے، لاہور قلندرز واحد ٹیم ہے جس نے ملتان سلطانز کو ابتدائی مرحلے میں شکست دی
VIGO:
اگر میں آپ سے یہ سوال پوچھوں کہ پی ایس ایل کی سب سے خاص بات کیا ہے تو ذہن میں مختلف جواب آئیں گے، البتہ اگر کرکٹ کے معیار کا ہی سوچا ہے تو میری اور آپ کی رائے ایک جیسی ہے۔
دنیا کے کئی ممالک میں ٹی ٹوئنٹی لیگز ہوتی ہیں مگر بیشتر کب شروع ہو کر ختم ہو گئیں کم ہی لوگوں کو علم ہوتا ہوگا، جیسے کہ اگر میں آپ کو بتائوں کہ حال ہی میں بنگلہ دیش نے اپنی لیگ کرائی تو بیشتر سوچیں گے کہ اچھا ہم نے تو اس کا کوئی میچ ہی نہیں دیکھا۔
مائیکل وان سمیت کئی سابق و موجودہ اسٹارز پاکستانی لیگ میں بہترین کرکٹ کی مثالیں دیتے ہیں، شاید آپ سوچیں کہ چونکہ یہ پاکستانی ہے لہٰذا ایسا کہہ رہا ہے لیکن میں نیوٹرل ہو کر بھی جواب دوں تو یہی کہوں گا کہ پی ایس ایل آئی پی ایل سے آگے ہے، ٹھیک ہے بھارت کے پاس پیسہ ہے جس سے وہ دنیا بھر سے بڑے اسٹارز کو مدعو کر لیتا ہے مگر ہمارے ایونٹ جیسی بات پھر بھی نہیں آ پاتی۔
ایک تو ٹورنامنٹ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا، دوسرا بولرز پٹتے رہتے ہیں، رنز کے انبار لگ جاتے ہیں، پی ایس ایل میں بولرز بھی میچز جتواتے ہیں، بیٹنگ اور بولنگ میں ٹکر کا مقابلہ ہوتا ہے،گذشتہ 2 برسوں میں کوویڈ نے رنگ میں بھنگ ڈالا ہوا تھا جس کی وجہ سے چوتھے اور پانچویں ایڈیشن کو درمیان میں روکنا پڑا، اس سے ٹیمپو ٹوٹ گیا،بعد میں ایونٹ مکمل تو ہوا مگر وہ بات نہ تھی، گذشتہ برس تو یو اے ای واپس بھی جانا پڑا۔
اس میں یقینی طور پر پی سی بی حکام کی نااہلی بھی شامل تھی جنھوں نے بائیو ببل کو سنجیدگی سے نہ لیا اور ٹیموں پر سختی نہیں برتی، شکر ہے اب رمیز راجہ جیسے محنتی اور قابل چیئرمین کے آنے سے معاملات بہتر ہوئے اور اس بار ایونٹ کامیابی سے تکمیل کی جانب گامزن ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سربراہ کے علاوہ بیشتر لوگ وہی ہیں لیکن پھر بھی انتظامات اچھے ہوئے، اس سے لیڈر شپ کی اہمیت واضح ہوتی ہے، یہی سلمان نصیر اور عثمان واہلہ پہلے کچھ نہیں کر پاتے تھے اب رمیز کے آنے سے انھیں بھی کام کرنا پڑ رہا ہے، البتہ یہ لانگ ٹرم حل نہیں، میرا رمیز راجہ کو یہی مشورہ ہے کہ پی ایس ایل کی الگ ٹیم بنائیں جس میں قابل آفیشلز کا تقرر کریں، واہلہ جیسے لوگ برسوں سے بورڈ میں ہیں انھوں نے کیا تیر مار لیے، سلمان نے شکر ہے اب سیلف پروجیکشن کم کی ہے مگر وہ لیگل کے آدمی ہیں وہیں رکھتے۔
خیر اب تو سی او او بنا دیا ہے کام تو لینا ہوگا،ارے ہاں یہ تو بتائیں کہ شعیب نوید مستعفی ہو گئے تھے تو اب کام کیسے کر رہے ہیں؟ وہ گئے بھی تھے یا نہیں؟ ویسے ہمیں یہ بات ماننا ہوگی کہ پی ایس ایل میں اس بار جان ہوم میچز کی وجہ سے پڑی، اس کا کریڈٹ لاہور قلندرز کو دینا ہوگا، کراچی میں تو کوئی ماحول ہی نہیں بنا تھا لیکن لاہور میں میلے کا سا سماں ہے،مجھے عباس رضا نے چند ویڈیوز بھیجیں ان میں سڑکیں سجی ہوئی دکھائی دی رہی ہیں، کھلاڑیوں کے کٹ آئوٹس جگہ جگہ آویزاں ہیں،ٹکٹیں بلیک میں فروخت ہو رہی ہیں۔
کراچی میں کنگز کے میچز میں ایسا نہ تھا، یہاں خیر سو فیصد کرائوڈ کی اجازت بھی نہیں تھی لیکن جتنے لوگ آئے انھیں دیکھ کر یہی لگا کہ ہائوس فل کبھی نہ ہو پاتا، میری کل عاقب جاوید سے بات ہو رہی تھی، انھوں نے اس کا کریڈٹ اپنی فرنچائز کے سی ای او عاطف رانا کو دیا، عاقب بھائی کے مطابق وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتے ہی رہتا ہے، پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام، ہائی پرفارمنس سینٹر، شاہین آفریدی کی کپتانی یہ سب آئیڈیے عاطف کے دماغ کی پیداوار ہیں۔
ابھی ایک اسٹینڈ کو قلندرز کے نام کر کے پولیس کے شہدا،ایس او ایس ولیج اور میڈیا کے دوستوں کو خراج تحسین پیش کیا آگے آگے دیکھو کیا ہوتا ہے۔ میں نے اس پر ہنس کر کہا عاقب بھائی 1،2 ایسے لوگ پی سی بی کو بھی دے دیں۔
ویسے اگر آپ پلے آف میچز کی بات کریں تو بڑے اعصاب شکن مقابلے ہوئے ہیں،بورڈ نے بعض مضحکہ خیز فیصلے بھی کیے، جیسے اپنے ہی کوویڈ قوانین کو آخری لمحات میں تبدیل کر دیا، چلیں انھیں اس لیے مان لیتے ہیں کہ اس سے لیگ میں دلچسپی بڑھی، ایلکس ہیلز کو بغیر قرنطینہ کے کھیلنے کی اجازت مل گئی، کہا گیا کہ وہ چونکہ کچھ عرصے قبل بگ بیش میں کوویڈ کا شکار ہو گئے تھے اس لیے ایسا کیا۔
اگر یہ بات درست مان لیں تو جب وہ پہلے آئے تو کیوں قرنطینہ کرایا؟اس وقت بھی چھوڑ دیتے تو شاید سخت ببل کی شکایت کرتے ہوئے واپس نہ جاتے، اسی طرح پال اسڑلنگ تو آتے ہی میچ بھی کھیل گئے، ملتان سلطانز اور لاہور قلندرز دونوں ہی ٹیمیں اس پر خوش نہیں تھیں مگر انھوں نے خود ہی پہلے پی سی بی کے پیغام پر تھمپس اپ کیا تھا،اس لیے کچھ ہو نہیں سکتا تھا۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کا قسمت نے ساتھ دیا مگر پھر بھی ٹیم فائنل میں رسائی نہ پا سکی، البتہ شاداب خان نے جو کمٹمنٹ دکھائی اس پر وہ داد کے مستحق ہیں، انجریز و دیگر مسائل کے سبب کھلاڑیوں سے محرومی پر بھی ٹیم کا پلے آف تک پہنچنا بڑی بات ہے، پشاور زلمی کا سفر پہلے ختم ہو گیا مگر وہاب ریاض کے آنسو بتا رہے تھے کہ وہ ٹیم سے کس حد تک کمیٹڈ ہیں، ملتان سلطانز کو محمد رضوان اور شان مسعود سمیت چند کرکٹرز نے ناقابل تسخیر بنا دیا ہے، اسی طرح شاہین آفریدی کی کپتانی دیکھ کر ایسا لگتا ہی نہیں کہ انھیں پہلی بار یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
پی ایس ایل سے ماضی کی طرح اب بھی پاکستان ٹیم کو خاصا فائدہ ہوگا، فائنل میں ٹکر کا مقابلہ متوقع ہے، لاہور قلندرز واحد ٹیم ہے جس نے ملتان سلطانز کو ابتدائی مرحلے میں شکست دی، اب ایک بار پھر شائقین کو بہترین کرکٹ دیکھنے کو ملے گی، میں بھی سوچ رہا ہوں کہ لاہور جا کر جشن کا یہ ماحول دیکھوں اور آنکھوں دیکھا حال آپ کو بیان کرئوں،قلندرز جیتیں یا سلطانز فتح پاکستان کی ہی ہوگی، یہی اس ایونٹ کا اصل مقصد ہے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
اگر میں آپ سے یہ سوال پوچھوں کہ پی ایس ایل کی سب سے خاص بات کیا ہے تو ذہن میں مختلف جواب آئیں گے، البتہ اگر کرکٹ کے معیار کا ہی سوچا ہے تو میری اور آپ کی رائے ایک جیسی ہے۔
دنیا کے کئی ممالک میں ٹی ٹوئنٹی لیگز ہوتی ہیں مگر بیشتر کب شروع ہو کر ختم ہو گئیں کم ہی لوگوں کو علم ہوتا ہوگا، جیسے کہ اگر میں آپ کو بتائوں کہ حال ہی میں بنگلہ دیش نے اپنی لیگ کرائی تو بیشتر سوچیں گے کہ اچھا ہم نے تو اس کا کوئی میچ ہی نہیں دیکھا۔
مائیکل وان سمیت کئی سابق و موجودہ اسٹارز پاکستانی لیگ میں بہترین کرکٹ کی مثالیں دیتے ہیں، شاید آپ سوچیں کہ چونکہ یہ پاکستانی ہے لہٰذا ایسا کہہ رہا ہے لیکن میں نیوٹرل ہو کر بھی جواب دوں تو یہی کہوں گا کہ پی ایس ایل آئی پی ایل سے آگے ہے، ٹھیک ہے بھارت کے پاس پیسہ ہے جس سے وہ دنیا بھر سے بڑے اسٹارز کو مدعو کر لیتا ہے مگر ہمارے ایونٹ جیسی بات پھر بھی نہیں آ پاتی۔
ایک تو ٹورنامنٹ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا، دوسرا بولرز پٹتے رہتے ہیں، رنز کے انبار لگ جاتے ہیں، پی ایس ایل میں بولرز بھی میچز جتواتے ہیں، بیٹنگ اور بولنگ میں ٹکر کا مقابلہ ہوتا ہے،گذشتہ 2 برسوں میں کوویڈ نے رنگ میں بھنگ ڈالا ہوا تھا جس کی وجہ سے چوتھے اور پانچویں ایڈیشن کو درمیان میں روکنا پڑا، اس سے ٹیمپو ٹوٹ گیا،بعد میں ایونٹ مکمل تو ہوا مگر وہ بات نہ تھی، گذشتہ برس تو یو اے ای واپس بھی جانا پڑا۔
اس میں یقینی طور پر پی سی بی حکام کی نااہلی بھی شامل تھی جنھوں نے بائیو ببل کو سنجیدگی سے نہ لیا اور ٹیموں پر سختی نہیں برتی، شکر ہے اب رمیز راجہ جیسے محنتی اور قابل چیئرمین کے آنے سے معاملات بہتر ہوئے اور اس بار ایونٹ کامیابی سے تکمیل کی جانب گامزن ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سربراہ کے علاوہ بیشتر لوگ وہی ہیں لیکن پھر بھی انتظامات اچھے ہوئے، اس سے لیڈر شپ کی اہمیت واضح ہوتی ہے، یہی سلمان نصیر اور عثمان واہلہ پہلے کچھ نہیں کر پاتے تھے اب رمیز کے آنے سے انھیں بھی کام کرنا پڑ رہا ہے، البتہ یہ لانگ ٹرم حل نہیں، میرا رمیز راجہ کو یہی مشورہ ہے کہ پی ایس ایل کی الگ ٹیم بنائیں جس میں قابل آفیشلز کا تقرر کریں، واہلہ جیسے لوگ برسوں سے بورڈ میں ہیں انھوں نے کیا تیر مار لیے، سلمان نے شکر ہے اب سیلف پروجیکشن کم کی ہے مگر وہ لیگل کے آدمی ہیں وہیں رکھتے۔
خیر اب تو سی او او بنا دیا ہے کام تو لینا ہوگا،ارے ہاں یہ تو بتائیں کہ شعیب نوید مستعفی ہو گئے تھے تو اب کام کیسے کر رہے ہیں؟ وہ گئے بھی تھے یا نہیں؟ ویسے ہمیں یہ بات ماننا ہوگی کہ پی ایس ایل میں اس بار جان ہوم میچز کی وجہ سے پڑی، اس کا کریڈٹ لاہور قلندرز کو دینا ہوگا، کراچی میں تو کوئی ماحول ہی نہیں بنا تھا لیکن لاہور میں میلے کا سا سماں ہے،مجھے عباس رضا نے چند ویڈیوز بھیجیں ان میں سڑکیں سجی ہوئی دکھائی دی رہی ہیں، کھلاڑیوں کے کٹ آئوٹس جگہ جگہ آویزاں ہیں،ٹکٹیں بلیک میں فروخت ہو رہی ہیں۔
کراچی میں کنگز کے میچز میں ایسا نہ تھا، یہاں خیر سو فیصد کرائوڈ کی اجازت بھی نہیں تھی لیکن جتنے لوگ آئے انھیں دیکھ کر یہی لگا کہ ہائوس فل کبھی نہ ہو پاتا، میری کل عاقب جاوید سے بات ہو رہی تھی، انھوں نے اس کا کریڈٹ اپنی فرنچائز کے سی ای او عاطف رانا کو دیا، عاقب بھائی کے مطابق وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتے ہی رہتا ہے، پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام، ہائی پرفارمنس سینٹر، شاہین آفریدی کی کپتانی یہ سب آئیڈیے عاطف کے دماغ کی پیداوار ہیں۔
ابھی ایک اسٹینڈ کو قلندرز کے نام کر کے پولیس کے شہدا،ایس او ایس ولیج اور میڈیا کے دوستوں کو خراج تحسین پیش کیا آگے آگے دیکھو کیا ہوتا ہے۔ میں نے اس پر ہنس کر کہا عاقب بھائی 1،2 ایسے لوگ پی سی بی کو بھی دے دیں۔
ویسے اگر آپ پلے آف میچز کی بات کریں تو بڑے اعصاب شکن مقابلے ہوئے ہیں،بورڈ نے بعض مضحکہ خیز فیصلے بھی کیے، جیسے اپنے ہی کوویڈ قوانین کو آخری لمحات میں تبدیل کر دیا، چلیں انھیں اس لیے مان لیتے ہیں کہ اس سے لیگ میں دلچسپی بڑھی، ایلکس ہیلز کو بغیر قرنطینہ کے کھیلنے کی اجازت مل گئی، کہا گیا کہ وہ چونکہ کچھ عرصے قبل بگ بیش میں کوویڈ کا شکار ہو گئے تھے اس لیے ایسا کیا۔
اگر یہ بات درست مان لیں تو جب وہ پہلے آئے تو کیوں قرنطینہ کرایا؟اس وقت بھی چھوڑ دیتے تو شاید سخت ببل کی شکایت کرتے ہوئے واپس نہ جاتے، اسی طرح پال اسڑلنگ تو آتے ہی میچ بھی کھیل گئے، ملتان سلطانز اور لاہور قلندرز دونوں ہی ٹیمیں اس پر خوش نہیں تھیں مگر انھوں نے خود ہی پہلے پی سی بی کے پیغام پر تھمپس اپ کیا تھا،اس لیے کچھ ہو نہیں سکتا تھا۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کا قسمت نے ساتھ دیا مگر پھر بھی ٹیم فائنل میں رسائی نہ پا سکی، البتہ شاداب خان نے جو کمٹمنٹ دکھائی اس پر وہ داد کے مستحق ہیں، انجریز و دیگر مسائل کے سبب کھلاڑیوں سے محرومی پر بھی ٹیم کا پلے آف تک پہنچنا بڑی بات ہے، پشاور زلمی کا سفر پہلے ختم ہو گیا مگر وہاب ریاض کے آنسو بتا رہے تھے کہ وہ ٹیم سے کس حد تک کمیٹڈ ہیں، ملتان سلطانز کو محمد رضوان اور شان مسعود سمیت چند کرکٹرز نے ناقابل تسخیر بنا دیا ہے، اسی طرح شاہین آفریدی کی کپتانی دیکھ کر ایسا لگتا ہی نہیں کہ انھیں پہلی بار یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
پی ایس ایل سے ماضی کی طرح اب بھی پاکستان ٹیم کو خاصا فائدہ ہوگا، فائنل میں ٹکر کا مقابلہ متوقع ہے، لاہور قلندرز واحد ٹیم ہے جس نے ملتان سلطانز کو ابتدائی مرحلے میں شکست دی، اب ایک بار پھر شائقین کو بہترین کرکٹ دیکھنے کو ملے گی، میں بھی سوچ رہا ہوں کہ لاہور جا کر جشن کا یہ ماحول دیکھوں اور آنکھوں دیکھا حال آپ کو بیان کرئوں،قلندرز جیتیں یا سلطانز فتح پاکستان کی ہی ہوگی، یہی اس ایونٹ کا اصل مقصد ہے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)