جادوگری
سیاست میں پاکستان کی کوئی سیاسی پارٹی پیپلز پارٹی کا مقابلہ نہیں کرسکتی
کراچی:
آج کل کراچی کی سیاست میں جمود طاری ہے۔ کہیں کوئی دھرنا ہے نہ ریلی نکالی جا رہی ہے۔ شہر کی کوئی بھی سڑک بند نہیں ہے۔ ہر سڑک پر ٹریفک معمول کے مطابق رواں دواں ہے۔ اب سندھ اسمبلی سے پولیس کی اضافی نفری بھی ہٹا دی گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس بھی محفوظ ہے۔ وہاں اب کسی سیاسی پارٹی کی جانب سے ریلی لے جانے کا کوئی پروگرام نہیں ہے ، مگر یہ سب کچھ کیا ہے بس یہ سب پیپلز پارٹی کی سیاست کا کمال ہے۔ تمام مخالفین کو خاموش بھی کردیا اورکچھ دیا بھی نہیں۔ مگرکیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ چند دن قبل کراچی کی تمام سیاسی پارٹیوں نے پورے شہر کو سر پر اٹھا رکھا تھا ہر طرف سے پیپلز پارٹی کے خلاف آوازیں اٹھائی جا رہی تھیں کہ وہ بلدیاتی حقوق کی غاصب ہے ، اس نے بلدیاتی اداروں پر قبضہ کرکے شہر کو کھنڈر بنا دیا ہے۔
بلدیاتی حقوق کی بحالی کے لیے ریلیوں اور دھرنوں کی بھر مار تھی۔ تمام سیاسی پارٹیاں بلدیاتی حقوق کی بحالی تک احتجاج جاری رکھنے کا مصمم عزم ظاہرکر رہی تھیں۔ ہر سیاسی پارٹی وزیر اعلیٰ ہاؤس اپنی ریلی لے جا کر وہاں طویل دھرنا دینا چاہتی تھی مگر کسی بھی پارٹی کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکی ، اس صورت حال میں جماعت اسلامی نے سندھ اسمبلی کے مین گیٹ کے قریب دھرنا دینے میں کامیابی حاصل کرلی۔ یہ جگہ حقیقتاً بہت حساس تھی کیونکہ سندھ اسمبلی میں داخلے کے لیے یہی گیٹ استعمال ہوتا ہے۔
جماعت اسلامی کا دھرنا تقریباً ایک ماہ تک بخیر و خوبی جاری رہا مگر پھر پیپلزپارٹی کے چند ارکان سے مذاکرات کے بعد یہ دھرنا ، ایک معاہدے پر منتج ہوگیا۔ جماعت اسلامی نے اپنے دھرنے کو بے حد کامیاب قرار دیا اور پورے شہر میں اپنی کامیابی کے بینر لگا دیے جن میں دھرنے کی کامیابی پر شہریوں کو مبارکباد پیش کی گئی تھی کہ ان کے تمام ہی مطالبات مان لیے گئے ہیں اور پیپلز پارٹی جلد ہی بلدیاتی حقوق بحال کر دے گی۔
ایم کیو ایم نے بھی ایک بہت بڑی ریلی نکالی جس کی پولیس سے جھڑپ بھی ہوئی۔ یہ جھڑپ اس قدر شدت اختیار کرگئی کہ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ہلاک ہو گیا مگر پولیس نے اسے ہلاک کرنے کی تردید کی اور اس کی ہلاکت کو طبعی موت قرار دیا۔ ایم کیو ایم نے ماضی کی طرح اس ہلاکت پر اگلے دن ہڑتال کی کال دی مگر وہ ایک دو علاقوں کے علاوہ کامیاب نہ ہو سکی۔
اسی دوران چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے سندھ میں بلدیاتی حقوق کی بحالی کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ اس فیصلے نے ایم کیو ایم کے حوصلے بڑھا دیے اس لیے کہ یہ فیصلہ ایم کیو ایم کی ایک پرانی پٹیشن پر ہی دیا گیا تھا۔
ایم کیو ایم کے مرکز بہادر آباد میں اس فیصلے پر جشن منایا گیا اور اہل کراچی کو مژدہ سنایا گیا کہ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی کو لازمی طور پر بلدیاتی حقوق بحال کرنا ہوں گے مگر اب فیصلے کو آئے کئی دن گزر چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اس فیصلے کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔ اب جماعت اسلامی سے لے کر ایم کیو ایم تک تمام ہی پارٹیاں مایوسی کا شکار ہوکر پھر نئے سرے سے ریلیوں کے نکالنے اور دھرنے دینے کے اعلانات کر رہی ہیں۔
اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ سیاست میں پاکستان کی کوئی سیاسی پارٹی پیپلز پارٹی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ البتہ اب پیپلز پارٹی کی جانب سے بلدیاتی حقوق کی بحالی کے سلسلے میں کچھ اقدامات کرنے کی خبریں آ رہی ہیں مگر لگتا ہے یہ بھی صرف لوگوں کو خوش کرنے کی چال کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کے خلاف کراچی سے اسلام آباد تک ایک بڑی ریلی نکال رہی ہے ، چنانچہ اسے اس وقت اتنی فرصت ہی کہاں کہ وہ اس کے علاوہ کسی دوسرے ایشو پر توجہ دے سکے۔ ہاں اگر اس کا بلدیاتی حقوق کے سلسلے میں کچھ کرنے کا دل چاہا تو ریلی کے بعد ہی کچھ ہوگا۔
اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سیاست سمجھ میں نہ آنے والی ہے وہ کس وقت کیا فیصلہ کرے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ وہ ویسے تو اسٹیبلشمنٹ سے دور ہی رہتی ہے مگر کبھی کبھی اس کے قریب بھی چلی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کی عوام کو کچلنے والی پالیسیوں کے خلاف تاریخی ریلی نکال تو رہی ہے مگر خود اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھ رہی کہ وہ اپنے صوبے کے عوام کے ساتھ کیسا بھیانک رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسے پہلے اپنے گھر کو درست کرنا چاہیے۔
بلدیاتی مسائل تو ایک طرف اس وقت کراچی میں چوریاں اور ڈاکے عروج پر ہیں روز ہی گھروں میں ڈاکے پڑ رہے ہیں اور سڑکوں پر لوگوں کو لوٹنے کے ساتھ جان سے بھی مارا جا رہا ہے۔ اسے ان مسائل کو حل کرنے کے بعد ہی وفاق کے خلاف کچھ کرنے کا سوچنا چاہیے تھا اس نے کراچی کے میئر کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر ایک طرف میئر کے عہدے کی تضحیک کی ہے تو دوسری جانب جن بلدیاتی اداروں کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے ان کی کارکردگی پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔
وفاق بلدیاتی ترقیاتی کاموں کے لیے حکومت سندھ کو ہر سال بارہ سو ارب روپے دیتا ہے وہ رقم اعلیٰ حکام تک پہنچ کر ان کی ملکیت بن جاتی ہے کیوں کہ اس رقم کو یونین کونسلوں تک پہنچانے کے لیے ان پر کوئی قانونی پابندی عائد نہیں ہے۔ اب کچھ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے جن میں پی ایس پی پیش پیش ہے اٹھارہویں ترمیم میں مزید ترمیم کرکے حکومت سندھ کو ترقیاتی رقم یونین کونسلوں تک پہنچانے کا پابند بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے 18 ویں ترمیم کے حوالے سے سخت موقف اختیار کر رکھا ہے، اس کا کہنا ہے کہ اس ترمیم میں کسی بھی قسم کی ترمیم کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اس دھمکی نے وفاق کو 18 ویں ترمیم کے معاملے کو چھیڑنے سے روک رکھا ہے ، حالانکہ وفاق خود اس ترمیم سے سخت نالاں ہے کیونکہ اس کی وجہ سے اس کے اپنے اخراجات پورے نہیں ہو پا رہے ہیں۔
آج کل کراچی کی سیاست میں جمود طاری ہے۔ کہیں کوئی دھرنا ہے نہ ریلی نکالی جا رہی ہے۔ شہر کی کوئی بھی سڑک بند نہیں ہے۔ ہر سڑک پر ٹریفک معمول کے مطابق رواں دواں ہے۔ اب سندھ اسمبلی سے پولیس کی اضافی نفری بھی ہٹا دی گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس بھی محفوظ ہے۔ وہاں اب کسی سیاسی پارٹی کی جانب سے ریلی لے جانے کا کوئی پروگرام نہیں ہے ، مگر یہ سب کچھ کیا ہے بس یہ سب پیپلز پارٹی کی سیاست کا کمال ہے۔ تمام مخالفین کو خاموش بھی کردیا اورکچھ دیا بھی نہیں۔ مگرکیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ چند دن قبل کراچی کی تمام سیاسی پارٹیوں نے پورے شہر کو سر پر اٹھا رکھا تھا ہر طرف سے پیپلز پارٹی کے خلاف آوازیں اٹھائی جا رہی تھیں کہ وہ بلدیاتی حقوق کی غاصب ہے ، اس نے بلدیاتی اداروں پر قبضہ کرکے شہر کو کھنڈر بنا دیا ہے۔
بلدیاتی حقوق کی بحالی کے لیے ریلیوں اور دھرنوں کی بھر مار تھی۔ تمام سیاسی پارٹیاں بلدیاتی حقوق کی بحالی تک احتجاج جاری رکھنے کا مصمم عزم ظاہرکر رہی تھیں۔ ہر سیاسی پارٹی وزیر اعلیٰ ہاؤس اپنی ریلی لے جا کر وہاں طویل دھرنا دینا چاہتی تھی مگر کسی بھی پارٹی کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکی ، اس صورت حال میں جماعت اسلامی نے سندھ اسمبلی کے مین گیٹ کے قریب دھرنا دینے میں کامیابی حاصل کرلی۔ یہ جگہ حقیقتاً بہت حساس تھی کیونکہ سندھ اسمبلی میں داخلے کے لیے یہی گیٹ استعمال ہوتا ہے۔
جماعت اسلامی کا دھرنا تقریباً ایک ماہ تک بخیر و خوبی جاری رہا مگر پھر پیپلزپارٹی کے چند ارکان سے مذاکرات کے بعد یہ دھرنا ، ایک معاہدے پر منتج ہوگیا۔ جماعت اسلامی نے اپنے دھرنے کو بے حد کامیاب قرار دیا اور پورے شہر میں اپنی کامیابی کے بینر لگا دیے جن میں دھرنے کی کامیابی پر شہریوں کو مبارکباد پیش کی گئی تھی کہ ان کے تمام ہی مطالبات مان لیے گئے ہیں اور پیپلز پارٹی جلد ہی بلدیاتی حقوق بحال کر دے گی۔
ایم کیو ایم نے بھی ایک بہت بڑی ریلی نکالی جس کی پولیس سے جھڑپ بھی ہوئی۔ یہ جھڑپ اس قدر شدت اختیار کرگئی کہ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ہلاک ہو گیا مگر پولیس نے اسے ہلاک کرنے کی تردید کی اور اس کی ہلاکت کو طبعی موت قرار دیا۔ ایم کیو ایم نے ماضی کی طرح اس ہلاکت پر اگلے دن ہڑتال کی کال دی مگر وہ ایک دو علاقوں کے علاوہ کامیاب نہ ہو سکی۔
اسی دوران چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے سندھ میں بلدیاتی حقوق کی بحالی کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ اس فیصلے نے ایم کیو ایم کے حوصلے بڑھا دیے اس لیے کہ یہ فیصلہ ایم کیو ایم کی ایک پرانی پٹیشن پر ہی دیا گیا تھا۔
ایم کیو ایم کے مرکز بہادر آباد میں اس فیصلے پر جشن منایا گیا اور اہل کراچی کو مژدہ سنایا گیا کہ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی کو لازمی طور پر بلدیاتی حقوق بحال کرنا ہوں گے مگر اب فیصلے کو آئے کئی دن گزر چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اس فیصلے کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔ اب جماعت اسلامی سے لے کر ایم کیو ایم تک تمام ہی پارٹیاں مایوسی کا شکار ہوکر پھر نئے سرے سے ریلیوں کے نکالنے اور دھرنے دینے کے اعلانات کر رہی ہیں۔
اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ سیاست میں پاکستان کی کوئی سیاسی پارٹی پیپلز پارٹی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ البتہ اب پیپلز پارٹی کی جانب سے بلدیاتی حقوق کی بحالی کے سلسلے میں کچھ اقدامات کرنے کی خبریں آ رہی ہیں مگر لگتا ہے یہ بھی صرف لوگوں کو خوش کرنے کی چال کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کے خلاف کراچی سے اسلام آباد تک ایک بڑی ریلی نکال رہی ہے ، چنانچہ اسے اس وقت اتنی فرصت ہی کہاں کہ وہ اس کے علاوہ کسی دوسرے ایشو پر توجہ دے سکے۔ ہاں اگر اس کا بلدیاتی حقوق کے سلسلے میں کچھ کرنے کا دل چاہا تو ریلی کے بعد ہی کچھ ہوگا۔
اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سیاست سمجھ میں نہ آنے والی ہے وہ کس وقت کیا فیصلہ کرے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ وہ ویسے تو اسٹیبلشمنٹ سے دور ہی رہتی ہے مگر کبھی کبھی اس کے قریب بھی چلی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کی عوام کو کچلنے والی پالیسیوں کے خلاف تاریخی ریلی نکال تو رہی ہے مگر خود اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھ رہی کہ وہ اپنے صوبے کے عوام کے ساتھ کیسا بھیانک رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسے پہلے اپنے گھر کو درست کرنا چاہیے۔
بلدیاتی مسائل تو ایک طرف اس وقت کراچی میں چوریاں اور ڈاکے عروج پر ہیں روز ہی گھروں میں ڈاکے پڑ رہے ہیں اور سڑکوں پر لوگوں کو لوٹنے کے ساتھ جان سے بھی مارا جا رہا ہے۔ اسے ان مسائل کو حل کرنے کے بعد ہی وفاق کے خلاف کچھ کرنے کا سوچنا چاہیے تھا اس نے کراچی کے میئر کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر ایک طرف میئر کے عہدے کی تضحیک کی ہے تو دوسری جانب جن بلدیاتی اداروں کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے ان کی کارکردگی پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔
وفاق بلدیاتی ترقیاتی کاموں کے لیے حکومت سندھ کو ہر سال بارہ سو ارب روپے دیتا ہے وہ رقم اعلیٰ حکام تک پہنچ کر ان کی ملکیت بن جاتی ہے کیوں کہ اس رقم کو یونین کونسلوں تک پہنچانے کے لیے ان پر کوئی قانونی پابندی عائد نہیں ہے۔ اب کچھ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے جن میں پی ایس پی پیش پیش ہے اٹھارہویں ترمیم میں مزید ترمیم کرکے حکومت سندھ کو ترقیاتی رقم یونین کونسلوں تک پہنچانے کا پابند بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے 18 ویں ترمیم کے حوالے سے سخت موقف اختیار کر رکھا ہے، اس کا کہنا ہے کہ اس ترمیم میں کسی بھی قسم کی ترمیم کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اس دھمکی نے وفاق کو 18 ویں ترمیم کے معاملے کو چھیڑنے سے روک رکھا ہے ، حالانکہ وفاق خود اس ترمیم سے سخت نالاں ہے کیونکہ اس کی وجہ سے اس کے اپنے اخراجات پورے نہیں ہو پا رہے ہیں۔