سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری
آئی ایم ایف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی معیشت کی شرح نمو 2024 تک دوبارہ نیچے آجائے گی
کراچی:
سرمایہ دارانہ نظام چونکہ زوال پذیری کی جانب گامزن ہے، اس لیے دنیا بھر کے عوام کو اس کا متبادل سماج تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ وہ متبادل سماج کیسا ہوگا اس کا جائزہ بعد میں لیں گے۔
ابھی سرمایہ داری کی بھیانک صورتحال پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ یہ راقم کا ذاتی موقف نہیں بلکہ سرمایہ داروں کا معتبر رسالہ دی اکنامسٹ کیمطابق پاکستان دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک ہے۔ 2019 میں جاری کی گئی اپنی آخری سہ ماہی رپورٹ میں آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ 70 فیصد عالمی معیشتیں گراوٹ کا شکار ہیں۔
آئی ایم ایف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی معیشت کی شرح نمو 2024 تک دوبارہ نیچے آجائے گی۔ چین کے علاوہ تمام نام نہاد ابھرتی معیشتیں بھی بحران کی زد میں ہیں۔ موجودہ حالات میں ان معیشتوں کی آمدنی میں ہونیوالے حقیقی نقصان ایشیا میں جی ڈی پی کے 8 فیصد کے برابر ہے جب کہ باقی عالمی جنوب میں نقصان کی یہ شرح جی ڈی پی کا 4/6 فیصد تک دیکھا گیا ہے۔
ترکی جسے معاشی پالیسیوں کو ترقی پذیر ملک کے لیے چند سال قبل ایک رول ماڈل کے طور پر تصور کیا جاتا تھا، اب ترکی کی کرنسی لیرا پچھلے ایک سال میں 78 فیصد قدر کھو چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہاں مہنگائی کا طوفان امڈ آیا ہے۔ مہنگائی کی شرح میں 20 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ عالمی عدم مساوات کی رپورٹ (WIR) سال 2021 کیمطابق دنیا گزشتہ چالیس سالہ عرصے میں اس وقت بدترین نابرابری کا شکار ہے۔
دنیا کے محض دس فیصد افراد کے پاس دنیا کی 80 فیصد تک دولت ہے۔ ان امیر افراد میں سے محض ایک فیصد ایسے ہیں جو دنیا کی 45 فیصد دولت پر حاکمیت رکھتے ہیں، جب کہ تین ارب انسانوں کے پاس سرے سے کوئی جمع پونجی موجود ہی نہیں ہے۔ پچھلے سال امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے نے رپورٹ شایع کی کہ امریکا میں 2003 اور 2016 کے درمیان 26 دوا ساز کمپنیوں نے 33 ارب ڈالر کے جرمانے ادا کیے۔
امریکی حکام نے یہ جرمانے رشوت خوری، جان بوجھ کر خراب ادویات فارمیسی کو مہیا کرنے، غیر قانونی استعمال کے لیے ادویات فراہم کرنے اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کی وجہ سے لگائے تھے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل 2016 میں یو کے ایڈ کی معاونت سے دوا سازی کے شعبے میں کرپشن پر ایک رپورٹ پیش کی جس کیمطابق صرف امریکا میں ہر سال دوا سازی کی صنعت ڈاکٹروں کے ذریعے اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے 42 ارب ڈالر خرچ کرتی ہے۔ یعنی فی ڈاکٹر 61 ہزار ڈالر۔
عالمی ادارہ صحت نے 2010 میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ نظام صحت میں نااہلی کے دس بڑے ماخذوں میں سے تین کا تعلق ادویات سے ہے جب کہ کرپشن اس نااہلی کا پہلا ماخذ ہے۔ ایک جانب عوام بھوک، افلاس اور لاعلاجی کا شکار ہیں تو دوسری جانب اسلحہ پیدا کرنیوالی مغربی کمپنیوں نے اسلحہ کی پیداوار میں بھرمار کردیا ہے اور اب اس کی کھپت کے لیے میدان جنگ تخلیق کیے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب عالمی مالیاتی اداروں نے پسماندہ ملکوں کو قرض تلے دبائے رکھا ہوا ہے اور نت نئے احکامات جاری کرکے ان سے منوایا جا رہا ہے۔ بلکہ اب وہ پسماندہ ملکوں کے اندرون ملک معیشتوں کو اپنی من مانی کے طور پر چلا رہے ہیں۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کے دباؤ پر پارلیمنٹ سے اپنے مطالبات منوا رہا ہے۔
شوکت ترین کیمطابق عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں اور مختلف درآمدی اشیا کی لاگت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ جس کے لیے شرح سود میں اضافہ نہ صرف غلط بلکہ خطرناک ہے جوکہ کاروباری لاگت میں اضافے اور معاشی سرگرمیوں میں کمی کا باعث بنے گا۔ مگر گورنر مرکزی بینک کا اصرار ہے کہ یہ مہنگائی اور افراط زر معاشی بڑھوتری کی وجہ سے ہے جس کو قابو کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ ناگزیر ہے۔
اسی طرح پاکستان کی کرنسی اور ڈالر کی شرح تبادلہ کو کھلے بازار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ڈالر آسمان کو چھو رہا ہے۔ غیر یقینی کیفیت اور افغانستان کی ریاست کو یہاں سے چلانے کی ضد کے لیے درکار ڈالروں کی وجہ سے ڈالر کی ملک میں کمی نے روپے کو بے قدر کردیا ہے۔
مالیاتی اداروں کے سربراہ اپنے حاضر سروس ملازم لگواتے ہیں بلکہ اس لوٹ مار کو بڑھانے کے لیے قانونی و آئینی ڈھانچے میں بھی جبر کے ذریعے تبدیلیاں کرواتے ہیں جس کے نتیجے میں حالیہ عرصے میں ہمیں نظر آتا ہے کہ کس طرح مالیاتی اداروں کے بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے کئی قوانین اور بل اسمبلی سے پاس کروائے گئے ہیں۔ ان سب اقدامات کو قابل عمل بنانے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکا کر اس ملک کے مضبوط اداروں کے ذریعے وہ قوانین منظور کروائے گئے جوکہ یہاں کے سیاسی رہنماؤں اور سرمایہ داروں کی نااہلی کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ کیمطابق 18 فروری 2022 کو ختم ہونیوالے ہفتے کے دوران مہنگائی میں 0.22 فیصد اضافہ ہوا۔ جب کہ سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح میں اضافہ 18.09 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ سب سے زیادہ مہنگائی محنت کش طبقے کے لیے 19.40 فیصد ہوگئی۔ اگر حکومت بے بس ہے اور عوام کے لیے کچھ نہیں کرسکتی ہے تو کم ازکم آٹا، دال، چاول، دودھ، چینی، گوشت، انڈا، تیل، گھی، سبزی کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی کرکے سبسڈیز کے ذریعے عوام کو ایک حد تک مہنگائی کے جن سے بچائے۔ ان انقلابی اقدامات کے بغیر کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔
ہم نے مضمون کی ابتدا میں اس زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل نظام یا سماج تشکیل دینے کی ضرورت کی بات کی ہے۔ وہ ایسے کہ عوام خود اپنے طور پر فنڈنگ کرکے کمیون تشکیل دیں۔ مل کر پیداوار کریں اور مل کر کھائیں۔ ایک کمیٹی بنا کر اس کے حوالے کریں تو اجتماعی کچن اور دھوبی گھاٹ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ یہ عمل ہم دنیا بھر میں جہاں جہاں کمیون نظام قائم ہے ان کے تجربوں اور طریقہ کار سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام چونکہ زوال پذیری کی جانب گامزن ہے، اس لیے دنیا بھر کے عوام کو اس کا متبادل سماج تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ وہ متبادل سماج کیسا ہوگا اس کا جائزہ بعد میں لیں گے۔
ابھی سرمایہ داری کی بھیانک صورتحال پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ یہ راقم کا ذاتی موقف نہیں بلکہ سرمایہ داروں کا معتبر رسالہ دی اکنامسٹ کیمطابق پاکستان دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک ہے۔ 2019 میں جاری کی گئی اپنی آخری سہ ماہی رپورٹ میں آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ 70 فیصد عالمی معیشتیں گراوٹ کا شکار ہیں۔
آئی ایم ایف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی معیشت کی شرح نمو 2024 تک دوبارہ نیچے آجائے گی۔ چین کے علاوہ تمام نام نہاد ابھرتی معیشتیں بھی بحران کی زد میں ہیں۔ موجودہ حالات میں ان معیشتوں کی آمدنی میں ہونیوالے حقیقی نقصان ایشیا میں جی ڈی پی کے 8 فیصد کے برابر ہے جب کہ باقی عالمی جنوب میں نقصان کی یہ شرح جی ڈی پی کا 4/6 فیصد تک دیکھا گیا ہے۔
ترکی جسے معاشی پالیسیوں کو ترقی پذیر ملک کے لیے چند سال قبل ایک رول ماڈل کے طور پر تصور کیا جاتا تھا، اب ترکی کی کرنسی لیرا پچھلے ایک سال میں 78 فیصد قدر کھو چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہاں مہنگائی کا طوفان امڈ آیا ہے۔ مہنگائی کی شرح میں 20 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ عالمی عدم مساوات کی رپورٹ (WIR) سال 2021 کیمطابق دنیا گزشتہ چالیس سالہ عرصے میں اس وقت بدترین نابرابری کا شکار ہے۔
دنیا کے محض دس فیصد افراد کے پاس دنیا کی 80 فیصد تک دولت ہے۔ ان امیر افراد میں سے محض ایک فیصد ایسے ہیں جو دنیا کی 45 فیصد دولت پر حاکمیت رکھتے ہیں، جب کہ تین ارب انسانوں کے پاس سرے سے کوئی جمع پونجی موجود ہی نہیں ہے۔ پچھلے سال امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے نے رپورٹ شایع کی کہ امریکا میں 2003 اور 2016 کے درمیان 26 دوا ساز کمپنیوں نے 33 ارب ڈالر کے جرمانے ادا کیے۔
امریکی حکام نے یہ جرمانے رشوت خوری، جان بوجھ کر خراب ادویات فارمیسی کو مہیا کرنے، غیر قانونی استعمال کے لیے ادویات فراہم کرنے اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کی وجہ سے لگائے تھے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل 2016 میں یو کے ایڈ کی معاونت سے دوا سازی کے شعبے میں کرپشن پر ایک رپورٹ پیش کی جس کیمطابق صرف امریکا میں ہر سال دوا سازی کی صنعت ڈاکٹروں کے ذریعے اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے 42 ارب ڈالر خرچ کرتی ہے۔ یعنی فی ڈاکٹر 61 ہزار ڈالر۔
عالمی ادارہ صحت نے 2010 میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ نظام صحت میں نااہلی کے دس بڑے ماخذوں میں سے تین کا تعلق ادویات سے ہے جب کہ کرپشن اس نااہلی کا پہلا ماخذ ہے۔ ایک جانب عوام بھوک، افلاس اور لاعلاجی کا شکار ہیں تو دوسری جانب اسلحہ پیدا کرنیوالی مغربی کمپنیوں نے اسلحہ کی پیداوار میں بھرمار کردیا ہے اور اب اس کی کھپت کے لیے میدان جنگ تخلیق کیے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب عالمی مالیاتی اداروں نے پسماندہ ملکوں کو قرض تلے دبائے رکھا ہوا ہے اور نت نئے احکامات جاری کرکے ان سے منوایا جا رہا ہے۔ بلکہ اب وہ پسماندہ ملکوں کے اندرون ملک معیشتوں کو اپنی من مانی کے طور پر چلا رہے ہیں۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کے دباؤ پر پارلیمنٹ سے اپنے مطالبات منوا رہا ہے۔
شوکت ترین کیمطابق عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں اور مختلف درآمدی اشیا کی لاگت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ جس کے لیے شرح سود میں اضافہ نہ صرف غلط بلکہ خطرناک ہے جوکہ کاروباری لاگت میں اضافے اور معاشی سرگرمیوں میں کمی کا باعث بنے گا۔ مگر گورنر مرکزی بینک کا اصرار ہے کہ یہ مہنگائی اور افراط زر معاشی بڑھوتری کی وجہ سے ہے جس کو قابو کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ ناگزیر ہے۔
اسی طرح پاکستان کی کرنسی اور ڈالر کی شرح تبادلہ کو کھلے بازار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ڈالر آسمان کو چھو رہا ہے۔ غیر یقینی کیفیت اور افغانستان کی ریاست کو یہاں سے چلانے کی ضد کے لیے درکار ڈالروں کی وجہ سے ڈالر کی ملک میں کمی نے روپے کو بے قدر کردیا ہے۔
مالیاتی اداروں کے سربراہ اپنے حاضر سروس ملازم لگواتے ہیں بلکہ اس لوٹ مار کو بڑھانے کے لیے قانونی و آئینی ڈھانچے میں بھی جبر کے ذریعے تبدیلیاں کرواتے ہیں جس کے نتیجے میں حالیہ عرصے میں ہمیں نظر آتا ہے کہ کس طرح مالیاتی اداروں کے بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے کئی قوانین اور بل اسمبلی سے پاس کروائے گئے ہیں۔ ان سب اقدامات کو قابل عمل بنانے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکا کر اس ملک کے مضبوط اداروں کے ذریعے وہ قوانین منظور کروائے گئے جوکہ یہاں کے سیاسی رہنماؤں اور سرمایہ داروں کی نااہلی کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ کیمطابق 18 فروری 2022 کو ختم ہونیوالے ہفتے کے دوران مہنگائی میں 0.22 فیصد اضافہ ہوا۔ جب کہ سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح میں اضافہ 18.09 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ سب سے زیادہ مہنگائی محنت کش طبقے کے لیے 19.40 فیصد ہوگئی۔ اگر حکومت بے بس ہے اور عوام کے لیے کچھ نہیں کرسکتی ہے تو کم ازکم آٹا، دال، چاول، دودھ، چینی، گوشت، انڈا، تیل، گھی، سبزی کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی کرکے سبسڈیز کے ذریعے عوام کو ایک حد تک مہنگائی کے جن سے بچائے۔ ان انقلابی اقدامات کے بغیر کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔
ہم نے مضمون کی ابتدا میں اس زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل نظام یا سماج تشکیل دینے کی ضرورت کی بات کی ہے۔ وہ ایسے کہ عوام خود اپنے طور پر فنڈنگ کرکے کمیون تشکیل دیں۔ مل کر پیداوار کریں اور مل کر کھائیں۔ ایک کمیٹی بنا کر اس کے حوالے کریں تو اجتماعی کچن اور دھوبی گھاٹ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ یہ عمل ہم دنیا بھر میں جہاں جہاں کمیون نظام قائم ہے ان کے تجربوں اور طریقہ کار سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔