ہم امن کی صبح لائیں گے
ہم امن کی اس صبح کو ضرور پائیں گے جو ہماری کٹھیائوں میں خوشحالی اور علم کے دیپ جلائے گی
امن کا خواب سجائے اور روشن خیال سماج بنانے کی فکر میں جتے ہوئے ترقی پسند خیالات کے افراد کی ہمیشہ نظریاتی کوشش رہی کہ وہ انصاف پر مبنی سماج قائم کریں اور انسانی استحصال کی تمام اشکال کو دنیا سے نکالا دے کر امن شانت اور معاشی خوشحالی سے مزین معاشرے کی تشکیل کریں ، ویسے بھی استحصال کرنے اور استحصال ہونے والوں کی یہ جنگ بقول کارل مارکس'' اس وقت تک جاری رہے گی جب تک دنیا کا آخری انسان زندہ ہے'' انسانی استحصال کی نئی شکلوں میں سب سے بڑی انسانی تباہی جدید ٹیکنالوجی کی آڑ میں سرمایہ دار دنیا اپنے مہلک ہتھیاروں سے مسلسل کیے جاری ہے جب کہ اپنے توسیع پسندانہ فوجی عزائم کو امن اور انسانی بقا کے نعرے میں لپیٹ کر دنیا کو صدیوں سے دھوکا دے رہی ہے۔
دوسری جانب دنیا کی اکثریتی آبادی سرمایہ دار دنیا کی خود ساختہ ترقی سے دو وقت کی روٹی بھی چین و سکون سے نہیں لے پائی ہے۔ دنیا کے محکوم افراد اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ '' سرمایہ دار'' دنیا کے امیر ترین ممالک ترقی کے دعوئوں کے باوجود بھی انسان کی تنگ دستی ، روزگار بہتر طبی سہولیات کی فراہمی آج تک نہیں فراہم کر پائے ہیں اور نہ ہی اپنے ملکوں کے علاوہ تیسری دنیا کے ممالک میں تعلیم کے وہ مواقع فراہم کر پائے ہیں جوکہ ہر انسان کے شعورکی بنیادی ضرورت ہے، بلکہ اسی سرمایہ دار طبقے نے منافع کمانے کی لالچ میں تعلیم کوکمانے کا وہ دھندا بنا رکھا ہے جس سے سماج میں امرا یا بدعنوان سرمائے کے پجاری ہی صرف تعلیم خرید سکتے ہیں جب کہ سماج کا محروم طبقہ جدید ترقی کے نام پر اعلیٰ تعلیمی کاروبار میں بے آسرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔
سرمایہ دارانہ توسیع پسندانہ عسکریت پسندانہ عزائم آج کی دنیا سے پہلے کی وہ گھبیرتا ہے جس کا حل طاقت کے ذریعے نکالنے کی مسلسل کوشش نے دنیا کی ایک تہائی آبادی کو دو وقت کی روٹی کے لیے محکوم و مجبور کرکے رکھ دیا ہے۔ آج کی سرمایہ دار دنیا امن اور انسانی حقوق کے راگ الاپتی تو نظر آتی ہے مگر عملا جدید ہتھیاروں کی دوڑ کے ساتھ قوت کے ذریعے توسیع پسندانہ عزائم کے لیے اپنی طاقت دکھا کر دوسرے کو زیر یا خوف زدہ رکھتی ہے ، جس کے نقصان کا براہ راست شکار عام فرد اور اس کے کنبے کی تنگ دستی ہوتا ہے۔
روس اور یوکرین کے مابین روسی قومیت کی آڑ میں بظاہر کشیدگی کو امریکا سمیت نیٹو امن اور حق خود مختاری قرار دے کر دراصل روس کے گرد اپنے توسیع پسندانہ فوجی عزائم پورے کرنے کی جستجو میں 2014 سے یوکرین کی خود مختاری کے نام پر دنیا میں روسی صدر پیوٹن کو ایک ایسا فرد ظاہر کر رہا ہے،جوگویا پوری دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہو،جب کہ روسی صدر پیوٹن کا یوکرین پر حملہ کرنے میں استدلال ہے کہ روس یوکرین میں روسی عوام کی حفاظت اور اپنے اردگرد امریکا اور نیٹو کے ان عزائم سے روس کو بچانا چاہتا ہے،کیونکہ امریکا اور مغربی ممالک پڑوسی ممالک کی مدد سے روس کو نقصان پہنچانا چاہتے،جس کے دفاع کا اختیار روس کو ہے۔
اسی سوچ کے تحت روسی افواج مسلسل یوکرین میں پیش قدمی کر رہی ہے،روس اور یوکرین کے تازہ تنازعے پر دنیا کی امن ہسند قوتیں مسلسل تشویش کا اظہار کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں،ترقی پسند اور روشن خیال سوچ ہمیشہ دنیا میں ہتھیاروں کی دوڑ اور جنگ کی قوتوں کے خلاف بر سر پیکار رہی ہے،ترقی پسندانہ نکتہ نظر کے پر امن نکتہ نظرکی عکاسی برسوں پہلے ساحر لدھیانوی نے کچھ یوں کی تھی کہ۔
بم گھروں پرگریں کہ سرحد پر
روح تعمیر ، زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھیں ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
اس لیے اے شریف انسانوں
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
روس اور یوکرین کے مابین جنگ کے مہیب سناٹوں پر دنیا کی 9 کمیونسٹ پارٹیوں کے فوری ردعمل میں حقیقی صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے امن پرستوں کو آگاہ کیا ہے کہ'' یوکرین کی صورتحال میں تبدیلیاں اجارہ دارسرمایہ داری (Monopoly Capitalism) کے ڈھانچے کے اندر ہو رہی ہیں۔ ان کا تعلق امریکا، نیٹو اور یورپی یونین کے ان منصوبوں اور خطے میں اس مداخلت سے ہے جو کہ مارکیٹوں، خام مال اورعلاقے کے ٹرانسپورٹ نیٹ ورک پر قبضے کے لیے سرمایہ دار روس کے ساتھ ان کے سخت مقابلے کے تناظر میں ہو رہی ہیں۔
آج سرمایہ دارانہ نظام کی عوام دشمن حقیقت سب پر آشکار ہوچکی ہے کہ سامراجی طاقتیں اپنے توسیع پسندانہ مفادات کو عوام سے چھپاتی ہیں اور اس کے لیے اپنے اپنے بہانے پیش کرتی ہیں جیسے کہ جمہوریت کا دفاع، ملک کا دفاع اور ''اپنے اتحادوں کو منتخب کرنے'' کا حق، یا اقوام متحدہ یا او۔ایس۔سی۔ای (OSCE) کے اصولوں کی تعمیل،جب کہ آج کی دنیا میں فاشزم کو جان بوجھ کرسرمایہ دارانہ نظام سے اس طرح الگ کر کے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ اسے جنم نہیں دیتا ہے اوراسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرتا،حالانکہ فاشزم کو مضبوط کرنے والی قوت ہی سرمایہ دارانہ نظام ہے۔
روس کے یوکرین پر تازہ حملے میں روسی فیڈریشن کے ابتدائی طور پر ڈونباس میں نام نہاد ''عوامی جمہوریہ'' کی ''آزادی'' کو تسلیم کرنے اور پھر روسی فوجی مداخلت کی طرف بڑھنے کا فیصلہ، جسے بظاہرروس کے اپنے دفاع، یوکرین کو غیر عسکری بنانے اور فاشزم کے خاتمے کے بہانوں کے تحت کیا گیا ہے وہ کسی طور بھی خطے کے عوام یا امن کے تحفظ کے لیے دکھائی نہیں دیتا بلکہ یوکرین کی سرزمین میں روسی اجارہ داریوں کے مفادات اور مغربی سرمایہ داری کو مضبوط کرنے کی عوام دشمن سازش ہے۔
آج دنیا قوم پرستی کے فاشسٹ انداز اور امریکا و نیٹو کی مفاداتی مداخلت یا کسی بھی ایک ایسے سامراجی ملک یاسامراجی اتحاد کا ساتھ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی جو سرمایہ دارانہ اجارہ داریوں کے مفادات کو پورا کرتا ہو۔ یوکرین پر روسی صدر پیوٹن کے اس حملے کے پیش نظر دنیا میں یہ خیال مکمل غلط ہے کہ یورپی یونین ''امن کی حامی'' ہوسکتی ہے تاہم، سچ یہ ہے کہ نیٹو اور یورپی یونین، کسی بھی سرمایہ دارانہ بین الاقوامی یونین کی طرح، گہرے رجعتی نوعیت کے شکاری، جارحیت پرست اتحاد ہیں جو کسی طور بھی محنت کشوں اور عوامی حقوق کے علمبردار نہیں بن سکتے، کیونکہ سرمایہ داری کی عوام دشمن پالیسیاں اور نام نہاد ترقی عوام کے وسائل پر قبضہ کرنے کی وہ سامراجی سوچ ہے،جس میں ان کی جانب سے بڑی سرمایہ داری ہتھیار اور فوج کی ترتیب اور دنیا کو مسلسل سامراجی جنگوں میں جھونکے رکھنا ہے، جس سے دنیا کے امن پسند و جمہوریت پسند عوام بخوبی واقف ہیں ، لہٰذا اس سرمایہ دارانہ مفادات اور توسیع پسندانہ عزائم کی جنگ میں امن پسندی اور جمہوریت پسندی کے دعویداروں کو کسی بھی فریق کا ساتھ نہیں دینا چاہیے وگرنہ فریق بننے کے گھنائونے خطرناک اثرات کمزور ممالک کی سماجی معاشی اور سیاسی بقا کے لیے مضر ہونگے۔
ہم جنگ کے بادلوں میں ہر اس صبح کا انتظام کرنے والوں کی صفوں کے امین ہیں جو سولی پر بھی منصور ہلاج بننے کو ترجیح دیتا ہے ، ہم امن کی اس صبح کو ضرور پائیں گے جو ہماری کٹھیائوں میں خوشحالی اور علم کے دیپ جلائے گی۔ بقول ساحرکہ
وہ صبح ہمیں سے آئے گی
جب دھرتی کروٹ بدلے گی ، جب قید سے قیدی چھوٹیں گے
جب پاپ گھروندے پھوٹیں گے ، جب ظلم کے بندھن ٹوٹیں گے
اس صبح کو ہم ہی لائیں گے ، وہ صبح ہمیں سے آئے گی۔
دوسری جانب دنیا کی اکثریتی آبادی سرمایہ دار دنیا کی خود ساختہ ترقی سے دو وقت کی روٹی بھی چین و سکون سے نہیں لے پائی ہے۔ دنیا کے محکوم افراد اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ '' سرمایہ دار'' دنیا کے امیر ترین ممالک ترقی کے دعوئوں کے باوجود بھی انسان کی تنگ دستی ، روزگار بہتر طبی سہولیات کی فراہمی آج تک نہیں فراہم کر پائے ہیں اور نہ ہی اپنے ملکوں کے علاوہ تیسری دنیا کے ممالک میں تعلیم کے وہ مواقع فراہم کر پائے ہیں جوکہ ہر انسان کے شعورکی بنیادی ضرورت ہے، بلکہ اسی سرمایہ دار طبقے نے منافع کمانے کی لالچ میں تعلیم کوکمانے کا وہ دھندا بنا رکھا ہے جس سے سماج میں امرا یا بدعنوان سرمائے کے پجاری ہی صرف تعلیم خرید سکتے ہیں جب کہ سماج کا محروم طبقہ جدید ترقی کے نام پر اعلیٰ تعلیمی کاروبار میں بے آسرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔
سرمایہ دارانہ توسیع پسندانہ عسکریت پسندانہ عزائم آج کی دنیا سے پہلے کی وہ گھبیرتا ہے جس کا حل طاقت کے ذریعے نکالنے کی مسلسل کوشش نے دنیا کی ایک تہائی آبادی کو دو وقت کی روٹی کے لیے محکوم و مجبور کرکے رکھ دیا ہے۔ آج کی سرمایہ دار دنیا امن اور انسانی حقوق کے راگ الاپتی تو نظر آتی ہے مگر عملا جدید ہتھیاروں کی دوڑ کے ساتھ قوت کے ذریعے توسیع پسندانہ عزائم کے لیے اپنی طاقت دکھا کر دوسرے کو زیر یا خوف زدہ رکھتی ہے ، جس کے نقصان کا براہ راست شکار عام فرد اور اس کے کنبے کی تنگ دستی ہوتا ہے۔
روس اور یوکرین کے مابین روسی قومیت کی آڑ میں بظاہر کشیدگی کو امریکا سمیت نیٹو امن اور حق خود مختاری قرار دے کر دراصل روس کے گرد اپنے توسیع پسندانہ فوجی عزائم پورے کرنے کی جستجو میں 2014 سے یوکرین کی خود مختاری کے نام پر دنیا میں روسی صدر پیوٹن کو ایک ایسا فرد ظاہر کر رہا ہے،جوگویا پوری دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہو،جب کہ روسی صدر پیوٹن کا یوکرین پر حملہ کرنے میں استدلال ہے کہ روس یوکرین میں روسی عوام کی حفاظت اور اپنے اردگرد امریکا اور نیٹو کے ان عزائم سے روس کو بچانا چاہتا ہے،کیونکہ امریکا اور مغربی ممالک پڑوسی ممالک کی مدد سے روس کو نقصان پہنچانا چاہتے،جس کے دفاع کا اختیار روس کو ہے۔
اسی سوچ کے تحت روسی افواج مسلسل یوکرین میں پیش قدمی کر رہی ہے،روس اور یوکرین کے تازہ تنازعے پر دنیا کی امن ہسند قوتیں مسلسل تشویش کا اظہار کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں،ترقی پسند اور روشن خیال سوچ ہمیشہ دنیا میں ہتھیاروں کی دوڑ اور جنگ کی قوتوں کے خلاف بر سر پیکار رہی ہے،ترقی پسندانہ نکتہ نظر کے پر امن نکتہ نظرکی عکاسی برسوں پہلے ساحر لدھیانوی نے کچھ یوں کی تھی کہ۔
بم گھروں پرگریں کہ سرحد پر
روح تعمیر ، زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھیں ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
اس لیے اے شریف انسانوں
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
روس اور یوکرین کے مابین جنگ کے مہیب سناٹوں پر دنیا کی 9 کمیونسٹ پارٹیوں کے فوری ردعمل میں حقیقی صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے امن پرستوں کو آگاہ کیا ہے کہ'' یوکرین کی صورتحال میں تبدیلیاں اجارہ دارسرمایہ داری (Monopoly Capitalism) کے ڈھانچے کے اندر ہو رہی ہیں۔ ان کا تعلق امریکا، نیٹو اور یورپی یونین کے ان منصوبوں اور خطے میں اس مداخلت سے ہے جو کہ مارکیٹوں، خام مال اورعلاقے کے ٹرانسپورٹ نیٹ ورک پر قبضے کے لیے سرمایہ دار روس کے ساتھ ان کے سخت مقابلے کے تناظر میں ہو رہی ہیں۔
آج سرمایہ دارانہ نظام کی عوام دشمن حقیقت سب پر آشکار ہوچکی ہے کہ سامراجی طاقتیں اپنے توسیع پسندانہ مفادات کو عوام سے چھپاتی ہیں اور اس کے لیے اپنے اپنے بہانے پیش کرتی ہیں جیسے کہ جمہوریت کا دفاع، ملک کا دفاع اور ''اپنے اتحادوں کو منتخب کرنے'' کا حق، یا اقوام متحدہ یا او۔ایس۔سی۔ای (OSCE) کے اصولوں کی تعمیل،جب کہ آج کی دنیا میں فاشزم کو جان بوجھ کرسرمایہ دارانہ نظام سے اس طرح الگ کر کے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ اسے جنم نہیں دیتا ہے اوراسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرتا،حالانکہ فاشزم کو مضبوط کرنے والی قوت ہی سرمایہ دارانہ نظام ہے۔
روس کے یوکرین پر تازہ حملے میں روسی فیڈریشن کے ابتدائی طور پر ڈونباس میں نام نہاد ''عوامی جمہوریہ'' کی ''آزادی'' کو تسلیم کرنے اور پھر روسی فوجی مداخلت کی طرف بڑھنے کا فیصلہ، جسے بظاہرروس کے اپنے دفاع، یوکرین کو غیر عسکری بنانے اور فاشزم کے خاتمے کے بہانوں کے تحت کیا گیا ہے وہ کسی طور بھی خطے کے عوام یا امن کے تحفظ کے لیے دکھائی نہیں دیتا بلکہ یوکرین کی سرزمین میں روسی اجارہ داریوں کے مفادات اور مغربی سرمایہ داری کو مضبوط کرنے کی عوام دشمن سازش ہے۔
آج دنیا قوم پرستی کے فاشسٹ انداز اور امریکا و نیٹو کی مفاداتی مداخلت یا کسی بھی ایک ایسے سامراجی ملک یاسامراجی اتحاد کا ساتھ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی جو سرمایہ دارانہ اجارہ داریوں کے مفادات کو پورا کرتا ہو۔ یوکرین پر روسی صدر پیوٹن کے اس حملے کے پیش نظر دنیا میں یہ خیال مکمل غلط ہے کہ یورپی یونین ''امن کی حامی'' ہوسکتی ہے تاہم، سچ یہ ہے کہ نیٹو اور یورپی یونین، کسی بھی سرمایہ دارانہ بین الاقوامی یونین کی طرح، گہرے رجعتی نوعیت کے شکاری، جارحیت پرست اتحاد ہیں جو کسی طور بھی محنت کشوں اور عوامی حقوق کے علمبردار نہیں بن سکتے، کیونکہ سرمایہ داری کی عوام دشمن پالیسیاں اور نام نہاد ترقی عوام کے وسائل پر قبضہ کرنے کی وہ سامراجی سوچ ہے،جس میں ان کی جانب سے بڑی سرمایہ داری ہتھیار اور فوج کی ترتیب اور دنیا کو مسلسل سامراجی جنگوں میں جھونکے رکھنا ہے، جس سے دنیا کے امن پسند و جمہوریت پسند عوام بخوبی واقف ہیں ، لہٰذا اس سرمایہ دارانہ مفادات اور توسیع پسندانہ عزائم کی جنگ میں امن پسندی اور جمہوریت پسندی کے دعویداروں کو کسی بھی فریق کا ساتھ نہیں دینا چاہیے وگرنہ فریق بننے کے گھنائونے خطرناک اثرات کمزور ممالک کی سماجی معاشی اور سیاسی بقا کے لیے مضر ہونگے۔
ہم جنگ کے بادلوں میں ہر اس صبح کا انتظام کرنے والوں کی صفوں کے امین ہیں جو سولی پر بھی منصور ہلاج بننے کو ترجیح دیتا ہے ، ہم امن کی اس صبح کو ضرور پائیں گے جو ہماری کٹھیائوں میں خوشحالی اور علم کے دیپ جلائے گی۔ بقول ساحرکہ
وہ صبح ہمیں سے آئے گی
جب دھرتی کروٹ بدلے گی ، جب قید سے قیدی چھوٹیں گے
جب پاپ گھروندے پھوٹیں گے ، جب ظلم کے بندھن ٹوٹیں گے
اس صبح کو ہم ہی لائیں گے ، وہ صبح ہمیں سے آئے گی۔