وزراء کے مفت مشورے
حکومتی وزرا حقائق کے برعکس بیانات دے کر عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے میں مصروف ہیں
موجودہ حکومت میں پہلی بار شبلی فراز کو وفاقی وزیر اطلاعات بنایا گیا تو سیاسی حلقوں اور خصوصاً صحافیوں کو ان سے بڑی توقعات وابستہ تھیں مگر جلد ہی ان کی وزارت تبدیل کرکے انھیں وزیر سائنس و ٹیکنالوجی بنا دیا گیا تھا جنھوں نے پٹرولیم کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے پرکہا ہے کہ پٹرول مہنگا ہے تو عوام پٹرول کا استعمال کم کردیں کیونکہ جب مشکل وقت آتا ہے تو زندگی پہلے جیسی نہیں گزارسکتے، حکومت کس کس چیز کو سبسڈائز کرے حکومت کی ترجیح تو خوراک ہے۔
وزیرکشمیر امور سمیت کے پی کے متعدد وزراء بھی ایسے ہی بیانات دے چکے ہیں کوئی کہتا ہے کہ ایک وقت کا کھانا کم کردیں ،کوئی چینی کم استعمال کرنے کا مشورہ دیتا ہے تو کوئی کہتا ہے ٹماٹر مہنگے ہیں تو دہی استعمال کی جائے۔
موجودہ حکومت میں شامل وزرا عوام کو ایسے مشورے دے رہے ہیں جیسے کسی غیر مسلم ملک کی ملکہ نے کہا تھا کہ روٹی نہیں مل رہی تو عوام ڈبل روٹی کھا لیا کریں۔ ہر کابینہ میں ہمیشہ ہی پرانے تجربے کار وزرا کے ساتھ نئے وزیر بھی شامل کیے جاتے رہے ہیں جو اپنی قابلیت سے ترقی کر جاتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جنھیں دوبارہ وزارت میں بھی شامل نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ اپنے بیانات سے اپنی حکومت کے لیے مسائل پیدا کردیتے ہیں جیسے موجودہ حکومت کے ایک وزیر نے پی آئی اے اور پائلٹوں کے لیے دنیا میں مسائل پیدا کیے اور پی آئی اے کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا، مگر ان کی وزارت تبدیل کی گئی نہ انھیں وزارت سے ہٹایا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے وزیر ریلوے غلام احمد بلورکو اتنا بااختیار بنا دیا تھا کہ انھوں نے آتے ہی محکمہ ریلوے کی تنزلی پر کام شروع کردیا تھا اور انھوں نے اپنے 5 سالوں میں پاکستان ریلوے واقعی اسسطح پر پہنچا دی تھی کہ متعدد ٹرینیں بند ہوگئی تھیں اور مسافروں نے ٹرینوں میں سفرکرنا ہی چھوڑ دیا تھا کیوں کہ ٹرینوں کے آنے جانے اور مقررہ منزلوں تک پہنچنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا تھا۔
محکمہ ریلوے اپنے اسٹیشنوں کے بجلی کے بل تک جمع نہیں کرا سکتا تھا تو وہ ٹرینوں کو ڈیزل کہاں سے فراہم کرتا۔ ریلوے انجن ڈیزل ختم ہونے اور انجن خراب ہو جانے سے مسافروں کو جنگلوں میں در بہ در کردیتے تھے مگر صدر آصف زرداری نے وزارت بدلنے کی بھی ہمت نہیں کی تھی کیونکہ اے این پی حکومتی حلیف تھی اور بلور صاحب کسی حالت میں وزارت ریلوے چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ پی پی حکومت نے ریلوے کا ادارہ کمزور کر دیا مگر بلور صاحب کی وزارت نہیں بدلی اور یہی حال پی ٹی آئی کے بعض وزیروں کی کارکردگی کا ہے ۔
وزیر سائنس شبلی فراز نے اپنی وزارت میں کوئی ایسا طریقہ ہی ایجاد کرا لیا ہوتا کہ گاڑیاں کم پٹرول میں چلتیں مگر حالت یہ ہے کہ اکثر لوگوں کی گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں پرانی ہو چکی ہیں جن کے چلنے میں پٹرول زیادہ خرچ ہوتا ہے اور مہنگے پٹرول کے باعث لوگ نئی گاڑیاں خریدنے کی مالی طاقت ہی نہیں رکھتے اور مہنگے پٹرول میں اپنی پرانی گاڑیاں استعمال کرکے سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
پٹرول، چینی یا خوراک نہیں ہے کہ لوگ چینی کا استعمال کم کردیں یا پٹرول خوراک نہیں ہے کہ وہ اپنے ایک وقت کا کھانا کم کرکے اپنے اخراجات کم کرلیں۔ پٹرول گاڑیوں میں استعمال ہوتا ہے لوگ پٹرول خود نہیں پیتے کہ خوراک کی طرح اس کا استعمال کم کرکے بچت کرسکیں۔ گاڑیوں میں بندہ ایک سفر کرے یا زیادہ لوگ سفر کریں گاڑیوں نے اپنے مطابق ہی پٹرول کھپانا ہے اور لوگوں نے اپنی مجبوری ہی میں سفر کرنا ہے اس لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ پٹرول آئے دن حکومت مہنگا کرتی ہے تو عوام اس کا استعمال کم کرسکیں۔
حکومتی وزرا حقائق کے برعکس بیانات دے کر عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے میں مصروف ہیں اور لوگ کوستے حکومت کو ہیں کہ اس نے کیسے کیسے لوگوں کو وزارتیں دے رکھی ہیں۔ کچھ وزیر جیسے چاہیں سیاسی بیانات دیں عوام پر فرق نہیں پڑتا مگر بعض وزرا کے حقائق کے برعکس بیانات عوام میں اشتعال کا موجب بن رہے ہیں۔ حکومت مہنگائی تو نہیں روک سکتی مگر وزراء کو تو غیر ضروری تقاریر اور بیانات سے روکا جاسکتا ہے جس پر حکومت فوری توجہ دے۔
وزیرکشمیر امور سمیت کے پی کے متعدد وزراء بھی ایسے ہی بیانات دے چکے ہیں کوئی کہتا ہے کہ ایک وقت کا کھانا کم کردیں ،کوئی چینی کم استعمال کرنے کا مشورہ دیتا ہے تو کوئی کہتا ہے ٹماٹر مہنگے ہیں تو دہی استعمال کی جائے۔
موجودہ حکومت میں شامل وزرا عوام کو ایسے مشورے دے رہے ہیں جیسے کسی غیر مسلم ملک کی ملکہ نے کہا تھا کہ روٹی نہیں مل رہی تو عوام ڈبل روٹی کھا لیا کریں۔ ہر کابینہ میں ہمیشہ ہی پرانے تجربے کار وزرا کے ساتھ نئے وزیر بھی شامل کیے جاتے رہے ہیں جو اپنی قابلیت سے ترقی کر جاتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جنھیں دوبارہ وزارت میں بھی شامل نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ اپنے بیانات سے اپنی حکومت کے لیے مسائل پیدا کردیتے ہیں جیسے موجودہ حکومت کے ایک وزیر نے پی آئی اے اور پائلٹوں کے لیے دنیا میں مسائل پیدا کیے اور پی آئی اے کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا، مگر ان کی وزارت تبدیل کی گئی نہ انھیں وزارت سے ہٹایا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے وزیر ریلوے غلام احمد بلورکو اتنا بااختیار بنا دیا تھا کہ انھوں نے آتے ہی محکمہ ریلوے کی تنزلی پر کام شروع کردیا تھا اور انھوں نے اپنے 5 سالوں میں پاکستان ریلوے واقعی اسسطح پر پہنچا دی تھی کہ متعدد ٹرینیں بند ہوگئی تھیں اور مسافروں نے ٹرینوں میں سفرکرنا ہی چھوڑ دیا تھا کیوں کہ ٹرینوں کے آنے جانے اور مقررہ منزلوں تک پہنچنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا تھا۔
محکمہ ریلوے اپنے اسٹیشنوں کے بجلی کے بل تک جمع نہیں کرا سکتا تھا تو وہ ٹرینوں کو ڈیزل کہاں سے فراہم کرتا۔ ریلوے انجن ڈیزل ختم ہونے اور انجن خراب ہو جانے سے مسافروں کو جنگلوں میں در بہ در کردیتے تھے مگر صدر آصف زرداری نے وزارت بدلنے کی بھی ہمت نہیں کی تھی کیونکہ اے این پی حکومتی حلیف تھی اور بلور صاحب کسی حالت میں وزارت ریلوے چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ پی پی حکومت نے ریلوے کا ادارہ کمزور کر دیا مگر بلور صاحب کی وزارت نہیں بدلی اور یہی حال پی ٹی آئی کے بعض وزیروں کی کارکردگی کا ہے ۔
وزیر سائنس شبلی فراز نے اپنی وزارت میں کوئی ایسا طریقہ ہی ایجاد کرا لیا ہوتا کہ گاڑیاں کم پٹرول میں چلتیں مگر حالت یہ ہے کہ اکثر لوگوں کی گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں پرانی ہو چکی ہیں جن کے چلنے میں پٹرول زیادہ خرچ ہوتا ہے اور مہنگے پٹرول کے باعث لوگ نئی گاڑیاں خریدنے کی مالی طاقت ہی نہیں رکھتے اور مہنگے پٹرول میں اپنی پرانی گاڑیاں استعمال کرکے سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
پٹرول، چینی یا خوراک نہیں ہے کہ لوگ چینی کا استعمال کم کردیں یا پٹرول خوراک نہیں ہے کہ وہ اپنے ایک وقت کا کھانا کم کرکے اپنے اخراجات کم کرلیں۔ پٹرول گاڑیوں میں استعمال ہوتا ہے لوگ پٹرول خود نہیں پیتے کہ خوراک کی طرح اس کا استعمال کم کرکے بچت کرسکیں۔ گاڑیوں میں بندہ ایک سفر کرے یا زیادہ لوگ سفر کریں گاڑیوں نے اپنے مطابق ہی پٹرول کھپانا ہے اور لوگوں نے اپنی مجبوری ہی میں سفر کرنا ہے اس لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ پٹرول آئے دن حکومت مہنگا کرتی ہے تو عوام اس کا استعمال کم کرسکیں۔
حکومتی وزرا حقائق کے برعکس بیانات دے کر عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے میں مصروف ہیں اور لوگ کوستے حکومت کو ہیں کہ اس نے کیسے کیسے لوگوں کو وزارتیں دے رکھی ہیں۔ کچھ وزیر جیسے چاہیں سیاسی بیانات دیں عوام پر فرق نہیں پڑتا مگر بعض وزرا کے حقائق کے برعکس بیانات عوام میں اشتعال کا موجب بن رہے ہیں۔ حکومت مہنگائی تو نہیں روک سکتی مگر وزراء کو تو غیر ضروری تقاریر اور بیانات سے روکا جاسکتا ہے جس پر حکومت فوری توجہ دے۔