ہمیں بولنے کی کتنی آزادی ہے
آزادی اظہار کے لیے قلمی اور عملی جدوجہد کرنے والے بہت ساری اہم شخصیات میں ڈاکٹر مہدی حسن کا نام سر فہرست ہے
مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے فرینڈز آف سندھو سولائزین کا پلیٹ فارم ہر سال ایک سیمینار کا اہتمام کرتا ہے تاکہ مختلف زبانیں بولنے والے ادیب ، شاعر اور دانشور یک زبان ہوکر حکومت کے سامنے اپنی مادری زبانوں کے نفاذ و ترویج کا مقدمہ پیش کرسکیں۔
اس دفعہ بھی اس پروگرام میں مختلف قومی زبانوں کے ادیب ، شاعر، صحافی اور ماہرین لسانیات شریک تھے ۔ اردو کے ایک معروف روزنامے کے ایڈیٹر ، ادیب و دانشور سعید خاور نے بھی انتہائی جذباتی انداز میں اپنی مادری زبان کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ ''ہمارے معاشرے میں اظہار رائے پر پابندی ہے اور ساٹھ سالہ زندگی میں ، میں نے شاید ساٹھ گھنٹے بھی ایسے نہ گزارے ہوں جو خوف اور ڈر سے آزاد ہوں '' تو پورے ہال کو سانپ سونگھ گیا۔ تمام چہروں پر یہ سوال دکھائی دیا کہ ہمارے ملک میں میڈیا سے جڑے کارکن ذہنی طور پر کتنے آزاد ہیں اور انھیں اظہار رائے کی کتنی آزادی ہے؟
آزادی اظہار کے لیے قلمی اور عملی جدوجہد کرنے والے بہت ساری اہم شخصیات میں ڈاکٹر مہدی حسن کا نام سر فہرست ہے جن کی آواز آزادی اظہار اور انسانی حقوق کی طویل جدوجہد کے بعد ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ ڈاکٹر مہدی حسن کی شخصیت اور اُن کی غیر جانب دارانہ تحریروں سے ماس کمیونی کیشن کے اساتذہ اور طالب علم لگ بھگ چھ دہائیوں سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد ابلاغ عامہ کے موضوع پر اردو میں کوئی ایسی کتاب موجود نہیں تھی جس سے نوواردان صحافت ، طالب علم اور اساتذہ رہنمائی حاصل کرسکتے ۔ شاید اسی کمی کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر مہدی حسن نے ''ابلاغ عام '' کے نام سے ایک بہت ہی مدلل کتاب تحریر کی جس کا پہلا ایڈیشن 1969میں اشاعت پذیر ہوا ۔ اب تک اس کتاب کے کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں جن میں وقت کے ساتھ اخبارات، ریڈیو اور پھر ٹی وی چینلز پر صحافت میں آنے والے تبدیلیوں ، قوانین ، اظہار رائے کی آزادی اور صحافت سے جڑے دیگر مسائل پر وہ ضرورت کے مطابق اضافہ بھی کرتے رہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن نے اپنی طویل عمر کے دوران مختلف یونی ورسٹیوں اور غیر سرکاری تنظیموں سے جڑے نوجوانوں میں نہ صرف علم و شعور کی دولت تقسیم کی بلکہ انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ''ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان'' کے چیئر پرسن کے طور پر بھی کچلے ہوئے طبقوں، اقلیتوں، کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کی بحالی کی جنگ لڑتے رہے ، وہ پاک بھارت دوستی کے لیے بھی کوشاں رہے اور دونوں ملکوں کے باہمی تضادات کو جنگ کے بجائے بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر بھی زور دیتے رہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن ہم سے اُس وقت جدا ہوئے جب آزادی اظہار کا گلہ دبانے کے لیے ملک بھر کے صحافی 'پیکا' کے نام سے بنائے گئے قانون کو کالے قانون کا نام دے کر سراپا احتجاج ہیں اور پاکستانی صحافت پر ابتدائی دنوں سے لے کر آج تک لگائی جانے والے پابندیوں کی تاریخ پر بھی علمی، سماجی اور سیاسی حلقوں میں بحث جاری ہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن اور ضمیر نیازی کی کتابوں کے ساتھ ابلاغ عامہ کے طالب علم اور صحافی اُن کتابوں اور مضامین کا بار بار حوالہ دے رہے ہیں جن میں پاکستان بننے کے بعد ذرایع ابلاغ کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے یا اُس پر پابندی لگانے کے لیے مختلف حکومتوں کی طرف سے غیر جمہوری اقدامات اٹھائے جانے یا صحافیوں کو عتاب کا نشانہ بنانے کی تاریخ درج ہے۔
ذرایع ابلاغ سے متعلق گزشتہ ادوار میں جتنی بھی کتابیں ہمارے سامنے آئیں اُن میں سے مذکورہ کتابوں اور چند ایک کتابچوں کے علاوہ کوئی ایسی کتاب موجود نہیں تھی جو موجودہ صدی کے شروع میں ہونے والے نجی ٹی وی چینلز اور اُس کے بعد سوشل میڈیا کے کردار کا احاطہ کرسکے۔
پروفیسر توصیف احمد خان اور عرفان عزیز نے اس کمی کو بھانپتے ہوئے اس موضوع پر ایک کتاب مرتب کرنے کا فیصلہ کیا اور کئی برسوں کی محنت کے بعد وہ اس کوشش میں اُس وقت کامیاب ہوئے جب '' پاکستان میں میڈیا کا بحران '' کے نام سے ایک کتاب چھپ کر ہمارے سامنے آئی، حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی بک اسٹال پر پہنچنے سے قبل ہی اس کتاب کی سیکڑوں کاپیاں ہاتھوں ہاتھ فروخت بھی ہوگئیں۔
ڈاکٹر مہدی حسن کی طرح ڈاکٹر توصیف احمد خان کا تعلق بھی ابلاغ عامہ سے ہے اور وہ ملک کے ایک اخبار میں کالم تحریر کرنے کے علاوہ ''آزادی صحافت کی جدوجہد میں اخباری تنظیموں کا کردار'' اور ' پاکستان میں صحافت کی متبادل تحریک '' کے نام سے بھی دو کتابیں مرتب کرچکے ہیں۔ کراچی کے سماجی اور صحافتی حلقوں میں ڈاکٹر توصیف احمد خان ادب کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
انسانی حقوق، مزدوروں کی جدوجہد اور خواتین کی آزادی کے سلسلے میں بھی ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے اور بائیں بازو کی سیاست سے تعلق رکھنے والے کارکن بھی ان کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان اور عرفان عزیز کی مرتب کردہ تازہ کتاب پاکستان میں الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ روا رکھے گئے سرکاری سلوک کی داستان بھی بیان کرتی ہے اور سوشل میڈیا کے کردار پر بھی بحث کرتی ہے۔
اس کتاب میں پچھلے بیس سال کے دوران الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی کارکردگی پر ہی بحث نہیں کی گئی بلکہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد صحافت کے شعبے سے وابستہ افراد کے ساتھ جو سلوک ہوا اُس کی تاریخ بھی درج ہے۔ ملک میں اخبارات، اخبارات کے مالکان اور کارکنوں کے ساتھ پیش آنیوالے تاریخی واقعات بھی اس کتاب میں درج ہیں اور اس میں رائے عامہ کا راستہ روکنے کے لیے مختلف ادوار میں بنائے گئے قوانین کا بھی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔
''پاکستان میں میڈیا کا بحران ، نامی اس کتاب کے مطالعے سے صحافت کے طالب علم کو پتا چلتا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد گیارہ اگست 1947کو کراچی کی آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے جن خیالات کا اظہار کیا تھا ، انھیں اخبارات میں چھپنے سے روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔
ایوب خان نے اقتدار پر قبضے کے بعد آئین کو منسوخ کیا ، سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی اور اخبارات پر بھی سنسر شپ عائد کر دی تھی جو 1971 تک قائم رہی۔ نہ صرف 1972میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے دوران اخبارات پر پری سنسر شپ عائد رہی بلکہ 1979 میں ضیا ء الحق نے بھی اخبارات پر مکمل سنسر شپ عائدکر دی تھی۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان لگ بھگ آدھی صدی سے ابلاغ عامہ کے شعبے میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔
'' پاکستان میں میڈیا کا بحران '' نامی کتاب سے صحافت کے طالب علم ہی نہیں بلکہ ایسے تمام قارئین بھی استفادہ کرسکتے ہیں جنھیں غیر جانب دارانہ تاریخی حقائق سے دل چسپی رہتی ہے۔ مادری زبانوں کے سیمینار میں شامل اُن افراد کو بھی یہ کتاب پڑھنے کے بعد پتا چل جائے کہ سعید خاور جیسے کہنہ مشق صحافی نے اپنی تقریر کے دوران کسی انجانے خوف کا ذکر کیوں کیا تھا۔