ڈیرہ اور کلب
دُنیا میں مہنگائی ہر جگہ پائی جاتی ہے جس کی ایک مثال میں جمخانہ کلب ہی سے دونگا
ISLAMABAD:
ڈیرہ دیہات کے مرکزی علاقے میں وہ مقام ہوتا ہے جس میں وہاں کے لوگ مل بیٹھ کرگپ لگاتے ، کھاتے پیتے، کوئی کھیل کھیلتے ، دل بہلاتے اور فالتو وقت گزارتے ہیں۔ اسی طرح اب بڑے شہروں کے مرکزی علاقوں میں ڈیروں کی جگہ کلبوں نے لے لی ہے۔ اب ان Clubs میں ماڈرن سہولیات بھی پائی جاتی ہیں۔
جمخانہ میں مہمان ٹھہرانے کے لیے پہلے صرف 9 کمروں کا گیسٹ روم ہوتا تھا اب وہاںآمنے سامنے مہمان ٹھہرانے کے لیے 89 کمروں کے دوگیسٹ رومز ہیں۔ سوئمنگ پول کے سامنے بنکر ہال ہے۔ اب کلب میں باربی کیو ٹیرس ہے جب کہ مین بلڈنگ میں دو چھوٹے ہال Hall Jasmin اور Rose Hall ہیں۔ ایک بڑے گیسٹ روم کی بالائی منزل پر سگار روم بنایا گیا ہے۔
مذکورہ بالا کلب کی مین بلڈنگ کی تفصیل تھی۔ کلب کی جمنیزیم جس کو ہیلتھ کلب بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تین منزلہ عمارت ہے اور اس کی Basement بھی ہے یہ عمارت ممبرز کو جوان اور صحت مند رکھنے کا کام کرتی ہے۔ اس کے کمروںمیںبیشمار آلات اور وسیع کورٹ ہیں جب کہ سکوائش کے چار کورٹ ہیں ۔ یہ وہ Games ہیں جس پر کئی دہائیوںتک پاکستان کی اجارہ داری رہی ہے۔ کلب کا Holes 18 کا گولف کورس فجر سے غروب ِ آفتاب تک آباد رہتا ہے جہاں متعدد بار انڈین کھلاڑیوں کو مدعو کیا گیا اور وہ کئی ہفتے یہاں کے گیسٹ رومز میں قیام کرتے اور میچ کھیلتے ہیں۔
جب بھی کوئی شخص کلب کی ممبرشپ کے لیے آتا ہے تو اس کے ہمراہ تجویز کنندہ اور تائید کنندہ ہوتے ہیں۔ آج سے انتیس سال قبل میرا نام ڈاکٹر ظفر الطاف نے تجویز کیا اور اس کے بعد جب کمیٹی کے رُوبُرو بلا کر سوال کیے گئے تو پہلا سوال تھا کہ آپ کا نام ڈاکٹر ظفر الطاف نے تجویز کیا ہے آپ کی اُن سے آخری ملاقات کب ہوئی؟ میں نے جواب دیا کہ آج صبج گیارہ بجے انھی کے کمرے میں چائے پی تھی اور اس ملاقات کو چند گھنٹے گزرے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نہ صرف کرکٹ کے کھلاڑی رہے بلکہ سرکاری افسر ہونے کے علاوہ کرکٹ کی اعلیٰ سطح پر کام کرتے رہے۔
ڈاکٹر ظفر الطاف جب مرکزی وزیر بنے تو کسی مخالف نے جنرل ضیاء الحق کے پاس اُنکی شکایت کردی اور مخالفت کا کھیل کھیلا جس پر ضیاء الحق نے فوری طور پر ڈاکٹر ظفر الطاف کو اُس پوسٹ سے ہٹا دیا اور اُن کے خلاف کارروائی کا بھی فیصلہ کیا۔ یہ معلوم ہونے پر دو تین اصحاب ضیاء الحق سے ملے اور انھیں بتایا کہ ڈاکٹر ظفر الطاف صاحب تو نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ دیانت اور قابلیت میں بھی اُن کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ضیاء الحق اپنی بات پر قائم رہا اور اُس نے ڈاکٹر ظفر الطاف کو سسپنڈ کر دیا۔
جو لوگ ڈاکٹر ظفر الطاف صاحب کو اچھی طرح جانتے تھے انھوں نے ایک بار پھر ضیاء الحق کے پاس جا کر ڈاکٹر ظفر الطاف کی حمایت کی اور جنرل ضیاء الحق سے کہا کہ آپ ڈاکٹر ظفر الطاف صاحب کے ساتھ دس منٹ کی ملاقات کر کے صحیح صورت حال سے آگاہ ہو جائیںکیونکہ جن مخالفین نے ڈاکٹر ظفر الطاف کے خلاف باتیں کی ہیں، وہ بالکل اس قابل نہیں ہیں کہ ان کو سن کر فیصلہ کیا جائے۔
بڑی مشکل کے بعد ضیاء الحق راضی ہوا کہ وہ صرف دس منٹ کے لیے ڈاکٹر ظفر الطاف کو بلا کر اس کے خلاف جو الزام ہے اُس کی تصدیق کریگا۔ جب ضیاء الحق نے ڈاکٹر ظفر الطاف کو بلا کر پوچھ گچھ شروع کی تو یہ دس منٹ ایک گھنٹے تک طویل ہو گئے اور ضیاء الحق کو یقین ہو گیا کہ ڈاکٹر ظفر الطاف کے مخالفین نے اُن سے کوئی بدلہ لینے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ ایک گھنٹے کی ملاقات کے بعد جنرل ضیاء الحق اس حد تک ڈاکٹر ظفر الطاف کے مداح ہو گئے کہ انھوں نے اُسی وقت اُن کو فیڈرل سیکریٹری کی پوسٹ پر بُلا لیا۔
ڈاکٹر ظفر الطاف سے نہ صرف کرکٹ سے تعلق رکھنے والے اور اعلیٰ عہدوں پر فائزشخصیات کو ڈاکٹر ظفر الطاف کی قابلیت اور ایمانداری پر یقین تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی پریشانی کا وقت تھوڑی ہی دیر میں ختم ہو جائے گا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کی اعلیٰ تعلیم کا ہی ثمر تھا کہ انھوں نے بارہ کتابیں تصنیف کیں جو آج بھی ہر بڑی لائبریری میں موجود ہیں۔
جب میری ممبرشپ کے لیے جمخانہ کی کمیٹی نے مجھے انٹرویو کے لیے بلایا تو ہر ممبر کمیٹی کو پہلے ہی سے یقین تھا کہ ڈاکٹر ظفر الطاف ایک اعلیٰ درجے کا سول سرونٹ اور ماہر کرکٹر ہے ۔ ڈاکٹر ظفر الطاف اگرچہ مکمل صحتمند اور اسمارٹ تھے لیکن خدا کا کرنا ایسے ہوا کہ جب وہ گاڑی چلاتے ہوئے گھر کی طرف جا رہے تھے تو اُن پر ہارٹ اٹیک کا حملہ ہوا جو اتنا شدید تھاکہ وہ جانبر نہ ہو سکے۔
دُنیا میں مہنگائی ہر جگہ پائی جاتی ہے جس کی ایک مثال میں جمخانہ کلب ہی سے دونگا۔ جب میں اُنتیس سال قبل اس کلب کا ممبر بنا تو مجھ سے کلب نے پانچ ہزار روپے ممبرشپ فیس طلب کی جو میں نے ادا کی۔ اگر آج کلب کی ممبرشپ کے امیدواروں کو دیکھا جائے تو وہ لا تعداد ہیں اور اب ممبرشپ فیس سولہ لاکھ تین ہزار روپے ہے جب کہ جمخانہ کی ممبر شپ کے امیدواروں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں جن کی کئی کئی سال باری ہی نہیں آتی۔
یہ صرف جمخانہ کلب ہی کا مسئلہ نہیں ہے، پاکستان میں مہنگائی پر اپوزیشن پارٹیز کا اتنا شور ہے کہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ یہ مہنگائی کی بلا جو کورونا بیماری شروع ہونے پر آئی کب ہماری جان چھوڑے گی۔ بات چلی تھی ڈیرے سے اور پہنچی جمخانہ کلب تک۔ اور اب تو نہ صرف سول سوسائٹی میںمتعدد کلب قائم ہیں بلکہ آرمی کے بھی کئی کلب ہر بڑے شہر میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کو یاد کروں تو ایک شعر کی یاد آتی ہے:
دے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستی ہیں
ڈیرہ دیہات کے مرکزی علاقے میں وہ مقام ہوتا ہے جس میں وہاں کے لوگ مل بیٹھ کرگپ لگاتے ، کھاتے پیتے، کوئی کھیل کھیلتے ، دل بہلاتے اور فالتو وقت گزارتے ہیں۔ اسی طرح اب بڑے شہروں کے مرکزی علاقوں میں ڈیروں کی جگہ کلبوں نے لے لی ہے۔ اب ان Clubs میں ماڈرن سہولیات بھی پائی جاتی ہیں۔
جمخانہ میں مہمان ٹھہرانے کے لیے پہلے صرف 9 کمروں کا گیسٹ روم ہوتا تھا اب وہاںآمنے سامنے مہمان ٹھہرانے کے لیے 89 کمروں کے دوگیسٹ رومز ہیں۔ سوئمنگ پول کے سامنے بنکر ہال ہے۔ اب کلب میں باربی کیو ٹیرس ہے جب کہ مین بلڈنگ میں دو چھوٹے ہال Hall Jasmin اور Rose Hall ہیں۔ ایک بڑے گیسٹ روم کی بالائی منزل پر سگار روم بنایا گیا ہے۔
مذکورہ بالا کلب کی مین بلڈنگ کی تفصیل تھی۔ کلب کی جمنیزیم جس کو ہیلتھ کلب بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تین منزلہ عمارت ہے اور اس کی Basement بھی ہے یہ عمارت ممبرز کو جوان اور صحت مند رکھنے کا کام کرتی ہے۔ اس کے کمروںمیںبیشمار آلات اور وسیع کورٹ ہیں جب کہ سکوائش کے چار کورٹ ہیں ۔ یہ وہ Games ہیں جس پر کئی دہائیوںتک پاکستان کی اجارہ داری رہی ہے۔ کلب کا Holes 18 کا گولف کورس فجر سے غروب ِ آفتاب تک آباد رہتا ہے جہاں متعدد بار انڈین کھلاڑیوں کو مدعو کیا گیا اور وہ کئی ہفتے یہاں کے گیسٹ رومز میں قیام کرتے اور میچ کھیلتے ہیں۔
جب بھی کوئی شخص کلب کی ممبرشپ کے لیے آتا ہے تو اس کے ہمراہ تجویز کنندہ اور تائید کنندہ ہوتے ہیں۔ آج سے انتیس سال قبل میرا نام ڈاکٹر ظفر الطاف نے تجویز کیا اور اس کے بعد جب کمیٹی کے رُوبُرو بلا کر سوال کیے گئے تو پہلا سوال تھا کہ آپ کا نام ڈاکٹر ظفر الطاف نے تجویز کیا ہے آپ کی اُن سے آخری ملاقات کب ہوئی؟ میں نے جواب دیا کہ آج صبج گیارہ بجے انھی کے کمرے میں چائے پی تھی اور اس ملاقات کو چند گھنٹے گزرے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نہ صرف کرکٹ کے کھلاڑی رہے بلکہ سرکاری افسر ہونے کے علاوہ کرکٹ کی اعلیٰ سطح پر کام کرتے رہے۔
ڈاکٹر ظفر الطاف جب مرکزی وزیر بنے تو کسی مخالف نے جنرل ضیاء الحق کے پاس اُنکی شکایت کردی اور مخالفت کا کھیل کھیلا جس پر ضیاء الحق نے فوری طور پر ڈاکٹر ظفر الطاف کو اُس پوسٹ سے ہٹا دیا اور اُن کے خلاف کارروائی کا بھی فیصلہ کیا۔ یہ معلوم ہونے پر دو تین اصحاب ضیاء الحق سے ملے اور انھیں بتایا کہ ڈاکٹر ظفر الطاف صاحب تو نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ دیانت اور قابلیت میں بھی اُن کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ضیاء الحق اپنی بات پر قائم رہا اور اُس نے ڈاکٹر ظفر الطاف کو سسپنڈ کر دیا۔
جو لوگ ڈاکٹر ظفر الطاف صاحب کو اچھی طرح جانتے تھے انھوں نے ایک بار پھر ضیاء الحق کے پاس جا کر ڈاکٹر ظفر الطاف کی حمایت کی اور جنرل ضیاء الحق سے کہا کہ آپ ڈاکٹر ظفر الطاف صاحب کے ساتھ دس منٹ کی ملاقات کر کے صحیح صورت حال سے آگاہ ہو جائیںکیونکہ جن مخالفین نے ڈاکٹر ظفر الطاف کے خلاف باتیں کی ہیں، وہ بالکل اس قابل نہیں ہیں کہ ان کو سن کر فیصلہ کیا جائے۔
بڑی مشکل کے بعد ضیاء الحق راضی ہوا کہ وہ صرف دس منٹ کے لیے ڈاکٹر ظفر الطاف کو بلا کر اس کے خلاف جو الزام ہے اُس کی تصدیق کریگا۔ جب ضیاء الحق نے ڈاکٹر ظفر الطاف کو بلا کر پوچھ گچھ شروع کی تو یہ دس منٹ ایک گھنٹے تک طویل ہو گئے اور ضیاء الحق کو یقین ہو گیا کہ ڈاکٹر ظفر الطاف کے مخالفین نے اُن سے کوئی بدلہ لینے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ ایک گھنٹے کی ملاقات کے بعد جنرل ضیاء الحق اس حد تک ڈاکٹر ظفر الطاف کے مداح ہو گئے کہ انھوں نے اُسی وقت اُن کو فیڈرل سیکریٹری کی پوسٹ پر بُلا لیا۔
ڈاکٹر ظفر الطاف سے نہ صرف کرکٹ سے تعلق رکھنے والے اور اعلیٰ عہدوں پر فائزشخصیات کو ڈاکٹر ظفر الطاف کی قابلیت اور ایمانداری پر یقین تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی پریشانی کا وقت تھوڑی ہی دیر میں ختم ہو جائے گا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کی اعلیٰ تعلیم کا ہی ثمر تھا کہ انھوں نے بارہ کتابیں تصنیف کیں جو آج بھی ہر بڑی لائبریری میں موجود ہیں۔
جب میری ممبرشپ کے لیے جمخانہ کی کمیٹی نے مجھے انٹرویو کے لیے بلایا تو ہر ممبر کمیٹی کو پہلے ہی سے یقین تھا کہ ڈاکٹر ظفر الطاف ایک اعلیٰ درجے کا سول سرونٹ اور ماہر کرکٹر ہے ۔ ڈاکٹر ظفر الطاف اگرچہ مکمل صحتمند اور اسمارٹ تھے لیکن خدا کا کرنا ایسے ہوا کہ جب وہ گاڑی چلاتے ہوئے گھر کی طرف جا رہے تھے تو اُن پر ہارٹ اٹیک کا حملہ ہوا جو اتنا شدید تھاکہ وہ جانبر نہ ہو سکے۔
دُنیا میں مہنگائی ہر جگہ پائی جاتی ہے جس کی ایک مثال میں جمخانہ کلب ہی سے دونگا۔ جب میں اُنتیس سال قبل اس کلب کا ممبر بنا تو مجھ سے کلب نے پانچ ہزار روپے ممبرشپ فیس طلب کی جو میں نے ادا کی۔ اگر آج کلب کی ممبرشپ کے امیدواروں کو دیکھا جائے تو وہ لا تعداد ہیں اور اب ممبرشپ فیس سولہ لاکھ تین ہزار روپے ہے جب کہ جمخانہ کی ممبر شپ کے امیدواروں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں جن کی کئی کئی سال باری ہی نہیں آتی۔
یہ صرف جمخانہ کلب ہی کا مسئلہ نہیں ہے، پاکستان میں مہنگائی پر اپوزیشن پارٹیز کا اتنا شور ہے کہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ یہ مہنگائی کی بلا جو کورونا بیماری شروع ہونے پر آئی کب ہماری جان چھوڑے گی۔ بات چلی تھی ڈیرے سے اور پہنچی جمخانہ کلب تک۔ اور اب تو نہ صرف سول سوسائٹی میںمتعدد کلب قائم ہیں بلکہ آرمی کے بھی کئی کلب ہر بڑے شہر میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کو یاد کروں تو ایک شعر کی یاد آتی ہے:
دے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستی ہیں