یوکرین کا بحران اور ہماری خارجہ پالیسی
ہماری جو ہندوستان کے ساتھ ستر سال پر مبنی ایک کشمیر کے پس منظر میں پالیسی ہے، اسے دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے
RAWALPINDI:
دوسری جنگ عظیم کے بعد جو بہت بڑا بحران دنیا کی نگاہ میں ابھر رہا ہے وہ ہے روس کا آزاد خودمختار یوکرین پر حملہ۔ ایک ایسا خطرہ جو دنیا میں ہر جگہ، ہر سمت جو سرحدی تنازعات ہیں، ان کو ہوا دے گا۔
ایک ایسا دعویٰ چین کا تائیوان پر بھی ہے، کشمیر سے لے کر ایسی کئی تنازعات ہیں ، ان زخموں پر جیسے کوئی نمک چھڑک دے گا، جو ریاست بہتر عسکری طاقت رکھتی ہے اس کو اس بحران سے اپنے تاریخی دعوؤں کو طاقت کے ذریعے حقیقی روپ دینے میں آسانی ہوگی۔ ایسا کرنے سے جو ثالثی کرنے کے حوالے سے صدیوں سے جو میکنزم بنایا گیا ہے ، جو اقوام متحدہ ہے یا معاہدے ہیں ، جس طرح ہمارا ہندوستان کے ساتھ شملہ معاہدہ ہے یا تھا یا جس طرح سے اقوام متحدہ کی کشمیر کے حوالے سے قرارداد بھی ان سب باتوں پر جیسے پانی پھر جائے گا اور یوں دنیا تیسری جنگ عظیم کی طرف بڑھ سکتی ہے۔
2014 میں ایسا کا م روس نے کریمیا جو یوکرین کا حصہ تھا ، اس پر قبضہ کیا۔ یہ وہ قبضہ ہے جس کو چین بھی قبول نہیں کرتا کیونکہ ایسا کرنے سے چین اپنی بین الاقوامی ذمے دار ریاست والی حیثیت کھو بیٹھے گا۔ یوکرین کے وہ علاقے جس کی سرحدیں روس سے لگتی ہیں وہاں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔ روس نے ان علاقوں کو بھی ایک طرح سے یوکرین سے تحفظ دیا ہوا ہے ، اگر روس نے یوکرین کو اپنے قبضے میں لے لیا تو خود اس سے ایک نئی طرح سے نہ صرف سرد جنگ شروع ہو جائے گی بلکہ ایک ایسی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے جو ایٹمی جنگ ہو۔
روس کو سے بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہونا پڑیگا، کئی طرح کی معاشی پابندیاں وغیرہ امریکا اور یورپی یونین لگائے گی تو خود یورپ کی گیس کی ضروریات روس پوری کرتا ہے۔ امریکا کے پاس بے تحاشا گیس ہے ، وہ یورپ کو وہ گیس ایل این جی کی شکل میں اس بحران کے زمانے میں مہیا کرسکتا ہے۔ خود اس سے چین کی معیشت بھی بیٹھ سکتی ہے اگر وہ روس کے ایسے قدم کی حمایت کریگا کیونکہ روس کی ایکسپورٹ سب سے زیادہ امریکا کو ہی ہوتی ہے۔ پوری دنیا کی معیشت جو گلوبلائزیشن میں بہت بڑھی اور پھیلی تھی وہ تھم سکتی ہے ، اس طرح سے بیروزگاری غربت وغیرہ دنیا میں بڑھے گی۔
ہم سرد جنگ میں امریکا کے ساتھی تھے۔ ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد لیاقت علی خان نے اس طرف کی اور جنرل ایوب نے سب لکیریں پار کر لیں۔ پشاور میں امریکا کے کھلے عام اڈے تھے جو روس کی جاسوسی کے لیے کام کرتے تھے پھر ہم نے افغان جہاد کے نام پر جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں بڑے ڈالر کمائے۔ یہ ڈالر پینتیس سال بعد سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں ضیاالحق کے انتہائی قریبی ساتھیوں کے نام پر پائے گئے جسے،ان میں ایک جہاد کا خاموش مجاہد مانا جاتا ہے۔
اس انکشاف سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ C-130 حادثے کے پیچھے کون تھا اور جو راولپنڈی کے اوجڑی اسحلہ ڈپومیں دھماکا ہوا تھا، اس دھماکے کو اور مشکوک بناتے ہیں۔ سوویت یونین کو کسی اور نے نہیں خود اس کے اندرونی بدحالی نے برباد کیا، وہ جنگی اعتبار سے تھا تو سپر پاور مگر معاشی اعتبار سے امریکا کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھا تو اس افغانی جہاد میں اس کی شکست نے بھی کچھ نہ کچھ کردار ادا کیا۔
آج کل ہم تذبذب کا شکار ہیں ہماری خارجہ پالیسی واضح نہیں ہے۔ سردجنگ کی طرف بڑھتی، اس دنیا میں ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد، ہندوستان کے پس منظر میں ہے۔ کل ہم جب امریکا کی ایک کلائنٹ اسٹیٹ تھے، اس نے ہمیں سردجنگ کے مقاصد کے لیے استعمال کیا بلکہ دو آمریتیں، ایک ایوب والی اور دوسری جنرل ضیاء الحق والی بھی ان امریکا کے مقاصد کے لیے تھی اور 1971ء میں شیخ مجیب کو اقتدار نہ دینا بھی ان کی ایک رضامندی تھی۔ اس سردجنگ میں ہندوستان سوویت یونین کے ساتھ تھا اور ہم پر وہ کاری ضرب لگانے میں کامیاب ہوگئے۔
آج جب ایک بہت بڑا بحران دنیا کے اسٹیج پر ہونے کو ہے ،کوئی بھی لیڈر اس وقت روس یاترا نہیں کرے گا۔ ہمارے عمران خان کو اپنی حکومت بچانے کے لیے زندگی اور موت کی جنگ سے گزرنا ہوگا۔ یہ غیر ذمے دار دورہ تھا، اس کے اثرات کچھ اس طرح بھی ہوسکتے ہیں کہ کہیں مغرب اور امریکا ہم پر بھی معاشی پابندیاں لگا دیں۔ یوں لگتا ہے ہماری طاقتور قوتیں بٹی ہوئی ہیں کہ کیا کیا جائے، چین اور روس والے بلاک میں جایا جائے یا امریکا والے بلاک میں، اگر ہم چین اور روس والے بلاک میں جاتے ہیں تو ان کے پاس نہ آئی ایم ایف جیسا یا ورلڈ بینک جیسا کوئی ادارہ ہے اور اگر یورپی یونین ، امریکا وغیرہ نے ہمارے اوپر پابندیاں لگا دیں تو ہم کہاں جائیں گے۔
دوسری طرف ہمارے دو بڑے دوست سعودی عرب اور یو اے ای جہاں سے تارکین وطن لگ بھگ کوئی سات ارب ڈالر سالانہ زرمبادلہ بھیجتے ہیں اور وہ اسرائیل اور ہندوستان کے ساتھ مل کر ایک امریکا حمایتی بلاک بنانے جا رہے ہیں ، ہمیں سعودی عرب یا دبئی سے جو زرمبادلہ ہمارے تارکین وطن کما کے بھیجتے ہیں، اس کو ٹھیس پہنچنے کے امکانات ہیں۔
امریکا، ایران سے تعلقات بہتر کرنے کے چکر میں ہے، اس پر جو پابندیاں ٹرمپ کے زمانے میں دوبارہ لگی تھیں جو اوباما کے زمانے میں ہٹائی گئی تھیں۔ اس طرح سے جو چین کی طرف تیزی ایران جا رہا ہے، اسے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے۔اگر ہم امریکا کے اثر ورسوخ سے نکلتے ہیں اور روس سے تعلقات بہتر کرتے ہیں تو خود اس سے طالبان کا اثر ورسوخ بھی پاکستان میں بڑھے گا۔ افغانستان کے طالبان جو ہمارے بیچ ڈیوائیڈر لائن والا بارڈر ہے اس کو مانتے ہی نہیں۔ ہماری سرحدوں پر، ہمارے جوانوں پر حملے ہوئے ہیں اور خود بلوچ انتہاپسند بھی طالبان کے ساتھ مل کر حملے کر رہے ہیں۔ اس وقت بھی ہندوستان کا افغانستان میں اثر ورسوخ ہے، یوں کہیے پورا افغانستان طالبان کی رٹ کے اندر نہیں۔ ہمیں اس وقت کسی بھی بلاک میں جانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ہماری جو ہندوستان کے ساتھ ستر سال پر مبنی ایک کشمیر کے پس منظر میں پالیسی ہے، اسے دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کے حوالے سے ہندوستان کے ساتھ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ یہ تضاد بھلے رہے بلکہ ہمارے معاشی حوالے سے تعلقات ہندوستان سے بہتر ہونے چاہئیں اور تجارت کو فروغ دیا جائے۔ ہماری خارجہ پالیسی میں تجارت اور ملک کی معیشت کو بہتر کرنے کے حوالے سے بنیادی تبدیلیاں کی جائیں اور اس پس منظر میں اتحادی بنانے اور اس بلاک کی طرف جھکنا چاہیے جہاں ہماری ایکسپورٹ زیادہ ہے۔
اس پورے پس منظر میں ایک بہت بڑی سیاسی ہلچل اس ملک کے اندر بھی ہو رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں عدم اعتماد ٹیبل ہونے کو ہے تو خود لانگ مارچ بھی حکومت کے خلاف شروع ہونے کو ہے، جو حکومت سوشل میڈیا کے خلاف قوانین لائی تھی، اس کے خلاف ہونے کو ہے، جو حکومت سوشل میڈیا کے خلاف قوانین لائی تھی اس کے خلاف تو خود اٹارنی جنرل بھی بولنے لگے ہیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک طرح سے ایف آئی اے کو اس تناظر میں بغیر وارنٹ کے گرفتاریاں کرنے سے روک دیا ہے۔
آگ ہے برابر دونوں طرف لگی ہوئی، ایک دنیا کے اندر جنگی جنون ہے، دوسری طرف ہمارے ملک کے اندر تبدیلی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جو بہت بڑا بحران دنیا کی نگاہ میں ابھر رہا ہے وہ ہے روس کا آزاد خودمختار یوکرین پر حملہ۔ ایک ایسا خطرہ جو دنیا میں ہر جگہ، ہر سمت جو سرحدی تنازعات ہیں، ان کو ہوا دے گا۔
ایک ایسا دعویٰ چین کا تائیوان پر بھی ہے، کشمیر سے لے کر ایسی کئی تنازعات ہیں ، ان زخموں پر جیسے کوئی نمک چھڑک دے گا، جو ریاست بہتر عسکری طاقت رکھتی ہے اس کو اس بحران سے اپنے تاریخی دعوؤں کو طاقت کے ذریعے حقیقی روپ دینے میں آسانی ہوگی۔ ایسا کرنے سے جو ثالثی کرنے کے حوالے سے صدیوں سے جو میکنزم بنایا گیا ہے ، جو اقوام متحدہ ہے یا معاہدے ہیں ، جس طرح ہمارا ہندوستان کے ساتھ شملہ معاہدہ ہے یا تھا یا جس طرح سے اقوام متحدہ کی کشمیر کے حوالے سے قرارداد بھی ان سب باتوں پر جیسے پانی پھر جائے گا اور یوں دنیا تیسری جنگ عظیم کی طرف بڑھ سکتی ہے۔
2014 میں ایسا کا م روس نے کریمیا جو یوکرین کا حصہ تھا ، اس پر قبضہ کیا۔ یہ وہ قبضہ ہے جس کو چین بھی قبول نہیں کرتا کیونکہ ایسا کرنے سے چین اپنی بین الاقوامی ذمے دار ریاست والی حیثیت کھو بیٹھے گا۔ یوکرین کے وہ علاقے جس کی سرحدیں روس سے لگتی ہیں وہاں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔ روس نے ان علاقوں کو بھی ایک طرح سے یوکرین سے تحفظ دیا ہوا ہے ، اگر روس نے یوکرین کو اپنے قبضے میں لے لیا تو خود اس سے ایک نئی طرح سے نہ صرف سرد جنگ شروع ہو جائے گی بلکہ ایک ایسی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے جو ایٹمی جنگ ہو۔
روس کو سے بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہونا پڑیگا، کئی طرح کی معاشی پابندیاں وغیرہ امریکا اور یورپی یونین لگائے گی تو خود یورپ کی گیس کی ضروریات روس پوری کرتا ہے۔ امریکا کے پاس بے تحاشا گیس ہے ، وہ یورپ کو وہ گیس ایل این جی کی شکل میں اس بحران کے زمانے میں مہیا کرسکتا ہے۔ خود اس سے چین کی معیشت بھی بیٹھ سکتی ہے اگر وہ روس کے ایسے قدم کی حمایت کریگا کیونکہ روس کی ایکسپورٹ سب سے زیادہ امریکا کو ہی ہوتی ہے۔ پوری دنیا کی معیشت جو گلوبلائزیشن میں بہت بڑھی اور پھیلی تھی وہ تھم سکتی ہے ، اس طرح سے بیروزگاری غربت وغیرہ دنیا میں بڑھے گی۔
ہم سرد جنگ میں امریکا کے ساتھی تھے۔ ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد لیاقت علی خان نے اس طرف کی اور جنرل ایوب نے سب لکیریں پار کر لیں۔ پشاور میں امریکا کے کھلے عام اڈے تھے جو روس کی جاسوسی کے لیے کام کرتے تھے پھر ہم نے افغان جہاد کے نام پر جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں بڑے ڈالر کمائے۔ یہ ڈالر پینتیس سال بعد سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں ضیاالحق کے انتہائی قریبی ساتھیوں کے نام پر پائے گئے جسے،ان میں ایک جہاد کا خاموش مجاہد مانا جاتا ہے۔
اس انکشاف سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ C-130 حادثے کے پیچھے کون تھا اور جو راولپنڈی کے اوجڑی اسحلہ ڈپومیں دھماکا ہوا تھا، اس دھماکے کو اور مشکوک بناتے ہیں۔ سوویت یونین کو کسی اور نے نہیں خود اس کے اندرونی بدحالی نے برباد کیا، وہ جنگی اعتبار سے تھا تو سپر پاور مگر معاشی اعتبار سے امریکا کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھا تو اس افغانی جہاد میں اس کی شکست نے بھی کچھ نہ کچھ کردار ادا کیا۔
آج کل ہم تذبذب کا شکار ہیں ہماری خارجہ پالیسی واضح نہیں ہے۔ سردجنگ کی طرف بڑھتی، اس دنیا میں ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد، ہندوستان کے پس منظر میں ہے۔ کل ہم جب امریکا کی ایک کلائنٹ اسٹیٹ تھے، اس نے ہمیں سردجنگ کے مقاصد کے لیے استعمال کیا بلکہ دو آمریتیں، ایک ایوب والی اور دوسری جنرل ضیاء الحق والی بھی ان امریکا کے مقاصد کے لیے تھی اور 1971ء میں شیخ مجیب کو اقتدار نہ دینا بھی ان کی ایک رضامندی تھی۔ اس سردجنگ میں ہندوستان سوویت یونین کے ساتھ تھا اور ہم پر وہ کاری ضرب لگانے میں کامیاب ہوگئے۔
آج جب ایک بہت بڑا بحران دنیا کے اسٹیج پر ہونے کو ہے ،کوئی بھی لیڈر اس وقت روس یاترا نہیں کرے گا۔ ہمارے عمران خان کو اپنی حکومت بچانے کے لیے زندگی اور موت کی جنگ سے گزرنا ہوگا۔ یہ غیر ذمے دار دورہ تھا، اس کے اثرات کچھ اس طرح بھی ہوسکتے ہیں کہ کہیں مغرب اور امریکا ہم پر بھی معاشی پابندیاں لگا دیں۔ یوں لگتا ہے ہماری طاقتور قوتیں بٹی ہوئی ہیں کہ کیا کیا جائے، چین اور روس والے بلاک میں جایا جائے یا امریکا والے بلاک میں، اگر ہم چین اور روس والے بلاک میں جاتے ہیں تو ان کے پاس نہ آئی ایم ایف جیسا یا ورلڈ بینک جیسا کوئی ادارہ ہے اور اگر یورپی یونین ، امریکا وغیرہ نے ہمارے اوپر پابندیاں لگا دیں تو ہم کہاں جائیں گے۔
دوسری طرف ہمارے دو بڑے دوست سعودی عرب اور یو اے ای جہاں سے تارکین وطن لگ بھگ کوئی سات ارب ڈالر سالانہ زرمبادلہ بھیجتے ہیں اور وہ اسرائیل اور ہندوستان کے ساتھ مل کر ایک امریکا حمایتی بلاک بنانے جا رہے ہیں ، ہمیں سعودی عرب یا دبئی سے جو زرمبادلہ ہمارے تارکین وطن کما کے بھیجتے ہیں، اس کو ٹھیس پہنچنے کے امکانات ہیں۔
امریکا، ایران سے تعلقات بہتر کرنے کے چکر میں ہے، اس پر جو پابندیاں ٹرمپ کے زمانے میں دوبارہ لگی تھیں جو اوباما کے زمانے میں ہٹائی گئی تھیں۔ اس طرح سے جو چین کی طرف تیزی ایران جا رہا ہے، اسے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے۔اگر ہم امریکا کے اثر ورسوخ سے نکلتے ہیں اور روس سے تعلقات بہتر کرتے ہیں تو خود اس سے طالبان کا اثر ورسوخ بھی پاکستان میں بڑھے گا۔ افغانستان کے طالبان جو ہمارے بیچ ڈیوائیڈر لائن والا بارڈر ہے اس کو مانتے ہی نہیں۔ ہماری سرحدوں پر، ہمارے جوانوں پر حملے ہوئے ہیں اور خود بلوچ انتہاپسند بھی طالبان کے ساتھ مل کر حملے کر رہے ہیں۔ اس وقت بھی ہندوستان کا افغانستان میں اثر ورسوخ ہے، یوں کہیے پورا افغانستان طالبان کی رٹ کے اندر نہیں۔ ہمیں اس وقت کسی بھی بلاک میں جانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ہماری جو ہندوستان کے ساتھ ستر سال پر مبنی ایک کشمیر کے پس منظر میں پالیسی ہے، اسے دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کے حوالے سے ہندوستان کے ساتھ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ یہ تضاد بھلے رہے بلکہ ہمارے معاشی حوالے سے تعلقات ہندوستان سے بہتر ہونے چاہئیں اور تجارت کو فروغ دیا جائے۔ ہماری خارجہ پالیسی میں تجارت اور ملک کی معیشت کو بہتر کرنے کے حوالے سے بنیادی تبدیلیاں کی جائیں اور اس پس منظر میں اتحادی بنانے اور اس بلاک کی طرف جھکنا چاہیے جہاں ہماری ایکسپورٹ زیادہ ہے۔
اس پورے پس منظر میں ایک بہت بڑی سیاسی ہلچل اس ملک کے اندر بھی ہو رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں عدم اعتماد ٹیبل ہونے کو ہے تو خود لانگ مارچ بھی حکومت کے خلاف شروع ہونے کو ہے، جو حکومت سوشل میڈیا کے خلاف قوانین لائی تھی، اس کے خلاف ہونے کو ہے، جو حکومت سوشل میڈیا کے خلاف قوانین لائی تھی اس کے خلاف تو خود اٹارنی جنرل بھی بولنے لگے ہیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک طرح سے ایف آئی اے کو اس تناظر میں بغیر وارنٹ کے گرفتاریاں کرنے سے روک دیا ہے۔
آگ ہے برابر دونوں طرف لگی ہوئی، ایک دنیا کے اندر جنگی جنون ہے، دوسری طرف ہمارے ملک کے اندر تبدیلی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔