
عالمی خبر رساں ادارے ''اے ایف پی'' نے کیف میں صدارتی دفتر کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ یوکرین اب روس کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوگیا تاہم یہ مذاکرات بیلاروس کی سرحد پر ہوں گے۔
ابتدائی طور پر یوکرین اور روس کے نمائندے کسی قسم کی پیشگی شرائط کے بغیر ملاقات کریں گے جس کے بعد اعلیٰ سطح کی ملاقات بھی متوقع ہے۔ یہ مذاکرات مشترکہ دوست ممالک کی کاوشوں سے ہو رہی ہے۔
یہ خبر پڑھیں : روسی فوجیں یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں داخل
قبل ازیں روسی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ اگر یوکرین کی فوج ہتھیار ڈال دے تو مذاکرات ہوسکتے ہیں جب کہ روسی صدر نے یوکرین سے بات چیت کے لیے ایک وفد بھی پڑوسی ملک بیلاروس بھیجا تھا۔
Ukraine has submitted its application against Russia to the ICJ. Russia must be held accountable for manipulating the notion of genocide to justify aggression. We request an urgent decision ordering Russia to cease military activity now and expect trials to start next week.
— Volodymyr Zelenskyy / Володимир Зеленський (@ZelenskyyUa) February 27, 2022
تاہم یوکرین کے صدر کا مؤقف تھا کہ امن کے لیے بات چیت ہونا چاہیئے لیکن مذاکرات کا مقام بیلاروس نہیں بلکہ کوئی اور ملک ہونا چاہیئے۔ انھوں نے استنبول کا نام بھی لیا تھا۔
بیلاروس میں 2014 میں یوکرین اور روس کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے جنھیں منسک معاہدہ کہا جاتا ہے تاہم یوکرین کا کہنا ہے کہ روس نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی۔
یہ خبر بھی پڑھیں : روسی افواج نے دارالحکومت کیف کا گھیراؤ کرلیا؛ وقفے وقفے سے دھماکوں کی گونج
گزشتہ روز ہی یوکرین نے عالمی عدالت انصاف پر زور دیا تھا کہ وہ روس کے یوکرین پر حملے کو فوری طور پر رکوائے اور اس حوالے سے یوکرین نے عالمی عدالت انصاف میں ریاستوں کے درمیان تنازعے کے حوالے سے روس کے خلاف مقدمہ بھی درج کرایا ہے۔
جنگ کے دوسرے روز ہی امریکا نے یوکرین کے صدر کو بحفاظت محفوظ مقام پر پہنچانے کی پیشکش کی تھی جسے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ مجھے لڑنے کے لیے اسلحہ چاہیئے بھاگنے کے لیے گاڑی نہیں۔
روس کی فوجیں دارالحکومت کیف میں پارلیمنٹ سے صرف 9 کلومیٹر کی دوری پر ہیں جب کہ دوسرے بڑے شہر خارکیف میں داخل ہوگئی ہیں جہاں یوکرین کی فوج سخت مزاحمت دکھا رہی ہے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔