یوکرائن بحران

وہی ہوا جس کا خدشہ تھا یعنی روس یوکرین تنازعہ جنگ میں بدل گیا

www.facebook.com/shah Naqvi

وہی ہوا جس کا خدشہ تھا یعنی روس یوکرین تنازعہ جنگ میں بدل گیا۔ روس کے یوکرین پر حملے کا آغاز روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے 24 فروری بروز جمعرات کی صبح 5 بج کر 40 منٹ پر قوم سے خطاب کے بعد ہوا۔ روسی صدر نے ٹیلی ویژن پر فوجی آپریشن کا اعلان کرتے ہؤے کہا کہ اگر بیرونی مداخلت ہوئی تو روس جواب دے گا۔

پیوٹن نے مغربی ممالک کو تنازع سے دور رہنے کا انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی ہماری راہ میں مداخلت کی غلطی کرے گا اسے ہم ایسے نتا ئج سے دو چار کریں گے جو تاریخ نے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔ روسی صدر نے کہا کہ ماسکو کے پاس روس کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے یوکرین پر حملہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ ان کا ملک عالمی معیشت کا حصہ رہنا چاہتا ہے اور اس کو نقصان پہنچانے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ عالمی شراکت دار ہماری مجبوری کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

دوسری طرف چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے روس کی یوکرین میں کارروائی کو حملہ کہنے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ روس کے یوکرین میں فوجی آپریشن کو حملہ کہنا متعصبانہ ہو گا جب کہ ایرانی وزیر خارجہ نے یوکرین پر حملے کو نیٹو سازشوں کا نتیجہ قرار دیا۔

روس اور مغربی ملکوں میں کشیدگی کی ابتدا 2008 میں ہوئی جب نیٹو کی سربراہی کانفرنس میں یوکرائن اور جارجیا کی طرف سے نیٹو میں شمولیت کی خواہش کا خیر مقدم کیا گیا جس نے روس کے کان کھڑے کر دیے کہ اس کے گرد گھیرا ڈالا جا رہا ہے۔ کیونکہ بحیرہ بالٹک کی سابق سویت ریاستوں لیٹویا، اسٹونیا اور لتھوانیا کی نیٹو میں شمولیت کے بعد روس کسی قیمت پریوکرائن اور جارجیا کی نیٹو میں شمولیت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ اس طرح نیٹو کی سرحدروس سے آ ملیں گی۔


نیٹو کا قیام 1949میں عمل میں آیا۔ ابتداء میں تعداد 12تھی جواب بڑھ کر 30 ہو گئی ہے۔ امریکا اور کینیڈا کے علاوہ 28 ممبران کا تعلق یورپ سے ہے۔ اب اگر یوکرائن اور جارجیا بھی اس تنظیم میں شامل ہو جاتے ہیں تو مغربی سائبیریا سے بحراسود تک روس کے خلاف دفاعی حصار جو مکمل ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ روس صدر پوشن گزشتہ کئی دنوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکا نے سابق سوویت یونین کی تحلیل کے بعد یوکرین سے ہٹائے جانے والے جوہری ہتھیار ایک بار پھر وہاں نصب کرنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔

یوکرین پر حملے سے چند دن پہلے روسی صدر پیوٹن نے کہا کہ چاہے کچھ ہو جائے مغرب ہر حال میں روس پر پابندیاں عائد کرے گا، چاہے یہ یوکرین کا معاملہ ہو یا مستقبل میں کوئی اور وجہ کیونکہ ان لوگوں کا مقصد روس کی ترقی کی رفتار کو سست کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ پابندیاں غیر قانونی ہیں اور یہ اقدام اسی صورت میں کیا جاتا ہے جب مقابلے میں کوئی شخص مقابلے کا اہل نہیں ہوتا تو ایسی چالیں چلتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پابندیاں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں لیکن جو لوگ آج پابندیوں کا راگ الاپ رہے ہیں وہ صرف اسی صورت میں بین الاقوامی قوانین کا خیال رکھتے ہیں جب صورت حال ان کے فائدے میں ہو اور جب حالات ان کے مفاد میں نہیں ہوتے تو یہ لوگ ان ہی بین الاقوامی قوانین کو روندھ کر اعلیٰ اقدار کو تباہ کرنے میں دیر نہیں لگاتے ۔

انھوں نے کہا کہ مغرب ہمیشہ صورت حال کو اپنے مفاد میں دیکھتا ہے اور اس نے ہمیشہ دیگر ملکوں کے مفادات کو نظر انداز کیا ہی۔ انھوں نے کہا کہ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جو امریکا کا اتحادی ہونے کے باوجود پابندیوں کے خطرے سے دو چار ہیں۔ یہ لوگ پابندیوں کو پسند نہیں کرتے لیکن کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ یہ ممالک اپنا منہ بند رکھتے ہیں اور برداشت کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ پیشن گوئی بھی کی کہ یہ سلسلہ جلد ہی بند ہونے والا ہے۔

یہ امریکا کا پرانا طریقہ واردات ہے کہ گھیرا ڈالو اور اس حد تک تنگ کرو کہ تنگ آمد بیجنگ آمد یعنی دوسرا لڑنے پر مجبور ہو جائے۔ اس طرح جارحیت کا طوق گلے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ امریکا نے ماضی میں افغانستان میں سوویت یونین کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ اسے مجبوراً افغانستان میں فوجیں اتارنا پڑیں۔ اب یوکرائن میں دوبارہ سے امریکی سازش کامیاب ہو گئی ہے کہ یوکرائن کو استعمال کرتے ہوئے روس پر سخت ترین معاشی مالی پابندیوں کا نفاذ کردیا جائے، کسی ملک کی اصل طاقت اس کی معیشت میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ معاشی کمزوری دراصل دفاعی کمزوری کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔

امریکی سینٹر برنی سنیڈر نے اس حوالے کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ روس حملہ کرے تو Invasion اور امریکا حملہ کرے تو Libration جس کی روشن مثالیں ویت نام، کمبوڈیا، لیبیا، عراق، شام اور افغانستان ہیں ۔ یوکرائن بحران کے حوالے سے فوری طور پر اہم تاریخیں 28 فروری، یکم مارچ ، پانچ اور چھ مارچ ہیں۔
Load Next Story