مصطفٰے جانِ رحمت ﷺ پہ لاکھوں سلام
آپؐ مدارج رفعت طے کرتے ہوئے قاب قوسین کے مرتبے پر فائز اور جسم و روح کے ساتھ آسمانوں کی بلندیوں پر پہنچے
KURIANWALA:
معراج نبی کریمؐ کا عظیم معجزہ ہے۔
حضر ت سیّد احمد سعید شاہ کاظمی لکھتے ہیں: ''حضور نبی اکرم نُور مجسم سید عالم ﷺ کے اخص خصائص اور اشرف فضائل و کمالات اور روشن ترین معجزات و کرامات سے یہ امر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضورؐ کو فضیلت اسراء و معراج سے وہ خصوصیت و شرافت عطا فرمائی جس کے ساتھ کسی نبی اور رسول کو مشرف و مکرّم نہیں فرمایا اور جہا ں اپنے محبوب ﷺ کو پہنچایا کسی کو وہاں تک پہنچنے کا شر ف نہیں بخشا اور اﷲ تعالیٰ نے اس عظیم و جلیل واقعہ کے بیان کو لفظ ''سبحان'' سے شروع فرمایا جس کا مفاد اﷲ کی تنزیہ اور ذات باری کا ہر عیب و نقص سے پاک ہونا ہے۔
اس میں یہ حکمت ہے کہ واقعات معراج جسمانی کی بناء پر منکرین کی طرف جس قدر اعتراضات ہوسکتے تھے ان سب کا جواب ہوجائے۔ مثلاً حضور نبی کریم ﷺ کا جسم اقدس کے ساتھ بیت المقدس یا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور وہاں سے ''ثم دنی فتدلیٰ '' کی منزل تک پہنچ کر تھوڑی دیر میں واپس تشریف لے آنا منکرین کے نزدیک ناممکن اور محال تھا۔
اﷲتعالیٰ نے لفظ سبحان فرما کر یہ ظاہر فرمایا کہ یہ تمام کام میرے لیے ناممکن اور محال ہوں تو یہ میری عاجزی اور کم زوری ہوگی اور عجز و ضعف عیب ہے اور میں عیب سے پاک ہوں، اسی حکمت کی بناء پر اﷲ تعالیٰ نے ''اسریٰ '' فرمایا جس کا فاعل اﷲ تعالیٰ ہے۔ حضور ﷺ کو جانے والا نہیں فرمایا، بل کہ اپنی ذات کو لے جانے والا فرمایا جس سے صاف ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے لفظ ''سبحان '' فرما کر معراج جسمانی پر ہر اعتراض کا جواب دیا ہے اور اس سے معلوم ہوا، آیت اسریٰ کا پہلا لفظ ہی معراج جسمانی کی روشن دلیل ہے۔''
نبی کریمؐ براق پر سوار ہوکر بیت المقدس پہنچے اور مسجد اقصیٰ میں دو رکعت نماز ادا فرمائی پھر آپؐ باہر تشریف لائے، اس وقت حضرت جبریلؑ آپؐ کی خدمت میں ایک برتن شراب کا اور دوسرا برتن دودھ کا لائے، نبی ﷺ نے دودھ کا برتن منتخب کیا، حضرت جبریلؑ نے عرض کیا آپؐ نے فطرت کا انتخاب کیا۔ مزید عرض کیا کہ حضور ﷺ نے شراب منتخب کی ہوتی تو ان کی امت گم راہ ہوجاتی۔ نبی ﷺ نے اﷲ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہدایت کی توفیق بخشی۔
صحیح روایت میں ہے کہ جب نماز کا وقت آیا تو رسول اﷲ ﷺ نے انبیائے کرامؑ کی امامت فرمائی۔ ان حضرات نے آپؐ کی تشریف آوری پر مرحبا کہا اور مسرت و شادمانی کا مظاہرہ کیا، اس طرح آپؐ امام الانبیاء کے منصب پر فائز ہوئے۔ آپؐ جب جبریلؑ کے ساتھ پہلے آسمان پر پہنچے تو حضرت جبریلؑ نے آسمان کے دروازے پر دستک دی، آواز آئی آپ کے ساتھ کوئی اور ہے، حضرت جبریل نے عرض کیا، میرے ساتھ محمد ﷺ ہیں۔ پھر آواز آئی، کیا ان کو بُلایا گیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا، ہاں اِن کو بُلایا گیا ہے۔
پھر دروازہ کھلا۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں حضرت آدمؑ نے اس پہلے آسمان پر مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر جبریلؑ مجھے سدرۃ المنتہی تک لے گئے۔ ا س قرب خاص میں حبیب کریم ﷺ پر ایک دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں، ا س کے بعد آپؐ حضرت موسیٰ کے پاس پہنچے، حضرت موسیٰ نے عرض کیا۔ آپؐ کے رب نے آپؐ کی امت پر کیا فرض کیا ؟ نبی ﷺ نے فرمایا: پچاس نمازیں۔ حضرت موسیٰ نے عرض کیا: آپؐ اپنے رب کے پاس جائیں اور اس میں کمی کرائیں، کیوں کہ آپؐ کی امت اس کی متحمّل نہیں ہوگی۔ میرے پاس بنی اسرائیل کا تجربہ ہے۔ چناں چہ آپؐ پانچ نمازوں کا تحفہ لے کر آئے۔ آپؐ شب میں مدارج رفعت طے کرتے قاب قوسین کے مرتبے کو پہنچے جو نہ کسی کو ملا اور نہ کسی نے اس کا قصد کیا۔
آپؐ جسم و روح دونوں کے ساتھ آسمانوں کی بلندیوں پر پہنچے اور آپؐ کا یہ اوپر کا سفر ہر بلندی کے سفر سے بالاتر ہے۔ آپؐ اس مرکز سے بھی اوپر تشریف لے گئے جہاں خالق خلق اپنے قلم سے فیصلے جاری کرتا ہے۔ نبی ﷺ نے معراج میں ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جن کے سر پتھر سے توڑے جاتے ہیں اور جب ٹوٹ جاتے ہیں تو پھر پہلے کی طرح درست ہوجاتے ہیں اور سزا کی اس کارروائی میں کوئی کمی نہیں کی جاتی یعنی عذاب کا یہ سلسلہ پیہم جاری رہتا ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں حضرت جبریلؑ نے حضور ﷺ کو بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر فرض نماز سے بوجھل ہوجاتے تھے۔ اسی طرح نبی ﷺ نے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کے آگے پیچھے پیوند لگے ہوئے تھے ، وہ اس طرح چَر رہے تھے جیسے اونٹ اور بکریاں چرتی ہیں اور وہ جہنم کے پتھر کھا رہے تھے۔
نبی ﷺ نے حضرت جبریلؑ سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح کچھ ایسے لوگوں کا مشاہدہ کیا جن کے سامنے ہانڈی کا پکا ہوا گوشت تھا اور انہیں کے سامنے دوسری ہانڈی میں خبیث اور کچا گوشت تھا۔ یہ لوگ کچا اور خبیث گوشت کھا رہے تھے اور پاک پکا ہوا گوشت چھوڑ رہے تھے۔
حضرت جبریلؑ نے سیّد کائنات ﷺ کو ان کے بارے میں بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے پاس جائز اور پاکیزہ عورتیں موجود تھیں مگر وہ خبیث عورتوں کے پاس جاکر زنا کی لعنت میں مبتلا ہوتے تھے، اسی طرح وہ عورت بھی جس کی شادی پاکیزہ مرد سے تھی مگر وہ خبیث مرد کے پاس جاکر زنا کی مرتکب ہوتی تھی اور نبی ﷺ کا گزر راستے میں ایک ایسی لکڑی کے پاس سے ہوا جس کے پاس اگر کوئی کپڑا گزرتا تو اسے وہ لکڑی چاک کردیتی یا کوئی شے گزرتی اسے بھی چاک کردیتی۔ حبیب ﷺ نے پوچھا! جبریلؑ یہ کیا ہے؟ حضرت جبریلؑ نے بتایا آپؐ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو راستوں پر بیٹھتے اور راستہ کاٹا کرتے ہیں۔
شب ِمعراج میں نبی ﷺ نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جن کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچی سے کاٹے جاتے تھے اور جب بھی کاٹ دیے جاتے پھر دوبارہ صحیح ہوجاتے۔ نبی ﷺ نے فرمایا، جبریلؑ! یہ کون ہیں۔ انھوں نے عرض کیا، یہ آپؐ کی امت کے مقررین ہیں، فتنہ پرور مقررین یہ جو کہتے تھے اس پر خود عمل نہ کرتے تھے۔ جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں اپنے پیٹوں میں صرف آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے۔
رسول اکرمؐ نے فرمایا: میں نے جہنم کا مشاہدہ کیا تو کیا دیکھتا ہو ں کہ اس میں زیادہ تر تعداد عورتوں کی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ ایسا کیوں ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: اپنی ناشکری کی وجہ سے۔ عرض کیا گیا کہ کیا وہ اﷲ کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: شوہر کی ناشکری کرتی ہیں، احسان فراموشی کرتی ہیں، اگر تم کسی ایک کے ساتھ زمانہ بھر تک احسان کرتے رہو پھر اس نے ذرا سا بھی فر ق دیکھا تو کہہ اٹھی تم سے تو میں نے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔
معراج نبی کریمؐ کا عظیم معجزہ ہے۔
حضر ت سیّد احمد سعید شاہ کاظمی لکھتے ہیں: ''حضور نبی اکرم نُور مجسم سید عالم ﷺ کے اخص خصائص اور اشرف فضائل و کمالات اور روشن ترین معجزات و کرامات سے یہ امر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضورؐ کو فضیلت اسراء و معراج سے وہ خصوصیت و شرافت عطا فرمائی جس کے ساتھ کسی نبی اور رسول کو مشرف و مکرّم نہیں فرمایا اور جہا ں اپنے محبوب ﷺ کو پہنچایا کسی کو وہاں تک پہنچنے کا شر ف نہیں بخشا اور اﷲ تعالیٰ نے اس عظیم و جلیل واقعہ کے بیان کو لفظ ''سبحان'' سے شروع فرمایا جس کا مفاد اﷲ کی تنزیہ اور ذات باری کا ہر عیب و نقص سے پاک ہونا ہے۔
اس میں یہ حکمت ہے کہ واقعات معراج جسمانی کی بناء پر منکرین کی طرف جس قدر اعتراضات ہوسکتے تھے ان سب کا جواب ہوجائے۔ مثلاً حضور نبی کریم ﷺ کا جسم اقدس کے ساتھ بیت المقدس یا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور وہاں سے ''ثم دنی فتدلیٰ '' کی منزل تک پہنچ کر تھوڑی دیر میں واپس تشریف لے آنا منکرین کے نزدیک ناممکن اور محال تھا۔
اﷲتعالیٰ نے لفظ سبحان فرما کر یہ ظاہر فرمایا کہ یہ تمام کام میرے لیے ناممکن اور محال ہوں تو یہ میری عاجزی اور کم زوری ہوگی اور عجز و ضعف عیب ہے اور میں عیب سے پاک ہوں، اسی حکمت کی بناء پر اﷲ تعالیٰ نے ''اسریٰ '' فرمایا جس کا فاعل اﷲ تعالیٰ ہے۔ حضور ﷺ کو جانے والا نہیں فرمایا، بل کہ اپنی ذات کو لے جانے والا فرمایا جس سے صاف ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے لفظ ''سبحان '' فرما کر معراج جسمانی پر ہر اعتراض کا جواب دیا ہے اور اس سے معلوم ہوا، آیت اسریٰ کا پہلا لفظ ہی معراج جسمانی کی روشن دلیل ہے۔''
نبی کریمؐ براق پر سوار ہوکر بیت المقدس پہنچے اور مسجد اقصیٰ میں دو رکعت نماز ادا فرمائی پھر آپؐ باہر تشریف لائے، اس وقت حضرت جبریلؑ آپؐ کی خدمت میں ایک برتن شراب کا اور دوسرا برتن دودھ کا لائے، نبی ﷺ نے دودھ کا برتن منتخب کیا، حضرت جبریلؑ نے عرض کیا آپؐ نے فطرت کا انتخاب کیا۔ مزید عرض کیا کہ حضور ﷺ نے شراب منتخب کی ہوتی تو ان کی امت گم راہ ہوجاتی۔ نبی ﷺ نے اﷲ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہدایت کی توفیق بخشی۔
صحیح روایت میں ہے کہ جب نماز کا وقت آیا تو رسول اﷲ ﷺ نے انبیائے کرامؑ کی امامت فرمائی۔ ان حضرات نے آپؐ کی تشریف آوری پر مرحبا کہا اور مسرت و شادمانی کا مظاہرہ کیا، اس طرح آپؐ امام الانبیاء کے منصب پر فائز ہوئے۔ آپؐ جب جبریلؑ کے ساتھ پہلے آسمان پر پہنچے تو حضرت جبریلؑ نے آسمان کے دروازے پر دستک دی، آواز آئی آپ کے ساتھ کوئی اور ہے، حضرت جبریل نے عرض کیا، میرے ساتھ محمد ﷺ ہیں۔ پھر آواز آئی، کیا ان کو بُلایا گیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا، ہاں اِن کو بُلایا گیا ہے۔
پھر دروازہ کھلا۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں حضرت آدمؑ نے اس پہلے آسمان پر مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر جبریلؑ مجھے سدرۃ المنتہی تک لے گئے۔ ا س قرب خاص میں حبیب کریم ﷺ پر ایک دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں، ا س کے بعد آپؐ حضرت موسیٰ کے پاس پہنچے، حضرت موسیٰ نے عرض کیا۔ آپؐ کے رب نے آپؐ کی امت پر کیا فرض کیا ؟ نبی ﷺ نے فرمایا: پچاس نمازیں۔ حضرت موسیٰ نے عرض کیا: آپؐ اپنے رب کے پاس جائیں اور اس میں کمی کرائیں، کیوں کہ آپؐ کی امت اس کی متحمّل نہیں ہوگی۔ میرے پاس بنی اسرائیل کا تجربہ ہے۔ چناں چہ آپؐ پانچ نمازوں کا تحفہ لے کر آئے۔ آپؐ شب میں مدارج رفعت طے کرتے قاب قوسین کے مرتبے کو پہنچے جو نہ کسی کو ملا اور نہ کسی نے اس کا قصد کیا۔
آپؐ جسم و روح دونوں کے ساتھ آسمانوں کی بلندیوں پر پہنچے اور آپؐ کا یہ اوپر کا سفر ہر بلندی کے سفر سے بالاتر ہے۔ آپؐ اس مرکز سے بھی اوپر تشریف لے گئے جہاں خالق خلق اپنے قلم سے فیصلے جاری کرتا ہے۔ نبی ﷺ نے معراج میں ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جن کے سر پتھر سے توڑے جاتے ہیں اور جب ٹوٹ جاتے ہیں تو پھر پہلے کی طرح درست ہوجاتے ہیں اور سزا کی اس کارروائی میں کوئی کمی نہیں کی جاتی یعنی عذاب کا یہ سلسلہ پیہم جاری رہتا ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں حضرت جبریلؑ نے حضور ﷺ کو بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر فرض نماز سے بوجھل ہوجاتے تھے۔ اسی طرح نبی ﷺ نے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کے آگے پیچھے پیوند لگے ہوئے تھے ، وہ اس طرح چَر رہے تھے جیسے اونٹ اور بکریاں چرتی ہیں اور وہ جہنم کے پتھر کھا رہے تھے۔
نبی ﷺ نے حضرت جبریلؑ سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح کچھ ایسے لوگوں کا مشاہدہ کیا جن کے سامنے ہانڈی کا پکا ہوا گوشت تھا اور انہیں کے سامنے دوسری ہانڈی میں خبیث اور کچا گوشت تھا۔ یہ لوگ کچا اور خبیث گوشت کھا رہے تھے اور پاک پکا ہوا گوشت چھوڑ رہے تھے۔
حضرت جبریلؑ نے سیّد کائنات ﷺ کو ان کے بارے میں بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے پاس جائز اور پاکیزہ عورتیں موجود تھیں مگر وہ خبیث عورتوں کے پاس جاکر زنا کی لعنت میں مبتلا ہوتے تھے، اسی طرح وہ عورت بھی جس کی شادی پاکیزہ مرد سے تھی مگر وہ خبیث مرد کے پاس جاکر زنا کی مرتکب ہوتی تھی اور نبی ﷺ کا گزر راستے میں ایک ایسی لکڑی کے پاس سے ہوا جس کے پاس اگر کوئی کپڑا گزرتا تو اسے وہ لکڑی چاک کردیتی یا کوئی شے گزرتی اسے بھی چاک کردیتی۔ حبیب ﷺ نے پوچھا! جبریلؑ یہ کیا ہے؟ حضرت جبریلؑ نے بتایا آپؐ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو راستوں پر بیٹھتے اور راستہ کاٹا کرتے ہیں۔
شب ِمعراج میں نبی ﷺ نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جن کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچی سے کاٹے جاتے تھے اور جب بھی کاٹ دیے جاتے پھر دوبارہ صحیح ہوجاتے۔ نبی ﷺ نے فرمایا، جبریلؑ! یہ کون ہیں۔ انھوں نے عرض کیا، یہ آپؐ کی امت کے مقررین ہیں، فتنہ پرور مقررین یہ جو کہتے تھے اس پر خود عمل نہ کرتے تھے۔ جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں اپنے پیٹوں میں صرف آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے۔
رسول اکرمؐ نے فرمایا: میں نے جہنم کا مشاہدہ کیا تو کیا دیکھتا ہو ں کہ اس میں زیادہ تر تعداد عورتوں کی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ ایسا کیوں ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: اپنی ناشکری کی وجہ سے۔ عرض کیا گیا کہ کیا وہ اﷲ کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: شوہر کی ناشکری کرتی ہیں، احسان فراموشی کرتی ہیں، اگر تم کسی ایک کے ساتھ زمانہ بھر تک احسان کرتے رہو پھر اس نے ذرا سا بھی فر ق دیکھا تو کہہ اٹھی تم سے تو میں نے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔