پیکا آرڈیننس آزادی اظہار اور اختلاف رائے کو کچلنے کی کوشش ہے ایمنسٹی انٹرنیشنل
پیکا ترمیمی آرڈیننس کو مکمل طور پر منسوخ کردینا چاہیے، ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر نادیہ رحمان
کراچی:
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے تناظر میں کہا ہے کہ سائبر کرائمز ایکٹ میں ترمیم آزادی اظہار کو محدود کرنے اور اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے ایک مشترکہ مہم پر مشتمل اقدام ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل میں جنوبی ایشیا کے لیے قائم مقام ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر نادیہ رحمان نے کہا کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس 'جعلی خبروں،' سائبر کرائم اور غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کے بہانے آزادی اظہار کو خاموش کرانے کے لیے ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ترمیم نہ صرف پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ حکومت یا دیگر ریاستی اداروں سے سوال کرنے والے کو مزید خطرے میں ڈال دیتی ہے، یہ خاص طور پر صحافیوں، انسانی حقوق کے رہنماؤں اور سیاسی مخالفین کے بھی خطرہ ہے جنہیں محض اپنے کام کرنے کی وجہ سے قانونی چارہ جوئی کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
نادیہ رحمان نے کہا کہ ترمیم کی بنیاد پر حکام کو اجازت ہوگی کہ جو کچھ آن لائن کہا جارہا ہے اس کی ڈیجیٹل طور پر نگرانی کی جائے اور اگر وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں پسند نہ آئے تو متعلقہ شخص پر بھاری جرمانہ یا سزائیں عائد کردی جائیں۔
اس حوالے نادیہ رحمان نے مزید کہا کہ قانون انسانی حقوق کے تحفظ پر مرکوز ہونا جبکہ حکومت کو جائز تنقید سے روکنا نہیں چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس کو مکمل طور پر منسوخ کردینا چاہیے، یا انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے ان میں خاطر خواہ ترامیم کرنی چاہیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے تناظر میں کہا ہے کہ سائبر کرائمز ایکٹ میں ترمیم آزادی اظہار کو محدود کرنے اور اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے ایک مشترکہ مہم پر مشتمل اقدام ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل میں جنوبی ایشیا کے لیے قائم مقام ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر نادیہ رحمان نے کہا کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس 'جعلی خبروں،' سائبر کرائم اور غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کے بہانے آزادی اظہار کو خاموش کرانے کے لیے ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ترمیم نہ صرف پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ حکومت یا دیگر ریاستی اداروں سے سوال کرنے والے کو مزید خطرے میں ڈال دیتی ہے، یہ خاص طور پر صحافیوں، انسانی حقوق کے رہنماؤں اور سیاسی مخالفین کے بھی خطرہ ہے جنہیں محض اپنے کام کرنے کی وجہ سے قانونی چارہ جوئی کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
نادیہ رحمان نے کہا کہ ترمیم کی بنیاد پر حکام کو اجازت ہوگی کہ جو کچھ آن لائن کہا جارہا ہے اس کی ڈیجیٹل طور پر نگرانی کی جائے اور اگر وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں پسند نہ آئے تو متعلقہ شخص پر بھاری جرمانہ یا سزائیں عائد کردی جائیں۔
اس حوالے نادیہ رحمان نے مزید کہا کہ قانون انسانی حقوق کے تحفظ پر مرکوز ہونا جبکہ حکومت کو جائز تنقید سے روکنا نہیں چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس کو مکمل طور پر منسوخ کردینا چاہیے، یا انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے ان میں خاطر خواہ ترامیم کرنی چاہیے۔