خدا خیر کرے

بیجنگ امریکا کے اس جمہوری ایجنڈے کو خطرہ سمجھتا ہے اور ہانگ کانگ میں حالیہ احتجاج اس کی ایک مثال ہے


Shakeel Farooqi March 01, 2022
[email protected]

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

مندرجہ بالا شعر روس اور یوکرین کی موجودہ صورتحال پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لمحہ بہ لمحہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر اور سنگین سے سنگین ہو رہی ہے۔

امرِواقعہ یہ ہے کہ یہ چنگاری جو اب شعلہ جوالہ بن کر عالمی امن کے لیے خطرے کا سگنل دے رہی ہے، خدانخواستہ بھڑکتے بھڑکتے عالمگیر جنگ نہ بن جائے اِس وقت جب کہ یہ کالم تحریر کیا جا رہا ہے روسی افواج کی پیش قدمی جاری ہے۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہوئے حالات کیا شکل اختیار کرلیں اور جب تک یہ کالم آپ کے ہاتھوں میں پہنچے اُس وقت تک اونٹ کس کروٹ بیٹھ چکا ہو۔

کبھی کبھی دل میں یہ خیال آتا ہے کہ اگر کولمبس نے امریکا کو دریافت نہ کیا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ بقولِ شاعر:

نہ تھا جب میں خدا تھا

میں نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے

نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا

حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں بیشتر دنگوں اور فساد کی پشت پر آپ کو امریکا ہی نظر آئے گا۔ ایران کی روحانی قیادت نے اسی لیے تو انکل سام کو '' شیطانِ بزرگ''کا خطاب دیا ہے۔ شیطان بے چارہ تو مفت میں بدنام ہے۔ امریکا کے آگے بھلا اُس کی اوقات ہی کیا ہے، اسلحہ سازی امریکا کا سب سے بڑا کاروبار ہے۔

یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے لہذٰا جنگ و جدل اور دنگا فساد امریکا کی بنیادی کاروباری ضرورت ہے۔ امریکا خود کو دنیا بھر کا ٹھیکیدار سمجھتا ہے اِس لیے کسی بھی ملک کے معاملات میں دخل اندازی اُس کے نزدیک اُس کا حق بنتا ہے۔ سپر پاور ہونے کا نشہ اُس کے سر پر ابھی تک سوار ہے حالانکہ ہر محاذ پر اُسے انجامِ کار ناکامی اور پسپائی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ ویتنام، عراق اور افغانستان اِس کی نمایاں مثالیں ہیں جہاں سے اُسے منہ کی کھانے کے بعد اِس طرح نکلنا پڑا ہے کہ بقولِ غالب۔

بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

امریکا کا طریقہ واردات بھی نرالا ہے کسی سے بھی تعلق پیدا کرکے وہ پہلے اُسے اپنے قریب لاتا ہے اور پھر اُس کا ہمدرد بن کر اُس کی خامیاں اور کمزوریاں تلاش کرتا ہے جن سے وہ بوقتِ ضرورت فائدہ اٹھا کر اپنا الو سیدھا کرتا ہے اور وقت نکل جانے کے بعد اُسے یکسر فراموش کر دیتا ہے اسی لیے تو اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ:

ہوئے تم دوست جس کے

دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو

امریکا کی ایک اور خصلت یہ بھی ہے کہ وہ آزمائش کی گھڑی میں اپنے دوست کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اِس طرح غائب ہوجاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

1971 میں سقوطِ ڈھاکا سے قبل وہ پاکستان کو بار بار یہ جھوٹی تسلیاں دیتا رہا کہ گھبرائیں نہیں،ہمارا چھٹا بحری بیڑہ جلد ہی مدد کو پہنچنے والا ہے لیکن ہوا یہ کہ پاکستان کا بیڑا غرق ہو گیا لیکن امریکی بیڑے کو نہ پہنچنا تھا اور نہ ہی وہ پہنچ سکا۔

اِس سے پہلے بھی 1962 میں جب بھارت چین جنگ ہوئی تھی اور پاکستان کو بھارت سے اپنا حساب چکانے اور مسئلہ کشمیر کو حل کروانے کا سنہری موقع تھا تو تب بھی امریکا نے پاکستان پر دباؤ ڈالا تھا جس کے نتیجے میں یہ ضایع ہوگیا اور یہ مسئلہ ابھی تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔

انکل سام کی پالیسی یہ ہے کہ بھس میں چنگاری پھینکو اور خود دور پرے محفوظ ہو کر تماشہ دیکھو۔ جب آتش بازی کا سامان ختم ہوجائے تو ہمارے پاس پھر چل کر آؤ اور مزید سامان لے جاؤ اصل مقصد اپنی ڈیفنس انڈسٹری کو چالو رکھنا اور اپنی کمائی میں روز بروز زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنا ہے۔ امریکا کا صدر خواہ کوئی بھی ہو مگر امریکی پالیسی کی بنیاد نہیں بدلتی۔ دوسروں کے کندھوں پر رکھ کر بندوق چلانا امریکی پالیسی کا اہم جزو ہے جو نہ کبھی تبدیل ہوا اور نہ ہونے کا امکان ہے۔

کرہِ ارض پر شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جو اُس کے نشانہ پر نہ ہو۔ وقت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ امریکا کے طور طریقے بھی بدلتے رہتے ہیں لیکن وہ اُس کی بنیادی پالیسی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی،کبھی نچلا ہو کر بیٹھنا اور کہیں نہ کہیں فتنہ اور فساد کو بھڑکانا امریکی پالیسی کا جزوِ اوّل ہے۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو یوکرین کے صدارتی عہدے پر امریکا ہی نے لاکر بٹھایا ہے تاکہ روس کی جڑوں میں بیٹھ کر اُس کی نگرانی کی جائے جب کہ بنیادی طور پر وہ محض ایک مزاحیہ اداکار کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ جو روس کو ناگوار گزرنا ایک فطری امر تھا چنانچہ وہی ہوا جو ہونا تھا اور روس کی جانب سے کی جانے والے کارروائی کو غیر متوقع اقدام نہیں کہا جاسکتا۔اس سے قطع نظر کہ غلطی پر کون ہے اور کون بے قصور ہے اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اِس تنازعہ میں ہم نے اقوام عالم کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے اور اِس کا نتیجہ بڑے پیمانے پر انسانی جانوں اور املاک کی تباہی اور بربادی کی صورت میں نکلا ہے۔

سب سے زیادہ مشکل میں بھارت پھنسا جس کے روس کے ساتھ پرانے تعلقات کے علاوہ امریکا کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت ہے۔ گویا ایک طرف کنواں اور دوسری طرف کھائی۔

اِسے بھی عجب اتفاق کہیے کہ روسی صدر سے پہلے سے طے شدہ ملاقات کے لیے وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کا پروگرام بھی اِس درمیان آگیا جس کی اہمیت اور نوعیت بالکل واضح تھی۔شکر ہے کہ وزیراعظم کا دورہِ روس بخیر و خوبی تکمیل پذیر ہوگیا اور ملتوی ہونے سے بچ گیا جیسا کہ پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کے ساتھ ہوا تھا۔

برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ چین اور روس کبھی مثالی اتحادی نہیں رہے، یوکرین پر حالیہ حملہ بھی بیجنگ کے برسوں پرانے اور مستقل موقف سے میل نہیں کھاتا کہ ملکوں کی خودمختاری کا احترام کیا جانا چاہیے اور ان کے معاملات میں دخل اندازی سے بھی گریز کیا جانا چاہیے، لیکن اس کے باوجود بیجنگ اس بار ماسکو کی حمایت میں کھڑا نظر آتا ہے اور چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہوا چن ینگ نے روس کو جارح ملک کہنے سے گریز کیا اور کہا کہ ماسکو کو اشتعال دلایا گیا اور اس کے پاس دیگر کوئی آپشن نہیں رہنے دیا گیا تھا۔

یوکرین کی جنگ دراصل امریکا، روس اور چین کے درمیان بالادستی کی کشمکش ہے اور دنیا کو چلانے کے لیے نئے نظام کی تشکیل کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یوکرین جنگ کے لیے روس نے چین کے بارڈر کو تقریباً خالی چھوڑ کر تمام فوج محاذ پر لگا رکھی ہے جس سے صدر پیوٹن کا بیجنگ پر اعتماد جھلکتا ہے۔ روس اور چین باضابطہ اتحادی نہیں ہیں لیکن اپنے مفاد میں گلوبل آرڈر کو تبدیل کرنے کے لیے باہم تعاون کر رہے ہیں۔

صدر بائیڈن جمہوری ملکوں کے اتحاد یا بلاک کی پالیسی کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں، یوں یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ امریکا خود دنیا کو 2 دھڑوں میں تقسیم کرنے پر کاربند ہے۔ امریکا نے جمہوریت کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہتھیار بنا رکھا ہے، جہاں چاہتا ہے جمہوریت کی حمایت کے بہانے احتجاج اور تحریکیں برپا کروا دیتا ہے اور مرضی کی حکومتیں بنواتا ہے۔ سوویت یونین کی سابق ریاستوں میں بھی اس کی یہی پالیسی ہے۔یوکرین کے صدر زیلنسکی اسی پالیسی کے تحت مزاحیہ اداکاری سے صدارت تک پہنچائے گئے۔

بیجنگ امریکا کے اس جمہوری ایجنڈے کو خطرہ سمجھتا ہے اور ہانگ کانگ میں حالیہ احتجاج اس کی ایک مثال ہے۔ تائیوان کو بھی جمہوریت کے نام پر چین کے سامنے کھڑا کیا گیا ہے۔ صدر شی جن پنگ ایسے احتجاج کو بزورِ طاقت دبانے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔

خدا کرے کہ روس اور یوکرین کا تنازعہ ڈپلومیسی کے ذریعہ طے ہوجائے اور انسانیت خواہ مخواہ کی تباہی اور بربادی سے بچ جائے۔ خدا خیر کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔