امریکا نے یوکرین کو استعمال کیا

امریکا کے یوکرین کے ساتھ براہ راست مفادات نہیں ہیں اور نہ یوکرین امریکا کے پڑوس میں ہے


[email protected]

DIJKOT: ایک بار نہیں بار بار بلکہ سو بار لکھوں گاکہ دنیا میں کہیں مذہب کی لڑائی نہیں، کوئی بغیر وجہ کسی ملک کی مدد نہیں کرتا، بغیر مفاد اقوام متحدہ کسی معاملے میں نہیں کودتا۔ ہر جگہ ہر ملک ہرریاست میں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔

مفاد کا ٹکراؤ پورے یورپ کو آپس میں لڑا دیتا ہے، مفادات کا ٹکراؤ تمام عیسائی ریاستوں کو آپس میں گتھم گتھا کردیتا ہے، مفادات کا ٹکراؤ اسلامی ریاستوں کو آپس میں بھڑنے پر مجبور کردیتا ہے، مفادات کے ٹکراؤ نے عراق ایران جنگ کرائی، مفادات کے ٹکراؤ نے شام میں خانہ جنگی کرائی، مفادات کے ٹکراؤ نے آج تک سعودی عرب اور ایران کے درمیان صلح نہیں ہونے دی، ماضی کی سب باتوں کو بھول جائیں، روس یوکرین جنگ کو دیکھ لیں کہ کسی ملک نے بھی یوکرین کو بچانے کے لیے آگے نہیں بڑھا۔ کیوں ؟

اس لیے کہ امریکا کے یوکرین کے ساتھ براہ راست مفادات نہیں ہیں اور نہ یوکرین امریکا کے پڑوس میں ہے اور نہ ہی یہاں کوئی امریکی فوجی اڈہ موجود ہے۔ میرے خیال میں امریکا نے یوکرین کو گھاس بنا کر گھوڑے کے سامنے رکھ دیا اور گھوڑے کو اپاہج کرنے کی کوشش کی ہے۔ یعنی امریکا نے روس پر پابندیاں لگانے کے لیے یوکرین کو استعمال کیا ہے ۔

1961میں روس کیوبا میں بھی میزائل لے کر گیا تھا، لیکن امریکا نے روس کو جنگ کی دھمکی دے دی تھی، دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے ، امریکا نے روس کا اثرو رسوخ بڑھنے سے روک دیا تھا۔ امریکا یہ بات بارہا کہہ چکا ہے کہ جہاں جہاں اُسے اپنی سالمیت کا خطرہ نظر آئے گا وہاں وہاں وہ کارروائی کریے گا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حق صرف اور صرف طاقتور ملکوں کو حاصل ہے؟ برطانیہ نے یوکرین میں موجود اپنے فوجی تربیت کاروں اور مشیروں کو فوراً نکال لیا ہے۔اور کہا کہ عالمی جنگ تب ہوگی جب روسی فوجی برطانوی یا امریکی فوجیوں پر براہ راست گولی چلائیں گے۔

مطلب وہ بھی بہانہ بنا کر پتلی گلی سے نکل گیا۔ پھر آپ نیٹو ممالک کو دیکھ لیں، نیٹو معاہدے کے آرٹیکل پانچ کے تحت اگر کسی رکن ریاست پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو نیٹو کے تمام ممالک کو اس کے دفاع کے لیے آنا ہو گا۔اگرچہ جیسا کہ میں پہلے کہا کہ یوکرین نیٹو کا حصہ بننا چاہتا ہے لیکن وہ ابھی تک نیٹو اتحاد کا حصہ نہیں ہے اور صدر پوتن یوکرین کی نیٹو اتحاد میں شمولیت کے سخت مخالف ہیں۔

قصہ مختصر کہ امریکا نے شرارت کی ہے کہ روس، یوکرین پر حملے کی غلطی کرے، اور اسی کی آڑ میں اُسے معاشی و اقتصادی طور پر نقصان پہنچایا جائے اور یورپ سے اُس پر پابندیاں لگوائی جائیں اور پھر اقوام متحدہ کی قرارداد وں کے ذریعے روس کی ترقی کو روکا جائے لہٰذایہاں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ کسی کو یوکرین سے کوئی غرض نہیں کہ کتنی اموات ہو رہی ہیں اور نہ ہی یہ غرض ہے کہ یوکرینی کیا کہیں گے؟

لہٰذا یوکرین کے صدر کہہ رہے ہیں کہ اُن کے ملک کو روس سے لڑنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے،وہ مزید کہتے ہیں کہ یورپ کے 27رہنماؤں سے پوچھا کہ یوکرین نیٹو میں شامل ہو گا؟ ہر کوئی ڈرتا ہے اور جواب نہیں دیتا لیکن ہم ڈرنے والے نہیں ہیں۔

روس یوکرین کی آپسی لڑائی کی تاریخ کے حوالے سے بات کریں تو یہ دونوں ایک دوسرے کے روایتی حریف ہیں، ایک وقت تھا جب یوکرین کا دارالحکومت کیف روس کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔دراصل 21فروری 2022کو روسی صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین سے علیحدگی اختیار کرنے والے دو علاقوں دونیتسک اور لوہانسک کو خود مختار اور آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرلیا تھا۔آج مغرب کے ساتھ مل کر روس کے ساتھ لڑتا یوکرین 1920 سے 1991 تک سوویت یونین کا حصہ رہا ہے۔

90 کی دہائی میں جب سوویت یونین کا عروج ڈگمگانے لگا تو یوکرین ان پہلے ممالک میں سے تھا، جس نے 16 جولائی 1990 کو یونین سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ تقریباً ایک سال بعد 24 اگست 1991 کو یوکرین نے خودمختاری اور مکمل آزادی کا اعلان بھی کر دیا۔

2014 آنے تک یوکرین کی سرحد کے ساتھ صرف بیلاروس ایک ایسا ملک تھا، جس کے تعلقات روس کے ساتھ مثالی تھے۔ 2014 روس اور یوکرین تنازع کا عروج تھا، یاد رہے کہ 2014 میں یوکرین کے صدر وکٹر یانوکووچ تھے، جن کا جھکاؤ روس کی طرف تھا۔ انھوں نے روس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یورپی یونین سے منسلک ہونے کا معاہدہ مسترد کر دیا تھا، جس کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ اس احتجاجی لہر کے نتیجے میں وکٹریا نوکووچ کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اسی دوران یوکرین کے مشرقی علاقوں سے روس کی سرحد پر مامور سیکیورٹی افواج پر حملے ہوئے۔

اسے بنیاد بنا کر روس نے کریمیا پر چڑھائی کر دی جو تب سے روس کے کنٹرول میں ہے۔پھر 2015 میں فرانس کے تعاون سے یوکرین کے تمام متعلقہ گروہوں میں معاہدہ تو ہوگیا لیکن جھڑپیں جاری رہیں۔ ایسی ہی جھڑپوں میں 2021 کے اواخر میں شدت آ گئی، پھر 24فروری کو وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔روس نے جو کہا وہ کردیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ دنیا اپنے اپنے مفادات کو لے کر خاموش کھڑی ہیں۔

اس سارے معاملے میں جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس معاملے میں جہاں روس اور یوکرین کے صد ر دنیا بھر میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں وہیں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو بھی ڈسکس کیا جارہا ہے، کیوں کہ روس کے یوکرین پر حملے کے آغاز کے وقت عمران خان بھی روس میں موجود تھے، حالانکہ یہ دورہ جنگ سے پہلے کا شیڈول تھا مگر دنیا اس دورے کو روس، چین، ترکی اور پاکستان کے بلاک کی صورت میں دیکھ رہی ہے۔

اگر یہ حقیقت ہے تو ہمیں دوسری طرف یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ امریکی بلاک کا حصہ نہ بننے کا مطلب یہ ہے کہ کم ازکم امریکا کے بلاک کے ممالک جن میں یورپ، مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک، جاپان سمیت درجنوں ممالک کے ساتھ بھی پاکستان کے سیاسی و معاشی تعلقات سرد مہری کا شکار ہو سکتے ہیں جس کا نقصان ہو سکتا ہے، جب کہ سیاسی طور پر ہم تو آج تک یہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستان میں حکومتوں کے بننے اور ختم ہونے میں بھی امریکا کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ متوازن اور غیر جانب دار خارجہ پالیسی وقت کا تقاضا ہے جس میں ملک کا مفاد پہناں ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔