پنجاب میں آوارہ کتوں کی افزائش روکنے کی منظور شدہ پالیسی پر ماہرین جنگلی حیات کے شدید تحفظات
کتوں کی تولیدی صلاحیت ختم کر کے انہیں دوبارہ قدرتی ماحول میں چھوڑنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، ماہر جنگلی حیات
PARIS:
پنجاب میں آوارہ کتوں کی آبادی کوکنٹرول کرنے اورکتوں کے کاٹنے سے اموات کی روک تھام کے لئے صوبائی کابینہ نے ڈاگ برتھ کنٹرول پالسیی 2020 کی منظوری دے دی ہے تاہم دوسری طرف جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے آوارہ کتوں کی نس بندی اور انہیں باؤلے پن سے بچاؤ کی ویکسی نیشن تواحسن اقدام ہے لیکن انہیں دوبارہ ماحول میں چھوڑنا جنگلی حیات کے لئے خطرناک ہوسکتا ہے، اس صورت میں آوارہ کتے جنگلی خرگوش، ہرن، بکریوں اوراس انواع کے دیگرجانوروں کا شکار کرسکتے ہیں۔
محکمہ لائیواسٹاک، یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسزاور کتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی فلاحی تنظیموں این جی اوز نے آوارہ کتوں کومارنے کی بجائے ان کی تولید کنٹرول کرنے پالیسی مرتب کی تھی جسے صوبائی کابینہ نے منظورکرلیا ہے۔ یہ پالیسی لاہورہائیکورٹ کے حکم پر تیار کی گئی ہے۔
آوارہ کتوں اوربلیوں کی ویلفیئر کے لئے کام کرنیوالی کارکن عنیزہ خان عمرزئی نے ایکسپریس کو بتایا کہ اس پالیسی کا اہم نکتہ یہ ہے کہ آوارہ کتوں کوبے دردی سے گولیاں مارکرہلاک کرنے کی بجائے ان کتوں کو پکڑکر نراورمادہ کتوں کو تولیدی صلاحیت سے محروم کیاجائے گا اورپھرانہیں باؤلے پن سے بچانے کی ویکسی نیشن کرکے قدرتی ماحول میں چھوڑ دیا جائیگا۔ اس سے ان کی آبادی کنٹرول ہوسکے گی اور آوارہ کتوں کے کاٹنے سے جواموات ہوتی ہیں ان کو بھی روکاجاسکے گا۔
عنیزہ خان عمرزئی کاکہنا ہے ماضی میں آوارہ کتوں کو ختم کرنے کی ناکام کوشش ہوچکی ہے، جس کے لیے حکومتیں بھاری بجٹ خرچ کرتی رہی ہیں لیکن ٹی این وی آر(ٹریپ، نیوٹر،ویکسینیٹ اینڈ ریلیز) ایک بہترین اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے منظورشدہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے پنجاب حکومت نے 18 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا ہے جبکہ مختلف اضلاع میں میٹروپولٹین کارپوریشن کے عملے کو آوارہ کتوں کو پکڑنے، ان کا آپریشن کرنے اوردوبارہ کھلے ماحول میں چھوڑنے کی ٹریننگ بھی دی جارہی ہے۔
دوسری طرف ڈبلیوڈبلیوایف کی کارکن اورماہرجنگلی حیات ڈاکٹر عظمی خان کا کہنا ہے آوارہ کتوں کی آبادی کوکنٹرول کرنے کے لئے ان کوتولیدی صلاحیت سے محروم کرنا اوران کی ویکسی نیشن ایک احسن اقدام ہے لیکن انہیں دوبارہ قدرتی ماحول میں چھوڑنا جنگلی حیات کے لئے خطرناک ہوسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چھوٹے شہروں اورملکوں میں تو ٹی این وی آر کا طریقہ کارکامیاب رہا ہے لیکن ہمسایہ ملک بھارت سمیت کئی ایسے ممالک ہیں جہاں یہ چیز کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ خاص طورپروہ شہر اور ممالک جوایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ آپ نے پنجاب میں تویہ قانون بنالیا لیکن اگرسندھ اوربلوچستان سے آوارہ کتے پنجاب میں آجاتے ہیں یا پھر بھارتی پنجاب کے ساتھ ہمارے پنجاب کا بارڈجڑا ہے وہاں سے کتے یہاں آتے ہیں توآپ کیسے کنٹرول کرسکیں گے۔
ڈاکٹرعظمی خان نے بتایا کہ چھانگامانگا میں معدومی کاشکار پاڑہ ہرن چھوڑے گئے ہیں، وہاں کئی بار آوارہ کتوں کے گروپس کی طرف سے ہرنوں پرحملے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ اسی طرح آوارہ کتے جب گروپ کی شکل میں اکٹھے ہوتے ہیں توزیادہ خطرناک ہوجاتے ہیں اور یہ مویشیوں ، جنگلی خرگوش ، بھیڑ، بکریوں پر بھی حملہ آور ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا حیرت ہے کہ اس پالیسی کوتیارکرنے میں پنجاب وائلڈلائف کوشامل ہی نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے تجویزدی کہ انتہائی بیماراورلاغر کتوں کو پرسکون موت دی جاسکتی ہے یہ طریقہ پوری دنیا میں رائج ہے، ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہمیں نایاب اورمعدومی شکارجنگی حیات کوبچانا ہے یا پھرآوارہ کتے ہمارے لئے زیادہ اہم ہیں۔
واضح رہے کہ ڈاگ برتھ کنٹرول پالیسی کی منظوری کے بعد کتوں کی ہلاکت جرم تصورکی جائیگی جس پرکتوں کومارنے والوں کوجرمانہ اورسزاہوسکتی ہے۔ میٹروپولٹین کارپوریشن کے عملے سے کتوں کومارنے کے لئے دیا گیا اسلحہ اوردیگرسامان بھی پالیسی کی مںظوری کے لیے واپس لے لیا گیا ہے۔
دوسری طرف عنیزہ خان عمرزئی بھی یہ بات تسلیم کرتی ہیں کہ جب کتے بھوکے ہوں تو یہ غول کی شکل میں بکریوں، مرغیوں، جنگلی خرگوش سمیت دیگرجانوروں پرحملہ کرسکتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ان کا بے رحمی سے قتل عام کیاجائے۔
پنجاب وائلڈلائف کے سابق ڈائریکٹرچوہدری شفقت علی نےبتایا آوارہ کتوں کو جنگلی ماحول میں چھوڑنا درست نہیں ہوگا، کتے کی افزائش بہت تیزی سے ہوتی ہے جبکہ ہمارے ماحول کوصاف کرنے میں بھی کردار اداکرتے ہیں لیکن آوارہ کتوں کے مقابلے میں نایاب جنگلی جانورزیادہ اہم ہیں اس پالیسی میں جنگلی حیات کوبالکل نظراندازکیاگیا ہے۔