پولیو ورکرز ہی آخر کیوں

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پولیو مہم کی مخالفت میں اضافے کی اہم وجہ 2011 میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی جانب سے۔۔۔

عالمی ادارہ صحت نے خیبر پختونخواہ کو پولیو کا گڑھ قرار دیا ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پولیو مہم کی مخالفت میں اضافے کی اہم وجہ 2011 میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی جانب سے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش کے لئے چلائی جانے والی جعلی پولیو مہم ہے، جس کے بعد امریکہ نے ایک کارروائی میں اسامہ بن لادن کا باب بند کر دیا۔اس کارروائی کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں پولیو کے حوالے سے مختلف شک و شبہات پیدا ہوگئے۔ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کے بعد سے پولیو ورکرز کو خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوںمیں انسداد پولیو مہم کے دوران شدید مشکلات درپیش ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق گزشتہ 2سالوں میں پاکستان میں پولیو کی ٹیموں پر حملوں میں تیزی آئی ہے اور 2010سے لے کر اب تک کراچی، کوئٹہ اور خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوں بشمول شمالی و قبائلی میں پولیو ورکرز پر متعدد حملے ہوئے ہیں۔ ان حملوں کے دوران پولیو ٹیموں کی حفاظت کے لئے مامور سیکیورٹی اور پولیس اہلکار بھی جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ تاہم یہ تمام لوگ اُن علاقوں میں شہید کئے گئے جہاں انتہائی پسماندہ ذہنیت کے حامل افراد سکونت پذیر ہیں۔ جن میں شرح خواندگی نہ ہونے کے برابرہے۔

ڈاکٹرز کے مطابق پولیو انتہائی متعدی اور مہلک مرض ہے۔ یہ تین اقسام کے وائرس "وائلڈ پولیو وائرس ، ڈبلیو پی 1،ڈبلیوپی 2اور ڈبلیوپی 3" کے زریعے پھیلتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ایک وائرس پانی یا غذا کے زریعے ہمارے جسم میں داخل ہوسکتا ہے اور پھر یہ ہمارے نظام انہضام میں جزب ہوکر خون میں شامل ہوجاتا ہے۔ خون سے یہ وائرس ہمارے اُن اعصاب تک رسائی حاصل کر تا ہے ۔ جو ہمارے جسم کی حرکات کو کنٹرول کرتے ہیں اور یہ وائرس اُن اعصاب کو تباہ کر دیتا ہے۔ پھر جسم کا وہ حصہ مفلوج ہوجاتا ہے ۔ پولیو سے متاثرہ مریض زندگی بھر کے لئے اعصابی کمزوری ،فالج اور اپاہجگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ پولیوکے تمام وائرس مون سون کے موسم میں افزائش نسل ہوتے ہیں۔ یہ وائرس مریض کے فضلے سے بھی خارج ہوتا ہے اگر فضلے کو مناسب طریقے سے تلف کرنے کے انتظاما ت نہ ہوں تو اس سے غذا اور پانی آلودہ ہوجاتے ہیں۔ ہوں ہر وہ بچہ پولیو کی زد میں آسکتا ہے جو ان اشیاء کو استعمال کر تا ہے۔


خوش قسمتی سے ویکسن کے ذریعے پولیو کا سد باب کیا جاسکتا ہے۔ جب پولیو کے قطرے والی ویکسن بچوں کو پلائی جاتی ہے تو اس میں موجود وائرس پیٹ میں بچے کے مدافعتی نظام کو فعال کرتا ہے۔ اس طرح بچے کا جسم اس وائرس کے خلاف مدافعتی خلیے بنا لیتا ہے او ر پیٹ میں موجود پولیو ویکسن کے وائرس دو ہفتے میں ختم ہوجاتے ہیں اور مستقبل میں جب بھی بچے پر حقیقی پولیو وائرس حملہ آور ہوتاہے تو پہلے سے موجودہتھیار یا مدافعتی خلیے اس وائرس کو تباہ کردیتے ہیں یوں یہ بچہ پولیو کی بیماری سے محفوظ رہتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے 17جنوری 2014 کو ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں دنیا بھر میں پولیو سے متاثرہ ممالک میں پاکستان کا بھی نمبر تھا۔ اس رپورٹ میں خیبر پختونخواہ کو پولیو کا گڑھ واضح کیا گیا۔ پاکستان میں 2013میں 90بچوں میں پولیو کے مرض کی تشخیص ہوئی جن میں سے 17متاثرہ بچوں کا تعلق قبائلی علاقہ جات سے ہے۔ پاکستان میں پولیو کا پہلا مرض 1988میں سامنے آیا۔ اسکےبعد عالمی ادارہ صحت کی کاوشوں سے 1994میں بے نظیر کے دور حکومت میں پہلی دفعہ عوامی سطح پر پولیو کے قطرے پلانے کے لئے گورنمنٹ اساتذہ اور گورنمنٹ اسکولوں میں انتظام کیا گیا تھا۔

پاکستان میں پولیوورکرر بننا ایک جرم بن گیا ہے۔ پولیو ورکرز کے شہید ہوجانے کے بعد مختلف جماعتوں کی طرف سے حسب عادت مذمتی بیان سامنے آتے ہیں تاہم حالیہ چند برسوں یہ روایت سامنے آئی ہے کہ پولیو ورکرز کی شہادت پر ان کے لواحقین کو کیش انعامات کی پیش کش کر دی جاتی ہے لیکن پولیو ورکرز کے تحفظ کیلئے کوئی بھی سرگرم عمل نہیں۔پولیو ورکرز کی حفاظت کے لئے پولیس مامور کرنے کے حوالے سے جاری ہونے والے بیانات بھی الیکشن مہم کی طرح نکلے۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی اس ضمن میں شدید تشویش کا اظہار کیا لیکن حکومت پاکستان ان حساس معاملات میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔ اگر ملک پاکستان سے پولیو کا خاتمہ نہیں ہوا تو پولیو فری ممالک پاکستان پر ہر قسم کی پابندی عائد کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں پولیو کی بیماری ایک بار پھر دہشت گردوں کی وجہ سے سر اٹھا رہی ہے۔ انسانیت کے جذبے سے سرشار یہ لوگ یا ان کے اہل خانہ کسی امداد کے منتظر نہیں بلکہ یہ اس دن کا انتظار کر ہے ہیں کہ پاکستان سے اس بیماری کا خاتمہ ہواور انسانیت کا علَم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بلند رہے۔ اب وقت ہے کہ آپ اور ہم اپنے آنے والے بچوں کا مستقبل سنوارنے میں ان کا ساتھ دیں تاکہ پاکستان کا شمار بھی ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں ہو سکے۔
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے۔۔۔۔ آتے ہیں جو کام دوسروں کے

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story