فوجی جوانوں پر حملوں کے بعد وزیر اعظم اور عسکری قیادت میں فوجی آپریشن پر اتفاق ہوگیا تھا وزیر داخلہ
وزیراعظم نےفوجی آپریشن پرقوم کو اعتماد میں لینے کیلئے تقریر بھی تیار کرلی تاہم ایک بار پھر مذاکرات کا راستہ اپنایا گیا
وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے کہا ہے کہ فوجی جوانوں پر پے درپے 2 حملوں کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے عسکری قیادت سے ملاقات کی جس میں فوجی آپریشن پر اتفاق ہوگیا تھا اور اس حوالے سے وزیر اعظم نے تقریر بھی تیار کرلی تھی تاہم ایک بار پھر مذاکرات کا راستہ اپنایا گیا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کا حل مذاکرات ہیں اور طالبان سے مذاکرات پورے خلوص کے ساتھ شروع کئے گئے لیکن مذاکرات تب ہی آگے بڑھ سکتے ہیں جب اس آگ اور خون کے کھیل کو روکا جائے، ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اتفاق رائے کی ضرورت ہے، ہمیں طعنہ دینے والوں نے اپنے دور میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کیوں نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی جوانوں پر پے درپے 2 حملوں کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے عسکری قیادت سے ملاقات کی جس میں فوجی آپریشن پر اتفاق کیا گیا، وزیراعظم نےاس حوالے سے تقریر بھی تیار کرلی تھی لیکن ایک بار پھر مذاکرات کا راستہ اپنایا گیا اور دباؤ کے باوجود مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
چوہدری نثار نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات فی الحال تعطل کا شکار ہیں لیکن کمیٹی اپنی جگہ قائم ہے اور ان گروپوں سے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا جو مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے طالبان کمیٹی کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ طالبان کمیٹی نے بھی خلوص سے ملک میں قیام امن کے لئے کوششیں کیں اور ان کا رویہ بھی مثبت تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ستمبر سے لے کر آج تک کوئی فوجی کارروائی نہیں کی، حکومت اور کون سی جنگ بندی کرے، جو بھی فیصلے کئے جاتے ہیں اتفاق رائے اور مشاورت سے کئے جاتے ہیں لیکن پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی استعداد کار پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے اور فوج سے ان کے تحفظ کا حق کوئی نہیں چھین سکتا۔
وزیر داخلہ کا عمران فاروق کیس کے حوالے سے کہنا تھا کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس اہم مسئلہ ہے، برطانیہ نے لیگل اسسٹنٹ کی لئے پہلے جو درخواست دی تھی وہ واپس لے لی تھی تاہم لیگل اسسٹنٹ کی دوبارہ درخواست دی ہے جس پر قانونی ماہرین سے رائے لے رہے ہیں جس کے بعد برطانیہ کو جواب دیں گے اور اس سے قوم کو بھی آگاہ کریں گے۔ اسلام آباد میں کالعدم تنظیموں کی موجودگی کے ڈی جی کرائسز مینجمنٹ سیل کے بیان کی تصیح کرتے ہوئے چوہدری نثارکا کہنا تھا کہ ان کی یہ بریفنگ عمومی تھی اور اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس سے غلط تاثر قائم ہو، اسلام آباد ایک محفوظ شہر ہے اور پچھلے 7 ماہ میں وفاقی دارالحکومت میں دہشت گردی کا صرف ایک واقعہ بارہ کہو میں ہی پیش آیا جس کے تانے بانے جنوبی وزیرستان سے ملتے ہیں تاہم دارالحکومت سمیت پورے ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لئے ہم کوشاں ہیں۔
چوہدری نثار نے کہا کہ اسلام آباد کو محفوظ بنانے کے لئے سیف سٹی منصوبے کا آغاز آئندہ چند ہفتوں میں عدالتی منظوری سے ہوگا جس کے تحت شہر میں نگرانی کے لئے 1500 خفیہ کیمرے لگائے جائیں گے اور اندرونی سلامتی پالیسی چاروں صوبوں سے شیئر کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے 6 ماہ میں حالات پر قابو پانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں، اپنی سیکیورٹی فورسز کو جدید ہتھیاروں سے لیس کر رہے ہیں، سیکیورٹی کے لئے چین سے درآمد سامان جلد پولیس کے حوالے کیا جائے گا اور بم ناکارہ بنانے کے لئے روبوٹ گاڑیاں لائی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن میں ہزاروں ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا جس سے صورتحال بہتر ہوئی لیکن بہتری کی اب بھی بہت گنجائش ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کا حل مذاکرات ہیں اور طالبان سے مذاکرات پورے خلوص کے ساتھ شروع کئے گئے لیکن مذاکرات تب ہی آگے بڑھ سکتے ہیں جب اس آگ اور خون کے کھیل کو روکا جائے، ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اتفاق رائے کی ضرورت ہے، ہمیں طعنہ دینے والوں نے اپنے دور میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کیوں نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی جوانوں پر پے درپے 2 حملوں کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے عسکری قیادت سے ملاقات کی جس میں فوجی آپریشن پر اتفاق کیا گیا، وزیراعظم نےاس حوالے سے تقریر بھی تیار کرلی تھی لیکن ایک بار پھر مذاکرات کا راستہ اپنایا گیا اور دباؤ کے باوجود مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
چوہدری نثار نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات فی الحال تعطل کا شکار ہیں لیکن کمیٹی اپنی جگہ قائم ہے اور ان گروپوں سے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا جو مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے طالبان کمیٹی کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ طالبان کمیٹی نے بھی خلوص سے ملک میں قیام امن کے لئے کوششیں کیں اور ان کا رویہ بھی مثبت تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ستمبر سے لے کر آج تک کوئی فوجی کارروائی نہیں کی، حکومت اور کون سی جنگ بندی کرے، جو بھی فیصلے کئے جاتے ہیں اتفاق رائے اور مشاورت سے کئے جاتے ہیں لیکن پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی استعداد کار پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے اور فوج سے ان کے تحفظ کا حق کوئی نہیں چھین سکتا۔
وزیر داخلہ کا عمران فاروق کیس کے حوالے سے کہنا تھا کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس اہم مسئلہ ہے، برطانیہ نے لیگل اسسٹنٹ کی لئے پہلے جو درخواست دی تھی وہ واپس لے لی تھی تاہم لیگل اسسٹنٹ کی دوبارہ درخواست دی ہے جس پر قانونی ماہرین سے رائے لے رہے ہیں جس کے بعد برطانیہ کو جواب دیں گے اور اس سے قوم کو بھی آگاہ کریں گے۔ اسلام آباد میں کالعدم تنظیموں کی موجودگی کے ڈی جی کرائسز مینجمنٹ سیل کے بیان کی تصیح کرتے ہوئے چوہدری نثارکا کہنا تھا کہ ان کی یہ بریفنگ عمومی تھی اور اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس سے غلط تاثر قائم ہو، اسلام آباد ایک محفوظ شہر ہے اور پچھلے 7 ماہ میں وفاقی دارالحکومت میں دہشت گردی کا صرف ایک واقعہ بارہ کہو میں ہی پیش آیا جس کے تانے بانے جنوبی وزیرستان سے ملتے ہیں تاہم دارالحکومت سمیت پورے ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لئے ہم کوشاں ہیں۔
چوہدری نثار نے کہا کہ اسلام آباد کو محفوظ بنانے کے لئے سیف سٹی منصوبے کا آغاز آئندہ چند ہفتوں میں عدالتی منظوری سے ہوگا جس کے تحت شہر میں نگرانی کے لئے 1500 خفیہ کیمرے لگائے جائیں گے اور اندرونی سلامتی پالیسی چاروں صوبوں سے شیئر کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے 6 ماہ میں حالات پر قابو پانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں، اپنی سیکیورٹی فورسز کو جدید ہتھیاروں سے لیس کر رہے ہیں، سیکیورٹی کے لئے چین سے درآمد سامان جلد پولیس کے حوالے کیا جائے گا اور بم ناکارہ بنانے کے لئے روبوٹ گاڑیاں لائی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن میں ہزاروں ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا جس سے صورتحال بہتر ہوئی لیکن بہتری کی اب بھی بہت گنجائش ہے۔