سیاسی زور آزمائی

سیاست میں ہنگامہ آرائی سے سیاست کی رونقیں بحال رہتی ہیں ورنہ سیاست تو کوئی اتنا خاص رونق والا کام نہیں

atharqhasan@gmail.com

CARACAS, VENEZUELA:
پاکستان کے کھیل کے میدانوں میں ایک مدت کے بعد رونق لگی ہے لاہور کا قذافی اسٹیڈیم تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرارہا ' دنیا بھر سے مختلف ملکوں کے کھلاڑیوں نے پاکستان سپر لیگ میں شرکت کی اور پاکستانی تماشائیوں کو محضوظ کیا۔

ایک میچ مجھے بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ سیکیورٹی اور رہنمائی کے انتہائی اعلیٰ انتظامات دیکھنے میں آئے' قذافی اسٹیڈیم کے اطراف میں ٹریفک بھی رواں دواں رہی اور تماشائی بھی باآسانی اسٹیڈیم میں پہنچتے رہے ۔ اسٹیڈیم تک پہنچنے کے لیے وافر تعداد میں بسوں کا اہتمام بھی تھا۔

حکومت کے اعلیٰ سیکیورٹی انتظامات کی وجہ سے اب دنیائے کرکٹ کی مختلف ٹیمیں پاکستان میں آ کر کھیلنے پر اپنی رضا مندی کا اظہار کر رہی ہیں۔ آسٹریلیا کی ٹیم چوبیس برس کے بعد اسلام آباد پہنچ چکی ہے ۔پاکستان میں کھیل کے میدان ایک بار پھر آباد ہو رہے ہیں جو انتہائی خوش کن بات ہے۔ کرکٹ کے اعلیٰ انتظامات اورپاکستان کا پرا من چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے پر حکومت کی تحسین میں یہ چند سطریں لکھ دی ہیں تا کہ سند رہیں۔

کرکٹ کا ہنگامہ تو فی الحال ختم ہو گیا ہے لیکن سیاست کا ہنگامہ بھی لاہور میں جاری ہے۔ چوہدری برادران کا سیاسی ڈیرہ قذافی اسٹیڈیم کے قریب ہی واقع ہے۔ چوہدریوں کی سیاست اور روایتی مہمان نوازی سے سیاسی مہمان لطف اندوز ہورہے ہیں لیکن ان مہمانوں کو وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے متعلق چوہدری برادران کی حمایت کے بارے میں ابھی تک کوئی واضح جواب نہیں مل سکا، اس کی و جہ شائد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سیاست میں اب نوجوان چوہدری بھی وارد ہو چکے ہیں اور وہ سیاست کو جوان دل و دماغ کے ساتھ دیکھ اور پرکھ رہے ہیں' چوہدری پرویز الٰہی سے اپوزیشن کا جو بھی رہنماء ملاقات کر رہا ہے، وہ پارٹی مشاورت کے بعد فیصلے سے آگاہی کی بات کررہے ہیں۔

چوہدری شجاعت حسین اورپرویز الٰہی منجھے ہوئے اور زیرک سیاستدان ہیں، ان کی ملکی سیاست پرہمیشہ گہری نظر رہی ہے، وہ اپنے سیاسی تجربے دور اندیشی کی بدولت یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم کا جو ڈول ڈالا جارہا ہے اس میں ان کی پارٹی ق لیگ کی اہمیت مسلمہ ہے اور ترپ کا پتا ان کے ہاتھ میں ہے، اس لیے وہ بار بارمشاورت کی بات کر کے کسی حتمی فیصلے گریزاں ہیں ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام نے اپنے نمایندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کر کے حکمرانی کا مینڈیٹ دیا ہے اور پانچ سال سے پہلے حکومت کو رخصت کرنا جمہوری اور پارلیمانی روایات کوپامال کرنا ہے۔

سیاست میں ہنگامہ آرائی سے سیاست کی رونقیں بحال رہتی ہیں ورنہ سیاست تو کوئی اتنا خاص رونق والا کام نہیں، آجکل سیاسی جماعتوں نے خوب رونق لگائی ہوئی ہے اور عوام کو مصروف رکھا ہوا ہے، ہر محفل میں عدم اعتماد کے متعلق بھانت بھانت کے تبصرے ، پیشن گوئیاں اور فیصلے صادر کیے جا رہے ہیں اور ان کے ذریعے اپنی خواہشات کی تسکین کی کوشش کی جارہی ہے لیکن لگتا ہے کہ ہونا وہی ہے جو اس ملک میں ہوتا آیا ہے یعنی جو پیامن چاہے وہی ہو گا۔ہمارے سیاسی بزرجمہر اپنی سیاسی بازی گریوں کا مظاہرہ تو کرتے ہی رہتے ہیں اور عوام کو دکھاتے رہتے ہیں ۔


اپوزیشن نے مولانا فضل الرحمن کی 'قیادت' میں جو ہنگامہ سیاست شروع کر رکھا ہے آئے روزسیاسی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے، سیاسی دشمن اوردوست عمران خان کی دشمنی میں اکٹھے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے کراچی سے لانگ مارچ کا آغاز کر دیا ۔بلاول بھٹو نے بھی تحریک عدم اعتماد کے بعد فوری الیکشن کی بات کر کے ن لیگ کے موقف کی تائید کر دی ہے ۔

ن لیگ تو ہمیشہ یہ کہتی آرہی ہے کہ عدم اعتماد کے کامیاب ہونے کے بعد وہ اسمبلی کی باقی ماندہ مدت کے لیے کسی نئے سیٹ اپ کے حق میں نہیں ہے بلکہ وہ فی الفور الیکشن چاہتی ہے تاکہ حکومت اور عوام کے درمیان مہنگائی کا جو میچ چل رہا ہے ،فوری انتخابات کا نتیجہ اپوزیشن کے حق میں نکلے گا ۔

حالات و واقعات کے مطابق حکومت اپنی اپوزیشن خود ہے، آئے روز اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ اس پر مہر ثبت کررہا ہے لیکن دوسری جانب ہوشرباء مہنگائی کے باوجود اپوزیشن عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ جس وقت بھی اپوزیشن عوام کو یہ باورکرانے میں کامیاب ہو گئی کہ ان کی زندگی میں مشکلات کا سبب تحریک انصاف کا برا طرزحکمرانی ہے تو اپوزیشن کی کامیابی کا سفر شروع ہو جائے گا کیونکہ جب تک حکومت کی مخالفت میں عوام اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیں گے، اپوزیشن کا کاروبار صرف بیانات تک ہی محدود رہے گا۔

سیاست کی اس گھمبیر صورتحال میں ابھی تک حکومت کو ستے خیراں دکھائی دے ر ہی ہے، حکومتی سطح پر جو بیانات سنائی دے رہے ہیں وہ اپوزیشن کو کھلا چیلنج کر رہے ہیں کہ اگر اپوزیشن میں ہمت ہے تو وہ تحریک عدم اعتماد لے آئے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی کوئی حتمی تاریخ دینے سے گریز کر رہے ہیں ۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی باقی پارٹیوں نے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل شروع کر دیا ہے۔

بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہی تو عمران خان کو شکست ہو گی 'ق لیگ اور ایم کیو ایم گو مگو کی کیفیت میں جب کہ جہانگیر ترین خر ابی صحت کی وجہ سے لندن پہنچ چکے ہیں، اس صورتحال میں تحریک عدم اعتماد کا بوجھ اکیلی ن لیگ کے کندھے پر آن پڑا ہے جو اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کی حامی ہے اور یہی وجہ ہے کہ میاں شہباز شریف لندن میں مقیم اپنے برادر خورد میاں نواز شریف سے مشاورت کے بعد فیصلے کر رہے ہیں جو لندن میں بیٹھ کر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

صورتحال کا شاید اپوزیشن کو بھی اندازہ نہیں اور سیاسی تجزیہ کار بھی ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں ۔ کرکٹ کے میدان میں تو لاہور قلندر کامیاب ہو گئی ہے ، دیکھتے ہیںلاہور کے سیاسی میدان میں موجود قلند رکامیاب ہوتے ہیں یا پھر وہ صرف سیاسی دھمال ہی ڈالتے رہیں گے۔
Load Next Story