امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ کا دورۂ پاکستان
امریکا کے ساتھ کھل کر معاملات طے کرنے چاہئیں تا کہ پاکستان اس خطے میں اپنی اہمیت برقرار رکھ سکے
امریکی سینٹرل کمانڈ(سینٹ کام)کے سربراہ جنرل جیمز آسٹن نے گزشتہ روز اسلام آباد میں خاصا مصروف دن گزرا ہے۔ انھوں نے چیف آف دی ِآرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف' چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل راشد محمود اور سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جیمز آسٹن کا یہ دورہ پاک افغان صورتحال کے تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگلے برس افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا بھی متوقع ہے۔ امریکا کے صدر بارک اوباما فوجوںکی واپسی کی ڈیڈ لائن دے چکے ہیں۔ افغانستان میں نئے انتخابات بھی سر پر ہیں اور ان انتخابات کے بعد وہاں نئے صدر نے اقتدار سنبھالنا ہے کیونکہ صدر حامد کرزئی افغان آئین کے تحت تیسری مرتبہ صدارتی الیکشن نہیں لڑ رہے ہیں' ادھر پاکستان میں بھی شمالی وزیرستان کے حوالے سے نئے حالات جنم لے سکتے ہیں' یوں دیکھا جائے تو 2013ء اور2014ء کے دونوں برس اس خطے کے لیے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔
گزشتہ روز پاکستان کے سیکریٹری دفاع آصف یاسین ملک اور امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ کی ملاقات کے حوالے سے میڈیا میں آیا ہے کہ پاکستان نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ خطے کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر افغانستان سے نیٹو اور ایساف فورسز کے انخلا کے حوالے سے دی جانے والی ڈیڈ لائن میں جلد بازی نہ کی جائے کیونکہ نیٹو اور ایساف فورسز کے جانے کے بعد افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز اس قابل نہیں ہوں گی کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے کوئی موثر کردار ادا کر سکیں اور اس کے پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اخباری اطلاع میں ذرایع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سیکریٹری دفاع نے کہا کہ امریکا نیٹو فورسز کے افغانستان سے جانے کے بعد پاکستان کے ساتھ نیا معاہدہ کرے جس میں افغان حکومت کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کے سیکریٹری دفاع نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ امریکا افغانستان سے جانے کے بعد بھی پاکستان کے ساتھ اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں معاونت جاری رکھے تا کہ پاکستان خطے میں سیکیورٹی کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے ادا کر سکے۔ پاکستان کی عسکری حکام سے ملاقاتوں کے بعد جنرل لائیڈ واپس روانہ ہو گئے۔ جنرل لائیڈ آسٹن کے اس دورے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور امریکا اس خطے میں پیدا ہونے والے حالات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔
امریکی سفارتخانے نے کہا ہے کہ جنرل لائیڈ جے آسٹن نے امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے دوسرے دورہ پاکستان کے دوران پاکستانی ہم منصبوں سے ملاقاتوں پر اظہار تشکر کرتے ہوئے علاقائی استحکام میں پاک امریکا دفاعی تعلقات کی اہمیت کا اعادہ کیا اور علاقائی سلامتی کے مشترکہ اغراض و مقاصد کو مزید آگے بڑھانے کے لیے کام جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔ آئی این پی نے ایک ٹی وی چینل کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی کمانڈر نے پاکستانی دفاعی حکام سے ملاقاتوں میں افغان طالبان کی جانب سے اغوا کے بعد مبینہ طور پر شمالی وزیرستان میں رکھے گئے اپنے فوجی بوئے برگدال کی رہائی کے حوالے سے مدد طلب کی ہے جب کہ پاکستان نے اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرا دی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ حالات میں افغانستان سے امریکا اور نیٹو کی فوجیں نکلتی ہیں تو یہاں وہی حالات پیدا ہو جائیں گے جو سوویت افواج کی واپسی کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ اس وقت امریکا نے افغانستان اور پاکستان کو اپنی ترجیحات میں بہت نیچے رکھ لیا تھا' اس وقت اگر امریکی انتظامیہ افغانستان پر توجہ دیتی تو یہ ملک اب تک سیاسی طور پر مستحکم ہو چکا ہوتا۔اور پاکستان میں بھی امن ہوتا۔ ادھر اس وقت کے پاکستانی پالیسی سازوں نے بھی اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے وہ اقدامات نہیں کیے' جو ایران نے کیے تھے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے تھا کہ وہ افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی اور پھر سرحد جنگ کے خاتمے کے اعلان اور سوویت یونین کی تحلیل جیسے غیر معمولی اور تاریخ ساز واقعات کے بعد اپنی خارجہ' داخلہ اور معاشی پالیسیوں میں اساسی تبدیلی لاتی۔ پرانی دوستیوں اور دشمنیوں پر نظر ثانی کی جاتی۔
مشرق کی جانب جو پالیسی آج وضح کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں' وہ 1990ء سے شروع ہو جاتیں تو آج اس خطے کے حالات کچھ اور ہوتے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود غیر ملکیوں کے انخلا کے لیے اس وقت مشرق وسطیٰ کے ممالک سے کوئی معاملہ طے ہو جاتا تو آج فاٹا بھی پر امن ہوتا' بہر حال اب اگر پاکستان نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ افغانستان سے نکلتے وقت جلد بازی نہ کرے اور پاکستان کے ساتھ نیا معاہدہ کرے جس سے افغانستان کا تعلق نہ ہو تو یہ بروقت اقدام ہے۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ افغان نیشنل آرمی امریکا اور نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد ملک کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہے' یوں یہاں حالات مزید خراب ہوں گے۔ پاکستان کا اس نئی صورت حال میں کیا کردار ہونا چاہیے' اس کے لیے ابھی سے پورا فریم ورک تیار ہونا چاہیے اور امریکا کے ساتھ کھل کر معاملات طے کرنے چاہئیں تا کہ پاکستان اس خطے میں اپنی اہمیت برقرار رکھ سکے اور اس کے اس کردار سے ہمسایہ ممالک بھی مطمئن ہوں۔
گزشتہ روز پاکستان کے سیکریٹری دفاع آصف یاسین ملک اور امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ کی ملاقات کے حوالے سے میڈیا میں آیا ہے کہ پاکستان نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ خطے کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر افغانستان سے نیٹو اور ایساف فورسز کے انخلا کے حوالے سے دی جانے والی ڈیڈ لائن میں جلد بازی نہ کی جائے کیونکہ نیٹو اور ایساف فورسز کے جانے کے بعد افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز اس قابل نہیں ہوں گی کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے کوئی موثر کردار ادا کر سکیں اور اس کے پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اخباری اطلاع میں ذرایع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سیکریٹری دفاع نے کہا کہ امریکا نیٹو فورسز کے افغانستان سے جانے کے بعد پاکستان کے ساتھ نیا معاہدہ کرے جس میں افغان حکومت کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کے سیکریٹری دفاع نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ امریکا افغانستان سے جانے کے بعد بھی پاکستان کے ساتھ اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں معاونت جاری رکھے تا کہ پاکستان خطے میں سیکیورٹی کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے ادا کر سکے۔ پاکستان کی عسکری حکام سے ملاقاتوں کے بعد جنرل لائیڈ واپس روانہ ہو گئے۔ جنرل لائیڈ آسٹن کے اس دورے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور امریکا اس خطے میں پیدا ہونے والے حالات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔
امریکی سفارتخانے نے کہا ہے کہ جنرل لائیڈ جے آسٹن نے امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے دوسرے دورہ پاکستان کے دوران پاکستانی ہم منصبوں سے ملاقاتوں پر اظہار تشکر کرتے ہوئے علاقائی استحکام میں پاک امریکا دفاعی تعلقات کی اہمیت کا اعادہ کیا اور علاقائی سلامتی کے مشترکہ اغراض و مقاصد کو مزید آگے بڑھانے کے لیے کام جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔ آئی این پی نے ایک ٹی وی چینل کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی کمانڈر نے پاکستانی دفاعی حکام سے ملاقاتوں میں افغان طالبان کی جانب سے اغوا کے بعد مبینہ طور پر شمالی وزیرستان میں رکھے گئے اپنے فوجی بوئے برگدال کی رہائی کے حوالے سے مدد طلب کی ہے جب کہ پاکستان نے اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرا دی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ حالات میں افغانستان سے امریکا اور نیٹو کی فوجیں نکلتی ہیں تو یہاں وہی حالات پیدا ہو جائیں گے جو سوویت افواج کی واپسی کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ اس وقت امریکا نے افغانستان اور پاکستان کو اپنی ترجیحات میں بہت نیچے رکھ لیا تھا' اس وقت اگر امریکی انتظامیہ افغانستان پر توجہ دیتی تو یہ ملک اب تک سیاسی طور پر مستحکم ہو چکا ہوتا۔اور پاکستان میں بھی امن ہوتا۔ ادھر اس وقت کے پاکستانی پالیسی سازوں نے بھی اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے وہ اقدامات نہیں کیے' جو ایران نے کیے تھے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے تھا کہ وہ افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی اور پھر سرحد جنگ کے خاتمے کے اعلان اور سوویت یونین کی تحلیل جیسے غیر معمولی اور تاریخ ساز واقعات کے بعد اپنی خارجہ' داخلہ اور معاشی پالیسیوں میں اساسی تبدیلی لاتی۔ پرانی دوستیوں اور دشمنیوں پر نظر ثانی کی جاتی۔
مشرق کی جانب جو پالیسی آج وضح کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں' وہ 1990ء سے شروع ہو جاتیں تو آج اس خطے کے حالات کچھ اور ہوتے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود غیر ملکیوں کے انخلا کے لیے اس وقت مشرق وسطیٰ کے ممالک سے کوئی معاملہ طے ہو جاتا تو آج فاٹا بھی پر امن ہوتا' بہر حال اب اگر پاکستان نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ افغانستان سے نکلتے وقت جلد بازی نہ کرے اور پاکستان کے ساتھ نیا معاہدہ کرے جس سے افغانستان کا تعلق نہ ہو تو یہ بروقت اقدام ہے۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ افغان نیشنل آرمی امریکا اور نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد ملک کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہے' یوں یہاں حالات مزید خراب ہوں گے۔ پاکستان کا اس نئی صورت حال میں کیا کردار ہونا چاہیے' اس کے لیے ابھی سے پورا فریم ورک تیار ہونا چاہیے اور امریکا کے ساتھ کھل کر معاملات طے کرنے چاہئیں تا کہ پاکستان اس خطے میں اپنی اہمیت برقرار رکھ سکے اور اس کے اس کردار سے ہمسایہ ممالک بھی مطمئن ہوں۔