میں نہ مانوں
اپوزیشن کو حکومت کے اچھے کاموں میں بھی خامیاں نظر آتی ہیں
لاہور:
یہ لطیفہ تو آپ سب نے سن رکھا ہوگا کہ ایک بزرگ گھر پہنچے تو بیوی نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ بزرگی یہ نہیں کہ گھنٹوں عبادت کی جائے بلکہ کمال بزرگی تو اس بندے کی ہے جو آج ہمارے گھر کی چھت پر سے اڑتے ہوئے گزرا۔
''کیا واقعی یہ کمال بزرگی ہے؟'' انہوں نے پوچھا۔
''جی ہاں۔'' بیگم صاحبہ نے جواب دیا۔
''شاید آپ نے غور نہیں کیا، وہ میں ہی تھا۔''
''اچھا تو اسی وجہ سے ترچھے اڑ رہے تھے۔'' بیگم نے اپنی خفت مٹانے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔
اگرچہ یہ بہت پرانا لطیفہ ہے مگر یہ کم و بیش پاکستان کی ہر اپوزیشن پر صادق آتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اپوزیشن حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف کرے اور غلط کاموں پر تنقید برائے اصلاح کرے۔ مگر بدقسمتی سے ہماری اپوزیشن اس کا الٹ رویہ رکھتی ہے۔ انہیں حکومت کے اچھے کاموں میں بھی خامیاں نظر آتی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال حکومت کا حالیہ عوام دوست فیصلہ ہے۔
گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں خوشخبری سناتے ہوئے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں دس روپے کمی کا اعلان کیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ بجلی بھی فی یونٹ پانچ روپے سستی کرنے کا اعلان کیا۔ اور اسی پر بس نہیں، خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ آئندہ بجٹ تک پٹرول، ڈیزل اور بجلی مزید مہنگی نہیں کی جائے گی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن حکومت کے اس عوام دوست فیصلے کی تعریف کرتی کیونکہ ایسے وقت میں حکومت نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا ہے جب دنیا بھر میں یوکرین روس تنازعے کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ حکومت نے بہترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے تیل کی قیمتوں کو کم کردیا۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے''۔ لیکن افسوس ناک امر یہ ہے اپوزیشن حکومت کے اس بہترین انتظامی فیصلے میں بھی یہ کہہ کر کیڑے نکال رہی ہے کہ گزشتہ تین سال میں قیمت بڑھائی گئی ہے، اب کمی کرنے کا کیا فائدہ۔ یعنی اگر تم اڑ رہے تھے تو پھر ٹیڑھے اڑ رہے تھے۔ حالانکہ ہر ذی شعور یہ بات جانتا ہے کہ اگر اس موقعے پر حکومت عقلمندی کا مظاہرہ نہ کرتی تو یقینی طور پر پاکستان میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں 200 روپے فی لیٹر سے زائد ہوسکتی تھیں۔ اور اپوزیشن گویا اس موقع کو کیش کروانے کےلیے انتظار کررہی تھی مگر...
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اپوزیشن نے حکومت کی حب الوطنی کو منفی اندازمیں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ گزشتہ ہفتے خان صاحب کے دورۂ روس کے موقع پر منفی پروپیگنڈہ کیا گیا۔ حالانکہ خان صاحب کا دورہ روس پاکستان کےلیے دوررس نتائج کا حامل ہے، مگر اپوزیشن نے اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ عمران خان پی ٹی آئی کے لیڈر بعد میں پاکستان کے وزیراعظم پہلے ہیں، عوام کو گمراہ کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اس سلسلے میں یورپ میں موجود پاکستانیوں کو بطور آڑ استعمال کرنے کی کوشش کی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اپوزیشن ذاتی مفاد کے بجائے ملکی مفاد کی سیاست کرے۔ اپنی مثبت تجاویز پر عمل کرنے کےلیے حکومت حاصل کرنے کی کوششوں کے بجائے اپنی مثبت اور عوامی خدمت کی تجاویز حکومت وقت کو پیش کرے۔ کیونکہ پی پی پی اور ''ن لیگ'' دونوں طویل عرصے تک اقتدار میں رہ کر عوام کی خدمت کرچکی ہیں اور خلق خدا (ایک بڑے حصے) کا یہ خیال ہے کہ آج وطن عزیز کی یہ دگرگوں حالت انہی کی بدولت ہے جو مسیحا بننے کے خواہشمند ہیں (اس سلسلے میں وہ لندن اور دیگر ملکوں میں جائیدادوں کو بطور ثبوت پیش کرتے ہیں ) اور اس کی تازہ ترین مثال کراچی کی صورتحال ہے، جہاں پر پی پی پی گذشتہ 15سال سے بلا شرکت غیرے اقتدار کی مالک ہے۔
لیکن افسوس صد افسوس، روشنیوں کا شہر چور، اچکوں، ڈاکو، لٹیروں کا شہربن چکا ہے۔ اسٹریٹ کرائمز کی یہ حالت ہے کہ سندھ سرکار حالت درست کرنے کے بجائے صرف جرائم کی بڑھوتری کو تسلیم کرنے پر ہی اکتفا کررہی ہے۔ اور رہی بات ''مسلم لیگ ن'' کی، تو میاں صاحب کا یہ جملہ ہی کافی ہے کہ ترقی دیکھنی ہے تو لاہور آؤ۔ اور یہ بات بڑے میاں صاحب کسی دوسرے ملک میں نہیں پاکستان میں ہی کھڑے ہوکر فرمایا کرتے تھے۔ یعنی ان کا فوکس صرف لاہور ہی تھا، لاہور کے علاوہ باقی ملک میں بچیاں بھلے قبرستان میں پڑھیں یا قبرستان کے باہر سڑک پر، انہیں شاید ہی اس کی پریشانی ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ لطیفہ تو آپ سب نے سن رکھا ہوگا کہ ایک بزرگ گھر پہنچے تو بیوی نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ بزرگی یہ نہیں کہ گھنٹوں عبادت کی جائے بلکہ کمال بزرگی تو اس بندے کی ہے جو آج ہمارے گھر کی چھت پر سے اڑتے ہوئے گزرا۔
''کیا واقعی یہ کمال بزرگی ہے؟'' انہوں نے پوچھا۔
''جی ہاں۔'' بیگم صاحبہ نے جواب دیا۔
''شاید آپ نے غور نہیں کیا، وہ میں ہی تھا۔''
''اچھا تو اسی وجہ سے ترچھے اڑ رہے تھے۔'' بیگم نے اپنی خفت مٹانے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔
اگرچہ یہ بہت پرانا لطیفہ ہے مگر یہ کم و بیش پاکستان کی ہر اپوزیشن پر صادق آتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اپوزیشن حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف کرے اور غلط کاموں پر تنقید برائے اصلاح کرے۔ مگر بدقسمتی سے ہماری اپوزیشن اس کا الٹ رویہ رکھتی ہے۔ انہیں حکومت کے اچھے کاموں میں بھی خامیاں نظر آتی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال حکومت کا حالیہ عوام دوست فیصلہ ہے۔
گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں خوشخبری سناتے ہوئے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں دس روپے کمی کا اعلان کیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ بجلی بھی فی یونٹ پانچ روپے سستی کرنے کا اعلان کیا۔ اور اسی پر بس نہیں، خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ آئندہ بجٹ تک پٹرول، ڈیزل اور بجلی مزید مہنگی نہیں کی جائے گی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن حکومت کے اس عوام دوست فیصلے کی تعریف کرتی کیونکہ ایسے وقت میں حکومت نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا ہے جب دنیا بھر میں یوکرین روس تنازعے کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ حکومت نے بہترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے تیل کی قیمتوں کو کم کردیا۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے''۔ لیکن افسوس ناک امر یہ ہے اپوزیشن حکومت کے اس بہترین انتظامی فیصلے میں بھی یہ کہہ کر کیڑے نکال رہی ہے کہ گزشتہ تین سال میں قیمت بڑھائی گئی ہے، اب کمی کرنے کا کیا فائدہ۔ یعنی اگر تم اڑ رہے تھے تو پھر ٹیڑھے اڑ رہے تھے۔ حالانکہ ہر ذی شعور یہ بات جانتا ہے کہ اگر اس موقعے پر حکومت عقلمندی کا مظاہرہ نہ کرتی تو یقینی طور پر پاکستان میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں 200 روپے فی لیٹر سے زائد ہوسکتی تھیں۔ اور اپوزیشن گویا اس موقع کو کیش کروانے کےلیے انتظار کررہی تھی مگر...
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اپوزیشن نے حکومت کی حب الوطنی کو منفی اندازمیں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ گزشتہ ہفتے خان صاحب کے دورۂ روس کے موقع پر منفی پروپیگنڈہ کیا گیا۔ حالانکہ خان صاحب کا دورہ روس پاکستان کےلیے دوررس نتائج کا حامل ہے، مگر اپوزیشن نے اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ عمران خان پی ٹی آئی کے لیڈر بعد میں پاکستان کے وزیراعظم پہلے ہیں، عوام کو گمراہ کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اس سلسلے میں یورپ میں موجود پاکستانیوں کو بطور آڑ استعمال کرنے کی کوشش کی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اپوزیشن ذاتی مفاد کے بجائے ملکی مفاد کی سیاست کرے۔ اپنی مثبت تجاویز پر عمل کرنے کےلیے حکومت حاصل کرنے کی کوششوں کے بجائے اپنی مثبت اور عوامی خدمت کی تجاویز حکومت وقت کو پیش کرے۔ کیونکہ پی پی پی اور ''ن لیگ'' دونوں طویل عرصے تک اقتدار میں رہ کر عوام کی خدمت کرچکی ہیں اور خلق خدا (ایک بڑے حصے) کا یہ خیال ہے کہ آج وطن عزیز کی یہ دگرگوں حالت انہی کی بدولت ہے جو مسیحا بننے کے خواہشمند ہیں (اس سلسلے میں وہ لندن اور دیگر ملکوں میں جائیدادوں کو بطور ثبوت پیش کرتے ہیں ) اور اس کی تازہ ترین مثال کراچی کی صورتحال ہے، جہاں پر پی پی پی گذشتہ 15سال سے بلا شرکت غیرے اقتدار کی مالک ہے۔
لیکن افسوس صد افسوس، روشنیوں کا شہر چور، اچکوں، ڈاکو، لٹیروں کا شہربن چکا ہے۔ اسٹریٹ کرائمز کی یہ حالت ہے کہ سندھ سرکار حالت درست کرنے کے بجائے صرف جرائم کی بڑھوتری کو تسلیم کرنے پر ہی اکتفا کررہی ہے۔ اور رہی بات ''مسلم لیگ ن'' کی، تو میاں صاحب کا یہ جملہ ہی کافی ہے کہ ترقی دیکھنی ہے تو لاہور آؤ۔ اور یہ بات بڑے میاں صاحب کسی دوسرے ملک میں نہیں پاکستان میں ہی کھڑے ہوکر فرمایا کرتے تھے۔ یعنی ان کا فوکس صرف لاہور ہی تھا، لاہور کے علاوہ باقی ملک میں بچیاں بھلے قبرستان میں پڑھیں یا قبرستان کے باہر سڑک پر، انہیں شاید ہی اس کی پریشانی ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔