علاقائی شناختوں کا ظہور
مجھے اس مثال پر تشویش ہے جو کانگریس نے قائم کی ہے اور اسپیکر نے جس انداز سے اس کا ساتھ دیا ہے۔۔۔
بھارت کی علاقائی بخیہ گری ممکن ہے کہ نہ ادھڑے مگر اس کی سیاست کے بخیے یقیناً ادھڑ گئے ہیں۔ مرکزی وزیر آپس میں ستیزہ کار ہیں، بیورو کریٹس کے اندرونی جھگڑے اب باہر نکل آئے ہیں۔ حتیٰ کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں' دی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) آپس میں سینگ پھنسائے ہوئے ہیں۔ بیورو کریسی اور حکمرانوں میں افہام و تفہیم معدوم ہو گئی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وزیر خزانہ پی چدم برم ایک چوٹی کے افسر سے کہتے ہیں کہ تم اپنی انگریزی بہتر کرو جواباً وہ افسر موصوف اپنے محکمے کے وزیر سے وزیر خزانہ کی شکایت کر دیتا ہے۔ ان سب چیزوں پر مگر اس امر کو فوقیت حاصل ہے کہ لوک سبھا میں آندھرا پردیش کی تقسیم کا مسودہ قانون کس بھونڈے انداز سے منظور کرایا گیا ہے۔ لوک سبھا ٹی وی چینل جو ایوان کی کارروائی براہ راست دکھاتا ہے اسے اس مسودہ قانون کی کارروائی نشر کرنے سے روک دیا گیا، جس سے کہ حکومت کی شفافیت کے دعوے کی تردید ہوتی ہے۔ جو اراکین پارلیمنٹ آندھرا پردیش کی تقسیم کے خلاف تھے انھیں بحث میں حصہ لینے کی اجازت ہی نہ دی گئی کیونکہ ان میں سے کم از کم 17 ارکان کو دو روز قبل ہی ایوان سے نکال باہر کیا گیا تھا' ان میں کانگریس کے وزراء بھی شامل ہیں جنہوں نے مسودہ قانون کی منظوری کو نا ممکن بنایا ہوا تھا۔
مجھے اس مثال پر تشویش ہے جو کانگریس نے قائم کی ہے اور اسپیکر نے جس انداز سے اس کا ساتھ دیا ہے۔ کل اگر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدار میں آ گئی اور وہ اقلیتوں پر پابندی عاید کرنے کی خاطر قانون سازی کا فیصلہ کرتی ہے تب اس کو صرف اس بات کی نشاندہی کرنا پڑے گی کہ کانگریس نے بھی تو پارلیمانی جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو عضو معطل کر رکھا تھا۔ تقریباً 50 دن کے لیے عام آدمی پارٹی (عاپ) حکومت میں رہی اور اس نے ''اسٹیٹس کو'' بے نقاب کر دیا جو کہ دو بڑی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی نے قائم کر رکھا تھا اور یہ عمل کم از کم گزشتہ تین عشروں سے جاری تھا۔ ایک لحاظ سے عاپ بھی دہلی میں علاقائی پارٹی کے طور پر برسراقتدار آ گئی تھی جس طرح کہ ممتا بینرجی کی ترینا مول کانگریس مغربی بنگال میں اور نوین پٹناٹک کی بیجو جنتا دل (BJD) اڑیسہ میں ہے۔ بے شک شخصی شناخت کی سیاست جمہوری حکمرانی میں سب سے بڑا خطرہ ہوتی ہے اور بی جے پی نے تقسیم در تقسیم کی سیاست چلا کر جمہوریت کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کا کسی طور مداوا نہیں ہو سکتا حالانکہ آزادی کی جدوجہد کے دوران ہی اجتماعیت کی سیاست کے دعوے اور وعدے کیے گئے تھے۔ گجرات کے وزیراعظم نریندر مودی اپنے انتخابی جلسوں میں ''ہندو توا'' کا پرچار کر کے بہت بڑے بڑے ہجوم اکٹھے کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں مسلمانوں میں عدم تحفظ کے احساسات پیدا ہونا فطری امر ہے جب کہ ''ہندو توا'' کی رٹ زیادہ سے زیادہ لوگوں میں نفرت کے جذبات اجاگر کر رہی ہے۔
اس خطرناک رجحان کو روکنے کے لیے کانگریس میں وہ طاقت نہیں اور نہ ہی وہ قوم کو آئینہ دکھانے کی پوزیشن میں ہے۔ علاقائی پارٹیاں محسوس کرتی ہیں کہ کانگریس جو جگہ خالی کرے گی وہ اسے پر کر لیں گی۔ ممکن ہے وہ ایسا کر سکیں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ بھارت کو اس کے لیے اپنی یکجہتی کی قیمت ادا کرنی پڑے۔ ملکی آئین جو ملک کے تمام حصوں کو باہم متحد رکھنے کا ذمے دار ہے اس کی بعض علاقائی پارٹیاں لفظی اور معنوی اعتبار سے خلاف ورزی کرتی ہیں۔ وفاقی ڈھانچے میں کسی ریاست کی تقسیم کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن اڑیسہ کی صورت حال دیکھ کر بھارتی سیاست کی غلط روی کا واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے۔ یہ ریاست اپنے کردار میں وفاقی ہے لیکن اس پر اقتدار ایک خاندان کا ہے۔ یہ مرکزی حکومت کے احکامات کی شاذو نادر ہی خلاف ورزی کرتی ہے خواہ یہ بسا اوقات مطلق العنانی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے لیکن وزیر اعلیٰ نوین پٹناٹک کی حکومت خاصی شخصی نوعیت کی ہے جو کہ اپنے والد آنجہانی بیجو پٹناٹک کے نقش قدم کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں جس نے متلون مزاجی اور بدعنوانی سے حکومت کی۔ اسے آج بھی اس لیے یاد رکھا جا رہا ہے کہ اس نے اڑیسہ کو ایک شناخت دی جو کہ اب بھی اپنی حیثیت منوانے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ نوین کو دیکھ کر لوگوں کو اس کے باپ کا کردار یاد آتا ہے بھوبنیشور کے دورے کے دوران میں نے سارے شہر میں بڑے بڑے بورڈ لگے دیکھے جس میں بیجو پٹناٹک اپنی انگلی سے نوین کی طرف اشارہ کرتا دکھائی دیتا ہے جیسے کہ کہہ رہا ہو کہ اس کا جانشین اس کا بیٹا ہی ہو گا۔
(وہاں پر ایسے بورڈ بھی تھے جن پر صرف راہول گاندھی کی فوٹو تھی جن میں اس کی ماں سونیا گاندھی بھی شامل نہیں تھی جو کہ کانگریس کی صدر ہیں۔ نہ ہی وزیراعظم من موہن سنگھ اس کے دوسری طرف نظر آ رہے تھے) بالکل اس طرح جس طرح پنجاب میں سُکھ بیر سنگھ بادل' یوپی میں اکھیلاش یادیو یا جموں کشمیر میں فاروق عبداللہ اسی طرح نوین پٹناٹک کی ولدیت اس کا اثاثہ ہے۔ جمہوریت میں پولنگ صرف انتخابات تک ہوتی ہے جس کے بعد ریاستی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت کے دوران برسراقتدار آنے والوں کے لیے عوام کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ جب کہ نوین بیورو کریٹس کے زنبور کی مدد سے اپنی حکومت چلاتا ہے اور عوام جو اس کے ووٹر ہیں بے بسی اور بے کَسی میں مبتلا رہتے ہیں۔ نوین کی برائی کا اصل پہلو یہ ہے کہ اس نے بڑے سوچے سمجھے طریقے سے اپنی پارٹی سے چوٹی کے سیاستدانوں کا مکمل صفایا کر دیا ہے اور یوں وہ اپنے تئیں ناگزیر حیثیت اختیار کر گیا ہے درحقیقت اس کی اصل طاقت یہی ہے کہ اس کی پارٹی میں صحیح معنوں میں کوئی لیڈر رہا ہی نہیں اور نہ ہی اس کی مخالف پارٹی کانگریس میں کوئی قد آور شخصیت موجود ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ جے کی پٹناٹک نے کانگریس میں برپا دھینگا مشتی کی بنا پر اپنے لیے آسام کی گورنر شپ کو زیادہ ترجیح دی ہے۔ مگر جس چیز نے مجھے حیران کیا وہ یہ تھی کہ ریاست میں عاپ کی طرف سے کسی سسکی کی آواز بھی نہیں آئی۔ میرا خیال تھا کہ اڑیسہ کی ریاست جہاں پر کہ کوئی برائے نام حزب اختلاف بھی نہیں ہے' عاپ کے لیے ایک مثالی جگہ ثابت ہو گی۔
لیکن لگتا ہے کہ یہ پارٹی دہلی' مغربی یوپی' ہریانہ اور راجستھان کے بعض علاقوں کے علاوہ اور کہیں نہیں پہنچی۔ اس میں شک نہیں کہ اس پارٹی کی پیدائشی اور دہلی پر اس کے اقتدار نے مثالیت پسندی کا ایک ذائقہ پیدا کر دیا تھا۔ لیکن پھر ارون کیجریوال پوری پارٹی کی علامت بن گیا۔ اس نے کسی دوسرے کو منظرعام پر آنے کی اجازت ہی نہیں دی۔ در حقیقت اس کی بعض بے ڈھنگی حرکات نے اہل دانش کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے جو اس کی شخصیت میں ایک متبادل قیادت کا عکس دیکھ رہے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ لوک سبھا کا الیکشن لڑنے کے لیے بعض دیگر نام بھی منظر عام پر آئے ہیں۔ انھیں ایک اجتماعی قیادت کی ضرورت پر زور دینا چاہیے۔ درجنوں این جی اوز جن کا ریکارڈ کیجریوال سے بھی کہیں زیادہ قابل رشک ہے وہ عاپ سے ایک فاصلے پر ہیں۔ ان کو اس پارٹی میں شامل ہونے کے لیے راغب کیا جانا چاہیے اور اسے ہزاروں خاموش لوگوں کے لیے ایک وسیع پلیٹ فارم بنا دینا چاہیے۔ مزید برآں عاپ کو اب اپنا اقتصادی ایجنڈا بھی پیش کرنا چاہیے کیونکہ لوگوں نے اسے کانگریس اور بی جے پی کے مقابلے میں ووٹ دیے تھے۔
عاپ نے قدرتی گیس کی قیمتوں کے بارے میں مرکزی حکومت کی پالیسی کو بے نقاب کر کے اچھا کام کیا ہے۔ ایک نجی کمپنی نے 2017ء تک گیس کو 2.5 ڈالر بی ٹی یو خریدنے کے معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں لیکن اس کے باوجود گیس کی قیمت میں8 ڈالر بی ٹی یو کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ وزیر پٹرولیم ویراپا موئلی، جس نے قیمتوں میں اضافے کا دفاع کیا ہے خود اس سکینڈل میں اس کے ملوث ہونے کا پول کھول دیا ہے اور من موہن سنگھ حکومت کا یہ ایک اور بڑا سکینڈل ہے جب کہ حکومت کی میعاد میں اب صرف دو مہینے باقی رہ گئے ہیں۔ سب سے بڑا ایشو کرپشن ہی بن چکی ہے اور اس کا نشانہ کانگریس ہی بنے گی جس کے پہلے بھی ان گنت سکینڈل موجود ہیں۔ دوسری پارٹی نے فرقہ واریت کو سب سے بڑا مسئلہ بنا دیا ہے لہٰذا یہ لازمی ہے کہ کرپشن اور فرقہ واریت کا اجتماعیت اور شفافیت کے ساتھ مقابلہ کیا جائے۔عاپ اس مسئلے کو کامیاب بنا سکتی ہے بشرطیکہ اس کے اپنے اندر کوئی تضادات نہ پیدا ہو جائیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)