شام کے لیے پیغام

فی الوقت بشار الاسد کو اپنا بستر باندھنے کا پیغام دے دیا گیا ہے۔۔۔

nusrat.javeed@gmail.com

بہت عرصہ ہوا اسلامی جمہوریہ پاکستان نے جو خیر سے مسلم اُمہ کی واحد ایٹمی قوت بھی ہوا کرتی ہے ،کسی بین الاقوامی مسئلے میں کوئی کردار ادا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھ کر دہی کھانے والا یہ رویہ اس وقت بہت عجیب نظر آتا ہے، جب آپ یاد کریں کہ اپنے قیام کے ابتدائی برسوں ہی میں پاکستان نے عالمی حوالوں سے بڑا اہم مقام حاصل کر لیا تھا۔ پطرس بخاری گورنمنٹ کالج چھوڑ کر ہمارے مستقل نمایندہ بن کر نیویارک چلے گئے۔ لکھنا انھوں نے عرصہ ہوا چھوڑ رکھا تھا۔ بقول سعادت حسن منٹو وہ انڈا نہ دینے والی ''کُڑک مرغی'' ہو چکے تھے۔ مگر کوئی بھی اہم معاملہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش ہوتا تو وہ انگریزوں سے بہتر انگریز ی بولتے ہوئے اس موضوع پر دھواں دھار تقاریر فرماتے۔ تیونس اور الجزائر کو آزاد کرانے میں بھی پاکستان نے بڑا اہم سفارتی کردار ادا کیا۔ اگرچہ وہ کردار جس شخص کے ذمے سونپا گیا اس کا نام میں خوفِ فسادِ خلق سے لکھنا نہیں چاہوں گا۔

فیلڈ مارشل ایوب خان نے جب پاکستان کی جان بدعنوان اور نااہل سیاستدانوں سے چھڑوا کر اسے سیدھے راستے پر ڈالنا شروع کیا تو پاکستان سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں میں کہیں زیادہ متحرک ہو گیا۔ ان فوجی اتحادوں کی بدولت ہمیں جدید ترین امریکی اسلحہ ملا۔ وہ جب کافی مقدار میں ہمیں میسر ہو گیا تو ایوب خان نے ''پاکستان کی شہ رگ'' کو آزاد کرانے کی ٹھان لی۔ بزدل اور مکار بھارت نے مگر 6ستمبر 1965ء کی صبح لاہور پر حملہ کر دیا۔ قوم اپنا ملک بچانے کے لیے متحد ہو گئی۔ مگر امریکا ناراض ہو گیا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ ہماری فوج کو سوویت یونین اور کمیونسٹ بلاک کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کر رہا تھا۔ اس وقت مگر ایک کمیونسٹ ملک عوامی جمہوریہ چین ہی ہمیں کچھ امداد فراہم کر سکا۔ پھر اس وقت کے ایک اور مہا کمیونسٹ ملک نے معاہدہ تاشقند کے ذریعے پاک بھارت جنگ بندی کرائی۔ ایوب خان کا مگر اپنے اتحادی سے دل ٹوٹ گیا۔ الطاف گوہر سے ''جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی'' نامی کتاب لکھوا کر وہ گھر چلے گئے۔ ''بین الاقوامی کردار'' ادا کرنا ہم نے پھر بھی نہ چھوڑا اور جب مرحوم مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی خوفناک حدوں کو چھورہی تھی تو جنرل یحییٰ کی حکومت نے ہنری کسنجر کو اپنے دیے جہاز میں بیجنگ بھجوا کر چین اور امریکا کے درمیان دوستی کا پل بنایا۔ یہ پل بننے کے بعد ہمیں کیا ملا؟ میں آج تک نہیں جان سکا۔


پاکستان بنگلہ دیش بن جانے کے بعد جغرافیائی حوالوں سے محدود ہو گیا تب بھی ذوالفقار علی بھٹو نے ہمت نہ ہاری۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں کھل کر اُردن اور شام کی بھرپور فوجی مدد کی۔ اس کے ایک سال بعد انھوں نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا جہاں شاہ فیصل سے لے کر کرنل قذافی تک ایک دوسرے کے تمام نظریاتی مخالف اکٹھے ہوئے۔ تاریخ عالم کے ایک سنجیدہ طالب علم ہوتے ہوئے وہ خوب جانتے تھے کہ ایٹمی طاقت بنے بغیر کوئی ملک بین الاقوامی امور میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ ویسے بھی اندرا گاندھی نے 1974ء میں ایٹمی دھماکہ کر ڈالا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے کا وعدہ کیا۔ یہ الگ بات کہ اپنی زندگی میں وہ اپنے خواب کی تکمیل ہوتی نہ دیکھ پائے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد بھی انھیں پھانسی سے نہ بچا سکا۔ ان کی جگہ جنرل ضیا آئے تو پوری طرح جانتے تھے کہ امریکا سے ڈالر اور جدید ترین اسلحہ لینا ہے تو صرف کمیونسٹوں سے لڑو۔ نیک اور صالح آدمی تھے۔ ارادے کے جری اور قسمت کے دھنی۔ سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تو وہ باقی دنیا کو کمیونزم سے بچانے کے لیے ڈٹ گئے۔

ان کی مصمم قیادت کی بدولت سوویت یونین بالآخر پاش پاش ہو گیا۔ برلن دیوار گر گئی۔ لیکن وہ خود اس دنیا میں نہ رہے۔ ان کے چلے جانے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی جو حکومتیں آئیں بین الاقوامی امور میں کوئی خاص کردار ادا نہ کر پائیں۔ اس حوالے سے اصل لاٹری پھر ایک اور فوجی آمر کے نام کھلی۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف دُنیا بھر میں Enlightened Moderate کے طور پر روشناس ہوئے۔ 12 اکتوبر 1999ء میں اقتدار پر قبضہ جمانے کے بعد وہ ہمارے فارن آفس کے بابوؤں کو اکثر ڈانٹتے کہ وہ دُنیا کے سامنے ''طالبان کا کیس'' کماحقہ طریقے سے پیش نہ کر سکے۔ نائن الیون کے بعد خود انھیں جب امریکا سے ایک فون آیا تو طالبان کے خلاف برپا جنگ کی پہلی صف میں جا کھڑے ہوئے۔ صدر بش اسی لیے تو انھیں میرا جگری دوست (Tight Buddy) کہہ کر گلے لگاتے رہے۔ اپنے آخری دنوں میں انھوں نے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے ''تاریخ'' بھی بنانا چاہی۔ مگر 2002ء کے انتخابات کے ذریعے اسمبلیوں میں آئے بزدل سیاست دانوں نے ان کی راہ میں روڑے اٹکا دیے۔ پھر وہ خود بھی اقتدار سے رخصت ہو گئے۔ مُلک آصف علی زرداری اور گیلانی کے حوالے ہو گیا۔ وہ دونوں بس حکومت میں پانچ سال پورے کرنے میں مگن رہے۔ تھوڑی بہت ہمت بس جنرل کیانی ہی کرتے رہے۔ بڑی محنت سے انھوں نے صدر اوبامہ کے لیے ایک ''ورکنگ پیپر'' لکھا تھا۔ مقصد اس کا امریکا کو سمجھنا تھا کہ افغانستان کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے۔

کند ذہن اوبامہ ان کے خیالات سے مگر استفادہ نہ کر پایا اور اب شکستہ دل کے ساتھ افغانستان سے اپنی فوجیں بغیر کوئی جنگی مقصد حاصل کیے نکالنا شروع ہو گیا ہے۔ خیال تو یہ تھا کہ کیانی صاحب جیسے مفکر جرنیل کے چلے جانے کے بعد پاکستان میں اب کوئی سیاسی یا عسکری رہنما ''بین الاقوامی امور'' کے حوالے سے اپنا کوئی کردار تلاش نہ کر پائے گا۔ صد شکر کہ 11 مئی 2013ء کے انتخابات کی بدولت نواز شریف تیسری بار اس ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ ترکی ان کا عزیز ترین دوست ہے اور سعودی عرب تو 1990ء کی دہائی سے جگری یار۔ ان دونوں کے ساتھ مل کر پاکستان اب نواز شریف صاحب کی ولولہ انگیز قیادت میں اہم بین الاقوامی کردار ادا کرنے کو پوری طرح تیار ہے۔ ابتداء ہم شام سے کر رہے ہیں۔ حالانکہ تمام تر بڑھکوں کے باوجود امریکی صدر اوبامہ وہاں کی حکومت کو قطعی جنگ کے ذریعے ہٹانے کے معاملے پر آخری لمحوں میں پنجابی محاورے والا بکری بن گیا تھا۔ سعودی عرب کے ولی عہد کے حالیہ دورہ پاکستان کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے اس کے ذریعے ڈاکٹر بشار الاسد کو واضح الفاظ میں بتا دیا گیا ہے وہ حکومت سے مستعفی ہو کر شام میں تمام فریقین کے لیے ایک قابل قبول عبوری حکومت کے قیام کی راہ ہموار کریں۔ اس کے بعد کیا ہو؟ اس کے بارے میں مشترکہ اعلامیہ خاموش ہے۔ مگر فی الوقت بشار الاسد کو اپنا بستر باندھنے کا پیغام دے دیا گیا ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے اس وقت یہ پیغام کسی اوبامہ کے ذریعے نہیں عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت کے منتخب وزیر اعظم کے ذریعے پہنچا ہے۔
Load Next Story