یہ تو ہونا تھا
ملک دولخت ہوا یہ سوشلزم اور اسلام کے غیر مخلصانہ پرچارکا اثر تھا جس میں بے شمار تضادات تھے۔۔۔
ملک میں افراتفری، لاقانونیت، خون ارزاں پانی مہنگا ملکی اداروں کے احوال ناقابل یقین۔ روزگار کی دہلیزکے احوال تو دیکھیے ایک فرد کی تنخواہ 7 لاکھ روپے ماہوار دوسرے کی 70 ہزار روپے ماہوار اور پھر اسی ادارے میں ایک کی تنخواہ ماہانہ 7 ہزار روپے، کرپشن، رشوت، لوٹ مار کا بازار ریاستی اداروں میں گرم ۔ملک میں جمہوریت کے نام پر کاروبار زندگی یا ڈکٹیٹر شپ کے نام پر کرپشن کا بازار گرم بلکہ جمہوری دور میں عوام کے حقوق پر زبردست ڈاکے، قائد اعظم کی وفات اور قائد ملت کی شہادت کے بعد ایں جناب آتے رہے اور آں جناب جاتے رہے۔ پاکستانی سوشلسٹوں نے انقلاب کی کوشش کی وہ ناکام ہوئے ایوب خان انقلاب لائے ان کے بعد پھر 68 میں سوشلسٹوں نے ایک اور انقلاب کی کوشش کی مگر اس کا فائدہ ذوالفقار علی بھٹو لے گئے انھوں نے زمینی انقلاب برپا کیے بغیر صنعتوں کو قومیا لیا اور سوشلزم کا تصور اور اس کی شکل بدل ڈالی ۔
ملک دولخت ہوا یہ سوشلزم اور اسلام کے غیر مخلصانہ پرچارکا اثر تھا جس میں بے شمار تضادات تھے البتہ انسان کی نجی زندگی آزاد تھی مگر بھٹو مخالف تحریک نے حکومت کو وہ جھٹکا لگایا کہ نہ صرف جمہوری، اسلامی سوشلزم کی بنیاد ہل گئی بلکہ ایک فسطائی نظام کی بنیاد پڑگئی۔ چادر اور چہار دیواری کی عظمت کے نام مخصوص راگ و رنگ کے علاقوں میں بسنے والے شہر بھر میں پھیل گئے انسانی حقوق پامال ہوئے ایوب خان کے روشن خیال منصوبے اور معاشی پالیسی یکسر تبدیل کی گئی اور قدامت پرستی کو اسلام کا نام دیا گیا۔
ضیا الحق کی موت کے بعد نواز شریف اور پھر محترمہ کی حکومت کو موقع ملا مگر امریکی اثر و رسوخ ملکی سطح پر کم نہ ہوئے البتہ نواز شریف کی حکومت فکری طور پر ضیا الحق کا تسلسل تھی ماسوائے بھارتی دوستی اور تجارتی تحریک کا ایک نیا پہلو نمایاں تھا۔ ملک میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کی روش تو قائم رہی مگر سوشل سیکیورٹی اسکیم عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے عام نہ کیے گئے ،آصف علی زرداری نے 5 برس محترمہ بے نظیر شہید اور جمہوریت کے نام پر حکومت کی جو سب جانتے ہیں کہ غریبوں اور محکوموں کے لیے انکم سپورٹ پروگرام کی قصیدہ خوانی چلتی رہی جب کہ طالبان اپنی حقیقی اور تبلیغی سرگرمیوں میں اور ساتھ ہی عسکری سرگرمیوں میں سرگرم عمل رہے دور دراز غیر ترقی یافتہ عوام ٹرائبل ایریا میں انگریز کے بنائے ہوئے صدیوں پرانے قوانین میں جکڑے رہے۔ انھوں نے اپنے عسکری طریقوں سے قدیم حکمرانی کے تمام نقش کہن مٹا ڈالے جس سے عوام میں قدیم جرگہ سسٹم کو شوریٰ کے تابع کردیا ایک جہادی کلچر پروموٹ کیا پہلے وہ کلچر حکومتوں کے تابع تھا بعدازاں انھوں نے اس کلچر کے تابع حکومتوں کو کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
اگر پوری طور سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بے روزگاری، تنگ دستی پولیٹیکل ایجنٹوں کی بے راہ روی، بدنظمی نے آج کے پی کے کو اس منزل تک پہنچایا ہے۔ کرپشن، ناانصافی، نظام سلطنت کو اس طرح چاٹتی ہے جیسے دیمک سوکھی لکڑی کو مٹی میں تبدیل کردیتی ہے۔ لہٰذا آج کے پی کے میں ایک طرف آگ اسلامی نظام کی آڑ میں لگی ہوئی ہے وہ اپنا تمدن قائم کرنے کی تگ و دو میں ہیں وہاں ان کو مزاحمت اگر بعض گروہوں کی ہے تو وہ اس لیے کہ وہ اپنا طرز زندگی اور تہذیبی اقدار دوسرے لوگوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اگر طالبان ذرا سا بھی اس میں ڈھیل دے دیں تو ان کے خلاف مزاحمت کم ہوجائے گی تہذیب کا یہ تصادم اب حکومت کے مدمقابل آگیا ہے ۔
حکومت اپنی خامیوں پر نظر نہیں رکھتی کہ کیا وجہ ہے کہ یہ تصادم کیونکر 14 برس بعد شدید تر ہوا اس کے پس پشت دراصل یہ وجہ ہے کہ کے پی کے ٹرائبل ایریا میں ترقیاتی کام برق رفتاری تو دور کی بات کسی رفتار سے نہیں کیے گئے ۔مخصوص لوگ حکومتی آلہ کار بنے رہے جب کہ طالبان سویت جنگ کے بعد اپنی قوت میں اضافہ کرتے رہے اور قوم پرستی کی اور اپنے مسلک کی جنگ کو امریکا کے خلاف جاری کرتے رہے چونکہ پاکستان عالمی افق پر امریکا کا ساتھ دیتا رہا اور طالبان امریکا کے خلاف نبرد آزما رہے اس طرح طالبان اور پاکستان کے درمیان خلیج میں اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ دو متضاد قوتیں ایک دوسرے کے روبرو کھڑی ہوگئیں اور آج صورتحال یہ ہے دونوں طرف اعتماد کی کمی نظر آتی ہے۔
سیاسی حکومت کا ابھی بھی یہ خیال ہے کہ مفاہمت کا عمل ایک دوسرے کے قریب لادے گا مگر فکری یا نظری جدوجہد کے جو رخ ہیں ان میں اب کافی دوری نظر آرہی ہے۔ ایک طرف کے پی کے حالات روز بہ روز ابتری کی جانب گامزن ہیں اور اس کے اثرات کراچی پر بھی پڑ رہے ہیں کیونکہ فکری اور نظری طور پر سیاسی پارٹیوں میں بالغ نظری کی کمی ہے جو لوگ خود کو روشن خیال کہتے ہیں ان کی کوتاہی نگاہ نے اب تک عوام کو غربت کے حصار سے باہر نکلنے نہیں دیا۔ فیسٹیول، رنگ رلیاں طاؤس و رباب محض بالغ نظری نہیں، دور اندیشی، فکر انگیزی، آرٹ، سائنس، ادب، دانشوروں، شاعروں، نقادوں، طبیعات اور مابعد الطبیعات پر غور و فکر کرنے والوں کا خیال رکھنا ہی ترقی کی منازل طے کرنا ہے اگر ان کے معیار کو دیکھنا ہے تو مغربی دنیا کے الیکٹرانک میڈیا کی خبروں اور ان کے تسخیر کائنات کا مطالعہ ضروری ہے مگر ہمارے یہاں کی روشن خیالی کی منزلیں اور ہیں اسی لیے عوام میں اب تک کوئی واضح خطہ نہیں کہ روشن خیالی کیا ہے؟
بلوچستان میں تو جنگ کے خدوخال الگ ہیں جب کہ کے پی کے انداز الگ ہیں غیر منقسم ہندوستان میں انگریزوں سے قبل جو مسلمان حملہ آور آتے تھے وہ عام طور پر فارسی داں تھے اس لیے بھارتی مسلم سلطنت کی ریاستی زبان فارسی ہوتی تھی مگر اب جو لوگ جنگ کر رہے ہیں وہ پختون علاقے ہیں اس لیے اس جنگ کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس کا دائرہ کار کہاں تک ہوگا اور ملک پر اس کے کیا اثرات ہوں گے کیونکہ یہ دو ممالک کی جنگ نہیں بلکہ ایک ہی ملک کے رہنے والوں کے مابین ہے۔ میدان حرب سے جب میز پر لایا جاتا ہے تو اس کے کچھ اصول ہوتے ہیں خاص طور سے گوریلا جنگ اور روایتی جنگ، روایتی جنگ کے فیصلے جلد ہوتے ہیں جب کہ گوریلا جنگ کا فیصلہ بالکل الگ انداز سے ہوتا ہے کیونکہ کم لوگ زیادہ لوگوں کو پھنسا کے رکھتے ہیں اور دشمن کہاں چھپا ہے اس کا اندازہ نہیں ہوتا اور نہ اس کو چھپانے والے کا علم ہوتا ہے۔ اس لیے گوریلا جنگ میں دونوں طرف سے جاسوسی کا عملہ بڑا چوکس ہوتا ہے مگر پاکستان کی گوریلا جنگ کے خدوخال الگ ہیں عام طور پر گوریلا جنگ میں گوریلا جنگجو اور مخالف فوج ہوتی ہے مگر یہاں عام آدمی بھی نشانہ بن جاتا ہے جب کہ نہ عام آدمی کوئی مخبر ہوتا ہے اور نہ آلہ کار۔
اس لیے یہ عام گوریلا جنگ سے مختلف ہے ایسی جنگوں کے فیصلوں کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی کہ جنگ کس سمت جائے گی اور اس کے نتائج کیا ہوں گے مگر اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عام انسان کیونکر اس راہ پر چل پڑتا ہے اس کو متحرک کرنے والی قوت صرف رقم نہیں ہوسکتی بلکہ رقم کے علاوہ انسان کو اس راہ پر ڈالنے کے لیے کون سی ایسی حرارت پیدا کی جائے کہ انسان اپنی زندگی کا دیا گل کرنے پر بڑی خوش دلی سے راضی ہوجائے۔ ظاہر ہے دوسری جنگ عظیم میں بھی جاپانی ہوا باز خودکش حملہ آور کی طرح اڑتے ہوئے پانی کے جہاز کی چمنی یا پانی کے جہاز پر حملہ آور ہوتے تھے یہ وطنیت، قوم پرستی یا مذہبی عقیدت مندی کی ایک شکل ہوتی ہے جس میں جذبات بلندی پر ہوتے ہیں مگر ہمارے ملک میں جہاں لوگ آپس میں کبھی مل جل کر رہتے تھے ہماری کیسی ٹریننگ تھی کہ ہمارے دوست ہمارے ہی خلاف صف آرا ہوگئے۔ سیاسی بصیرت کی کمی نے ہمارے لیڈروں کو ایسی شاہراہوں پر گامزن کردیا کہ عوام فکری نظری طور پر تقسیم ہوگئے اور پوری قوم دو دھڑوں میں بٹ گئی ہے ۔
دونوں کی سوچ ریل کی پٹری کی طرح متوازی ہو چکی ہے ایک طرف ملک میں سیاسی سوچ کا متوازی ہونا تو دوسری جانب اخلاقی گراوٹ چوری ڈکیتی، اسٹریٹ کرائم یہ تیسرا محاذ ہے لیاری جہاں بلوچ و مکرانی تہذیب کے علاوہ کراچی کے مقامی کلچر کا سنگم تھا سب کچھ پامال ہوگیا۔ یہ سب کا سب سیاسی چپقلش کا انجام ہے جہاں گودی کے منظم کارکن بحری جہاز پر وزن چڑھاتے اتارتے تھے فشری کے پیشے کو دوام بخشتے تھے آج وہ بھی پریشان حال ہیں مگر ووٹ بینک کا پیٹ تو لیڈروں کا بھرا ہوا ہے یہ سب کا سب لیڈروں کا کیا دھرا ہے، یہی وہ لیڈر ہیں جو آمروں کے مددگار رہے ہیں تمام کے تمام معروف لیڈر جمہوریت پسند، آمریت پسندوں کے پروردہ ہیں اگر سیاسی اور معاشی قبلہ درست ہوگا تو ملک بھی صحیح سمت گامزن ہوسکے گا بصورت دیگر کئی اور شاخسانے ناانصافیوں کی کوکھ سے جنم لیں گے اور جلد یا دیر ملک کی عسکری اور سیاسی قوتیں مختلف صفحات پر نظر آنے لگیں گی۔
عدم اطمینان بڑھتا جائے گا جیساکہ ملک کے حکمرانوں نے اسمبلی کے پلیٹ فارم سے خزانے کی رقم جمع کرائی ہے اس کو اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا قومی صنعتیں فروخت ہو رہی ہیں عوام کا معیار زندگی پستی کی جانب رواں ہے زر ملکی اور دماغی سرمایہ ملک سے فرار ہو رہا ہے۔