صنعتی انقلاب پر گرانٹ ڈیوڈ کی تنقید
گرانٹ ڈیوڈ کے مطابق صنعتی انقلاب سے قبل ضرورت انسان کو بتاتی تھی کہ کیا خریدنا ہے۔۔۔
دنیا میں بے شمار انقلابات آئے، ان انقلابات میں سے صنعتی انقلاب کے بارے میں عام رائے یہی ہے کہ اس سے انسانی زندگی میں سہولت پیدا ہوئی، لوگوں کو روزگار ملا، اشیا جو پہلے انسان اپنے ہاتھوں سے بناتا تھا، انقلاب کے بعد مشینوں سے تیار ہونے لگی اور بڑی تعداد میں پروڈکشن ہونے لگی وغیرہ وغیرہ۔ گویا صنعتی انقلاب کے بارے میں مثبت رائے ہی سامنے آتی رہی اور اس رائے کو تسلیم بھی کیا جاتا رہا اور آج بھی تسلیم کیا جا رہا ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی تنقید سے بالاتر انقلاب ہے؟ راقم کے ایک طالب علم (جو جامعہ کراچی سے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہے ہیں) نے اس انقلاب پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ انقلاب درحقیقت انسانوں کے لیے فائدہ مند کم اور نقصان دہ زیادہ ثابت ہوا ہے۔ اپنے دلائل کے لیے انھوں نے گرانٹ ڈیوڈ (Grant David) کی کتاب ''کلچر اینڈ کنزمپشن'' (Culture and Consumption) جس کو انڈیانا یونیورسٹی پریس یو ایس اے نے شایع کیا ہے کا حوالہ دیا۔
گرانٹ ڈیوڈ دعویٰ کرتا ہے کہ صنعتی انقلاب اصل میں صارف (Consumer) انقلاب ہے، یعنی ایک ایسا انقلاب جس میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو صارف بنادیا گیا۔ یہ محض ظاہری تبدیلی نہ تھی، اس سے زمان و مکان کے تصورات تبدیل ہوئے، فرد تبدیل ہوا، پورا معاشرہ تبدیل ہوا، خاندانی سطح پر ہی نہیں ریاست کی سطح پر بھی تبدیلی واقع ہوئی۔ اس سے صارفانہ رویے اور ذہن کو فروغ ہوا چنانچہ معاشی، معاشرتی اور ثقافتی سطح پر انقلابی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔
گرانٹ ڈیوڈ کے مطابق صنعتی انقلاب سے قبل ضرورت انسان کو بتاتی تھی کہ کیا خریدنا ہے مگر اب صنعتوں میں تیار ہونے والی اشیا کے اشتہارات آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ کو کیا خریدنا ہے یعنی اخبارات میں، سڑکوں پر لگے سائن بورڈ اور گھر میں ٹی وی چینلز پر آتے سحر انگیز اشتہارات آپ کو احساس دلاتے ہیں کہ فلاں فلاں اشیا آپ کی ضرورت ہیں اور یوں جو انسان پہلے ضرورت پڑنے پر شے خریدنے بازار جاتا تھا وہ اب صنعتوں میں تیار ہونے والی اشیا کے اشتہار کو دیکھ کر اس اشیا کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے اور پھر خریدتا ہے، یعنی صنعتوں سے تیار ہوکر نکلنے والی اشیا انسان کے لیے بنیادی ضرورت نہ تھیں لیکن انسانوں کے اندر یہ احساس پیدا کرکے کہ یہ اشیا ان کے لیے بنیادی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہیں، انسانوں کو ان اشیا کے صارفین بننے پر مجبور کردیا۔ پس جب تک صارفین موجود ہیں صنعتوں کا پہیہ چلتا رہے گا کیونکہ صنعتوں سے نکلنے والی پروڈکٹ خریدنے والے صارفین موجود ہیں، اگر یہ انسان اپنی صارفین کی حیثیت ختم کردیں تو نہ اشیا کوئی خریدنے والا ہوگا نہ ہی صنعتوں میں کام ہوگا۔
باالفاظ دیگر انسان کی ضرورت کے لیے جتنی اشیا درکار تھیں صنعتی انقلاب سے قبل وہ حاصل ہوجاتی تھیں لیکن صنعتیں انقلاب کے بعد اشیا سرپلس میں تیار ہونے لگیں ان سرپلس (اضافی) اشیا کو فروخت کرکے ہی ایک جانب صنعتوں کا پہیہ چلتا رکھا جاسکتا تھا اور دوسری جانب سرمایہ دار اپنا سرمایہ لگا کر زیادہ سے زیادہ منافع کما سکتا تھا۔ یہی وہ عمل ہے جس کے باعث گرانٹ ڈیوڈ کہتا ہے کہ صنعتی انقلاب دراصل صارف انقلاب تھا جس نے صارفانہ رویوں کو جنم دیا اور یوں پورا معاشرہ ہی بدل گیا۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ اب بچے والدین سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے لیے کچھ نہ کچھ خریدیں، یعنی محبت کا مفہوم اب پیار و محبت کے اظہار سے نکل کر اشیا یا تحفے تحائف میں تبدیل ہوگیا یا صارفانہ ہوگیا ہے کہ محبت کا اظہار بھی کسی پروڈکٹ سے منسلک ہوگیا ہے۔
ڈیوڈ اپنی ایک اور تصنیف میں صنعتی انقلاب کے بعد ظہور پذیر ہونے والے تفریحی مواقعوں کو کلچر اور معیشت کا اہم ستون قرار دیتے ہوئے اسے 480 بلین ڈالر کی انڈسٹری بتاتا ہے، جس میں وہ موویز، ٹیلی ویژن، ریڈیو اسپیکٹیٹر اسپورٹس، کیسینو، ویب سائٹس، میگزین، اخبارات، بچوں کے کھلونے، نائٹ کلب، سینما ہاؤسز اور گیمز سوفٹ ویئر کو شامل کرتا ہے۔
ڈیوڈ کی مذکورہ بالا بات پر غور کریں تو واقعی احساس ہوتا ہے کہ یہ تفریح تو انسان کی بنیادی ضرورت نہیں مگر اس کے باوجود عوام کی جیب سے 480 بلین ڈالر نکلتے ہیں پھر اس پر نہ جانے کتنا وقت صرف ہوتا ہوگا، اسی طرح یہ سب مل کر ایک نیا کلچر بھی متعارف کرواتے ہیں جس میں سینما ہاؤسز، اسپیکٹیٹر اسپورٹس، کیسینو اور نائٹ کلبس وغیرہ شامل ہیں جو ظاہر ہے کہ صنعتی انقلاب سے پہلے مغرب کے بھی کلچر میں شامل نہیں تھے۔
راقم کے شاگرد کا کہنا ہے کہ جس طرح مغرب میں صنعتی انقلاب نے وہاں کا کلچر ہی بدل دیا، کمرشل اور مادہ پرست معاشرہ بنادیا، بالکل ایسے ہی ہمارے ہاں بھی یہ صارفانہ کلچر تیزی سے پنپ رہا ہے اور خاص کر شہری علاقوں میں مقبول ہو رہا ہے، یوں وہ اضافی (سرپلس) اشیا جو ہمارے معاشرے کی ضرورت نہیں ہیں، اب ہمارے لوگ اپنی بنیادی ضرورتوں میں شامل کرتے جا رہے ہیں۔ مثلاً اب سے دو تین دہائی قبل محلے کے ایک دو گھروں ہی میں ٹیلی فون بمشکل ملتا تھا اور دیگر لوگ اسی کے ذریعے مستفیض ہوتے تھے لیکن آج دیکھیے کہ نہ صرف ہر گھر میں موبائل فون دستیاب ہے بلکہ گھر میں اگر پانچ افراد ہیں تو کم ازکم 3 افراد کے ہاتھ میں موبائل فون ضرور نظر آئے گا۔ اور پھر یہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی ہر ہفتے دو ہفتے بعد جب کسی نئے فنکشن کے ساتھ مارکیٹ میں کوئی نیا موبائل آتا ہے تو ہر چھوٹا بڑا جلد ازجلد اپنا پرانا موبائل چھوڑ کر نئے موبائل کو خریدنے کی کوشش کرتا ہے کہ جیسے کہ نیا موبائل ہی اس کی اصل ضرورت ہو حالانکہ پیغام رسانی اور بات کرنے کی سہولت ہر فون میں بنیادی طور پر موجود ہوتی ہے۔ جیب میں پیسے ہوں یا نہ ہوں نئے موبائل کے لیے ہر دوسرا فرد تگ و دو کرتا نظر آتا ہے۔ آخر کیوں؟ شاید گرانٹ ڈیوڈ کی بات درست ہے کہ صنعتی انقلاب یعنی صارفانہ انقلاب نے ہم لوگوں کے ذہن بھی صارفانہ بنا دیے ہیں۔ اگر ہم اپنے صارفانہ ذہن کو بدل لیں اور صرف وہی شے خریدیں جو ہماری زندگی کی بنیادی ضرورت ہے تو کم آمدنی کے باوجود ہمارا ماہانہ بجٹ آسان ہوسکتا ہے۔ آئیے! غور کریں وہ کون کون سی اشیا ہیں جن کے بلا ضرورت ہم صارف بنے ہوئے ہیں۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی تنقید سے بالاتر انقلاب ہے؟ راقم کے ایک طالب علم (جو جامعہ کراچی سے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہے ہیں) نے اس انقلاب پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ انقلاب درحقیقت انسانوں کے لیے فائدہ مند کم اور نقصان دہ زیادہ ثابت ہوا ہے۔ اپنے دلائل کے لیے انھوں نے گرانٹ ڈیوڈ (Grant David) کی کتاب ''کلچر اینڈ کنزمپشن'' (Culture and Consumption) جس کو انڈیانا یونیورسٹی پریس یو ایس اے نے شایع کیا ہے کا حوالہ دیا۔
گرانٹ ڈیوڈ دعویٰ کرتا ہے کہ صنعتی انقلاب اصل میں صارف (Consumer) انقلاب ہے، یعنی ایک ایسا انقلاب جس میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو صارف بنادیا گیا۔ یہ محض ظاہری تبدیلی نہ تھی، اس سے زمان و مکان کے تصورات تبدیل ہوئے، فرد تبدیل ہوا، پورا معاشرہ تبدیل ہوا، خاندانی سطح پر ہی نہیں ریاست کی سطح پر بھی تبدیلی واقع ہوئی۔ اس سے صارفانہ رویے اور ذہن کو فروغ ہوا چنانچہ معاشی، معاشرتی اور ثقافتی سطح پر انقلابی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔
گرانٹ ڈیوڈ کے مطابق صنعتی انقلاب سے قبل ضرورت انسان کو بتاتی تھی کہ کیا خریدنا ہے مگر اب صنعتوں میں تیار ہونے والی اشیا کے اشتہارات آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ کو کیا خریدنا ہے یعنی اخبارات میں، سڑکوں پر لگے سائن بورڈ اور گھر میں ٹی وی چینلز پر آتے سحر انگیز اشتہارات آپ کو احساس دلاتے ہیں کہ فلاں فلاں اشیا آپ کی ضرورت ہیں اور یوں جو انسان پہلے ضرورت پڑنے پر شے خریدنے بازار جاتا تھا وہ اب صنعتوں میں تیار ہونے والی اشیا کے اشتہار کو دیکھ کر اس اشیا کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے اور پھر خریدتا ہے، یعنی صنعتوں سے تیار ہوکر نکلنے والی اشیا انسان کے لیے بنیادی ضرورت نہ تھیں لیکن انسانوں کے اندر یہ احساس پیدا کرکے کہ یہ اشیا ان کے لیے بنیادی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہیں، انسانوں کو ان اشیا کے صارفین بننے پر مجبور کردیا۔ پس جب تک صارفین موجود ہیں صنعتوں کا پہیہ چلتا رہے گا کیونکہ صنعتوں سے نکلنے والی پروڈکٹ خریدنے والے صارفین موجود ہیں، اگر یہ انسان اپنی صارفین کی حیثیت ختم کردیں تو نہ اشیا کوئی خریدنے والا ہوگا نہ ہی صنعتوں میں کام ہوگا۔
باالفاظ دیگر انسان کی ضرورت کے لیے جتنی اشیا درکار تھیں صنعتی انقلاب سے قبل وہ حاصل ہوجاتی تھیں لیکن صنعتیں انقلاب کے بعد اشیا سرپلس میں تیار ہونے لگیں ان سرپلس (اضافی) اشیا کو فروخت کرکے ہی ایک جانب صنعتوں کا پہیہ چلتا رکھا جاسکتا تھا اور دوسری جانب سرمایہ دار اپنا سرمایہ لگا کر زیادہ سے زیادہ منافع کما سکتا تھا۔ یہی وہ عمل ہے جس کے باعث گرانٹ ڈیوڈ کہتا ہے کہ صنعتی انقلاب دراصل صارف انقلاب تھا جس نے صارفانہ رویوں کو جنم دیا اور یوں پورا معاشرہ ہی بدل گیا۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ اب بچے والدین سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے لیے کچھ نہ کچھ خریدیں، یعنی محبت کا مفہوم اب پیار و محبت کے اظہار سے نکل کر اشیا یا تحفے تحائف میں تبدیل ہوگیا یا صارفانہ ہوگیا ہے کہ محبت کا اظہار بھی کسی پروڈکٹ سے منسلک ہوگیا ہے۔
ڈیوڈ اپنی ایک اور تصنیف میں صنعتی انقلاب کے بعد ظہور پذیر ہونے والے تفریحی مواقعوں کو کلچر اور معیشت کا اہم ستون قرار دیتے ہوئے اسے 480 بلین ڈالر کی انڈسٹری بتاتا ہے، جس میں وہ موویز، ٹیلی ویژن، ریڈیو اسپیکٹیٹر اسپورٹس، کیسینو، ویب سائٹس، میگزین، اخبارات، بچوں کے کھلونے، نائٹ کلب، سینما ہاؤسز اور گیمز سوفٹ ویئر کو شامل کرتا ہے۔
ڈیوڈ کی مذکورہ بالا بات پر غور کریں تو واقعی احساس ہوتا ہے کہ یہ تفریح تو انسان کی بنیادی ضرورت نہیں مگر اس کے باوجود عوام کی جیب سے 480 بلین ڈالر نکلتے ہیں پھر اس پر نہ جانے کتنا وقت صرف ہوتا ہوگا، اسی طرح یہ سب مل کر ایک نیا کلچر بھی متعارف کرواتے ہیں جس میں سینما ہاؤسز، اسپیکٹیٹر اسپورٹس، کیسینو اور نائٹ کلبس وغیرہ شامل ہیں جو ظاہر ہے کہ صنعتی انقلاب سے پہلے مغرب کے بھی کلچر میں شامل نہیں تھے۔
راقم کے شاگرد کا کہنا ہے کہ جس طرح مغرب میں صنعتی انقلاب نے وہاں کا کلچر ہی بدل دیا، کمرشل اور مادہ پرست معاشرہ بنادیا، بالکل ایسے ہی ہمارے ہاں بھی یہ صارفانہ کلچر تیزی سے پنپ رہا ہے اور خاص کر شہری علاقوں میں مقبول ہو رہا ہے، یوں وہ اضافی (سرپلس) اشیا جو ہمارے معاشرے کی ضرورت نہیں ہیں، اب ہمارے لوگ اپنی بنیادی ضرورتوں میں شامل کرتے جا رہے ہیں۔ مثلاً اب سے دو تین دہائی قبل محلے کے ایک دو گھروں ہی میں ٹیلی فون بمشکل ملتا تھا اور دیگر لوگ اسی کے ذریعے مستفیض ہوتے تھے لیکن آج دیکھیے کہ نہ صرف ہر گھر میں موبائل فون دستیاب ہے بلکہ گھر میں اگر پانچ افراد ہیں تو کم ازکم 3 افراد کے ہاتھ میں موبائل فون ضرور نظر آئے گا۔ اور پھر یہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی ہر ہفتے دو ہفتے بعد جب کسی نئے فنکشن کے ساتھ مارکیٹ میں کوئی نیا موبائل آتا ہے تو ہر چھوٹا بڑا جلد ازجلد اپنا پرانا موبائل چھوڑ کر نئے موبائل کو خریدنے کی کوشش کرتا ہے کہ جیسے کہ نیا موبائل ہی اس کی اصل ضرورت ہو حالانکہ پیغام رسانی اور بات کرنے کی سہولت ہر فون میں بنیادی طور پر موجود ہوتی ہے۔ جیب میں پیسے ہوں یا نہ ہوں نئے موبائل کے لیے ہر دوسرا فرد تگ و دو کرتا نظر آتا ہے۔ آخر کیوں؟ شاید گرانٹ ڈیوڈ کی بات درست ہے کہ صنعتی انقلاب یعنی صارفانہ انقلاب نے ہم لوگوں کے ذہن بھی صارفانہ بنا دیے ہیں۔ اگر ہم اپنے صارفانہ ذہن کو بدل لیں اور صرف وہی شے خریدیں جو ہماری زندگی کی بنیادی ضرورت ہے تو کم آمدنی کے باوجود ہمارا ماہانہ بجٹ آسان ہوسکتا ہے۔ آئیے! غور کریں وہ کون کون سی اشیا ہیں جن کے بلا ضرورت ہم صارف بنے ہوئے ہیں۔