ہجرت کے بعد تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر پاکستان کی شہریت ملی ممتاز شاعر افتخار عارف سے ملاقات

شعبۂ فلسفہ میں داخلہ لیا، تو لوگوں نے پاگل کہا

افتخار عارف کا ایکسپریس میگزین کو انٹرویو

KABUL/ISLAMABAD:
بٹوارے کے بعد ہندوستان چھوڑنے والوں نے بورے بھر بھر کر کتابیں ردی کے بھاﺅ بیچیں بہت سے مجبور، پورے پورے کتب خانے وہیں چھوڑ آئے۔ لکھنؤ میں اُس زمانے میں گلیوں میں ٹھیلے لے کر زری، گوٹا، کناری کے کپڑے خریدنے والے نکلتے اور ماضی کے اُن رئیس زادوں کے قیمتی ملبوسات کے دام دیا کرتے، جن کے پاس اب کھانے تک کو نہ تھا!

بہت سے امیر زادے اپنے چاندی کے قیمتی ظروف، خوشی کے مواقع پر کندہ کرائی ہوئی طشتریاں بیچ کر گزارا کرتے، کہیں کسی حویلی کے قالین کا بھاﺅ لگ رہا ہوتا، تو کہیں کسی فانوس کے نرخ طے ہو رہے ہوتے پھر یہ تمام چیزیں اتوار کو لگنے والے ایک بازار میں فروخت ہوتیں۔ نانا بھی وہاں جاتے اور اسلامی تاریخ اور شاعری کی کتب لاتے، چھٹی کے روز شاعری کی کتابوں میں بیت بازی کے لیے حرف تہجی کے ساتھ اشعار قلم زد کرتے۔ میں اکثر وہاں بیت بازی میں، میں پہلا یا دوسرا انعام پاتا، وہاں صحافی حسین نقی کے چھوٹے بھائی باقر رفیق، ہندوستانی گیت نگار حسن کمال اور شاعر ڈاکٹر اجمل اجملی بھی اس مسابقت میں ساجھے دار ہوتے۔"

یہ گفتگو مشہور شاعر افتخار عارف کی ہے، وہی افتخار عارف جو سخن وَری کی دنیا میں اپنے منفرد لب ولہجے کی سبب پہچانے جاتے ہیں، جیسے

تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں
جان بہت شرمندہ ہیں

اُن کا زبان زد عام یہ شعر زمانے کے ہر فرعون کو للکارتا ہے

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

گھر کا موضوع بھی ان کے ہاں کچھ الگ انداز سے برتا گیا

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے
....
عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا

اُن کی تعلیم وتربیت سوتیلے نانا قطب آدم نے کی، جن کے ساتھ لکھنو ¿ میں وہ اکیلے رہتے، نانا یومیہ اُجرت کے ایک مزدور تھے، لیکن انہوں نے افتخار عارف کو ہاتھ بٹانے کے لیے کبھی ٹیوشن تک نہ پڑھانے دی، وہ انہیں 'بابا' کہتے۔ اُن کے سگے نانا مرزا محمد تقی مرحوم شیعہ مسلک کے بڑے عالم تھے۔ افتخار عارف کے والد رئیس آدمی تھے، اور وہ اُن کے اکلوتے بیٹے تھے، انہیں والد کا شادیاں کرنا ناگوار تھا، اس لیے فاصلے ہو گئے، اتنا کہہ کر وہ محتاط ہوئے، کہتے ہیں 'بعض تلخ سچائیوں کے اظہار سے خاندان کے دوسرے افراد کو دکھ ہوتا ہے۔'

انٹر کے بعد افتخار عارف نے جب فلسفہ میں داخلہ لیا، تو لوگوں نے انہیں پاگل کہا، کہ نوکری کہاں ملے گی؟ مگر نانا نے حمایت کی، کہتے ہیں کہ نانا بہت عجیب شخصیت تھے، میں نے ان جیسا آدمی نہیں دیکھا۔ افتخار عارف کے بقول وہ بچپن میں ہی اشعار کہنے لگے تھے، لکھنو ¿ میں اُن پر کی گئی ایک پی ایچ ڈی میں ایک رسالہ دریافت ہوا، ا جس میں ان کا درجہ ہفتم کا لکھا ہوا شعر ملا، وہ اپنی جامعہ میں طلبہ پر پوری پوری مثنویاں کہہ دیتے، جو خاصی بے باک تھیں۔ انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے عمرانیات اور ہندو فلسفے میں ماسٹرز کیے، اور امتحان دیتے ہی یہاں چلے آئے۔

افتخار عارف بتاتے ہیں کہ یوپی کے مسلمان زیادہ تر زمیں داری اور جاگیرداری سے وابستہ تھے، آزادی کے بعد جب جواہر لعل نہرو نے جاگیردارانہ نظام ختم کر کے زمینیں ضبط کیں، تو ہندوستانی مسلمانوں کے پاس کچھ باقی نہ رہا۔ لکھنو ¿ کا ہندو پوری طرح محرم مناتا، ہماری خانقاہوں کے ایک چوتھائی زائرین ہندو تھے۔ حضرت شاہ فخر الدین فخر الزماں کے زمانے میں ہندو بھی 'اشھد الا الہ اللہ' کے اقرار پر بیعت کرتے۔ وہاں شیخ عبدالواحد سندھی مواحد کا مزار تھا، جن کے آستانے پر اُن کی فارسی کی بنیاد پڑی۔ اُن کی والدہ مخدوم شاہ مینا کے خانوادے سے بیعت تھیں۔

1947ءکے بعد لکھنؤ کے ماحول کا ذکر ہوا تو افتخار عارف نے اپنے کئی ہندو دوستوں کے نام گنوائے، جن کے سنگ صبح وشام ہوتی تھی، اِن میں وجے گھر کے کسی فرد کی طرح آتا جاتا۔ کہتے ہیں کہ اسکول کی اسمبلی میں ایک ہندو، عیسائی، ہریجن، سیکھ اور مسلمان مل کر قومی ترانہ پڑھتے، جو مجھے اب بھی ازبر ہے، میں اُن سے بہتر سنسکرت بولتا، اور ان کے دیوی دیوتاﺅں کو جانتا تھا بچپن میں وہ کھیلتے ہوئے پتلون کے نیچے پاجاما پہنتے اور باوضو ہوتے، دوران کھیل عصر یا مغرب کا وقت ہوتا، تو دوڑ کر نزدیکی مسجد میں نماز پڑھ لیتے۔ لکھنو ¿ یونیورسٹی سے متصل دارالعلوم ندوة العلما تھا، وہاں جمعہ پڑھتے۔ ایک بار تبلیغی جماعت کے ساتھ 'سہ روزہ' پر بھی گئے۔

افتخار عارف کی پیدائش 21 مارچ 1944ءہے، ہجرت کا مرحلہ 1965ءمیں طے ہوا، جب ہندوستانی مسلمانوں کو ریاست کا وفادار رہنے کا کہا گیا، کم وسائل کے سبب بہت سے مہاجرین کو واپس بھی بھیجا گیا، پھر 1952-53ءمیں ہندوستان سے آنے والوں پر پابندی ہوگئی، کراچی میں 1965ءمیں ایک ناخوش گوار واقعہ پیش آیا اور مہاجروں کے لیے 'آگے سمندر ہے' جیسے بیانات دیے گئے اور قرة العین حیدر اور سجاد ظہیر جیسی شخصیات ہندوستان لوٹ گئیں، ایسے میں ہجرت کرتے ہوئے ذہن میں کیا تھا؟ وہ کہتے ہیں کہ "مجھ سے اکثر یہ سوال ہوتا ہے، تو میں بتاتا ہوں کہ تین، چار برس کا بچہ لکھنو ¿ سے اکیلے کراچی نہیں آسکتا تھا جب مجھے شعور آیا، تو یہاں چلا آیا، جیسا کہ آپ نے کہا کہ 1952-53ءمیں یہ سلسلہ بند ہو چکا تھا" وہ کہتے کہتے کچھ اٹکے، پھر بولے 'میرا

ایک شعر ہے
اِدھر اُدھر کے اشاروں سے پیچ پڑتے ہیں
وضاحتوں سے الجھتی ہے گفتگو کیا کیا


بعض اوقات وضاحتیں گفتگو کو الجھا دیتی ہیں، قائد اور اقبال نے کہا تھا کہ برصغیر میں مسلمان اقلیت میں ہیں، لیکن انہیں حقوق ملنے چاہئیں۔ اُن کے لیے آزاد مسلم مملکت کا مطالبہ کیا گیا، جس طرح لینن نے نیشنل اسٹیٹ قائم کی۔'

وہاں جن رویوں نے افتخار عارف کو متفکر کیا، اِن میں یوپی حکومت کی اردو دشمنی اور مسلمانوں کے لیے ملازمتوں میں دشواری تھی، کہتے ہیں کہ مسلمان معاشرتی طور پر پٹ رہا تھا، ہمارے بہت سے نشانات مٹا دیے گئے، شبہ کیا جا رہا تھا کہ تاج محل تو کسی ہندو مشنری نے بنایا، چیزیں دیو مالائی روایتوں سے منسوب کی جانے لگیں۔ وہاں گائے پر ہنگامہ ہو رہا ہے، مسجدوں پر حملے ہو رہے ہیں، قبرستانوں، مزاروں اور عزا خانوں پر قبضہ ہے۔' ہم نے کہا اُس صورت حال کا موازنہ یہاں مہاجروں کو درپیش مسائل سے نہیں کیا، تو وہ بولے کہ 'ہم سے خراب کھیلنے پر سوال کیا جاتا ہے، مگر ہم اس سے پہلے اچھا بھی تو کھیلے ہوتے ہیں۔'

افتخار عارف کہتے ہیں کہ "جیسے ہی لڑکے یونیورسٹی جاتے، بڑے گھرانوں سے اُن کے رشتے آنے لگتے، میرے والد بھی ایک جگہ میری شادی کرانا چاہتے تھے، مگر میں باغیانہ جذبے کے تحت اُن کے کہے کا الٹ کرتا، یہ بالکل غلط بات تھی۔" والد انہیں کاروبار بھی کرانا چاہتے تھے، لیکن انہوں نے نانا کو بتایا کہ وہ ہندوستان میں نہیں رہنا چاہتے۔ ہم نے پوچھا کہ اس کا سبب والد تھے؟ تو انہوں نے کہا وہاں مسلمانوں کی حالت تھی، لوگ بلاوجہ دوسری باتیں کہتے ہیں، میں اس کو فلسفیانہ رنگ نہیں دینا چاہتا۔ 70 برس کی عمر میں کیش کرانے کو کیا رہ گیا؟ آج بھی مسلمان نوجوان وہاں نہیں رہنا چاہتا، لیکن اظہار نہیں کر سکتا۔

"بابا نے مجھے دو ہزار روپے دیے اور کہا کہ تم جاﺅ"

اتنا کہہ کر انہوں نے ٹھنڈی سانس بھری، پھر بتایا کہ وہ ٹرین سے براستہ دلی، لاہور پہنچے، 1965ءکی جنگ سے پہلے کا زمانہ تھا، عام ہجرت تو بند تھی، لیکن مخصوص مضامین میں ایم اے کیے ہوئے ہندوستانیوں کو انٹرویو کے بعد شہریت مل رہی تھی، افتخار عارف نے بھی اسی سے استفادہ کیا۔ لاہور میں ڈاکٹر وحید مرزا انہیں 'دائرہ معارف اسلامیہ' لے گئے، مگر وہاں کسی اور کے گھر میں رہنا گوارا نہ ہوا، اس لیے کراچی آکر مسلم کوارٹر میں 40 روپے ماہوار پر چھوٹی سی جگہ لی، جس میں ایک چارپائی اور ایک میز تھی، مشہور شاعر خالد علیگ بالکل سامنے رہتے تھے۔

اسی بے روزگاری میں فیض احمد فیض سے نیاز مندی ہوئی، وہ انہیں اپنی گاڑی میں نوکری کی تلاش میں لے جاتے، ایک دن یاور مہدی انہیں ریڈیو پاکستان لے گئے، وہاں آڈیشن میں انہوں نے شکیل احمد کی نقل کی، جس پر مشہود احمد (شاہد احمد دہلوی کے بیٹے) کہنے لگے، آپ قیامت تک اُن کی طرح خبریں نہیں پڑھ سکتے، اپنی آواز میں پڑھیے، انہیں یہ بات ناگوار گزری۔ عبید اللہ بیگ نے سراہا اور انہیں انداز بدلنے کی صلاح دی۔ پھر انہوں نے آل انڈیا ریڈیو کے ہندی خبر نگار دیو کی نندن پانڈے کے لہجے میں خبریں پڑھیں اور اگلے دن سے ریڈیو پر خبریں پڑھنے پر مامور ہوگئے۔

افتخار عارف اپنے ساتھ کسی بھی تعصب کی نفی کرتے ہیں۔ تعصب کی عام شکایات پر کہتے ہیں کہ ہر آدمی کا اپنا تجربہ ہوتا ہے، بعض اوقات کسی بات کا سبب کچھ ہوتا، اور سمجھ کچھ اور لیا جاتا ہے۔ یہاں آنے کے بعد ہمیں اس زمین سے شناخت جوڑنی چاہیے تھی، غلطیاں ہوئی ہیں۔ شناخت کا مسئلہ بہت الجھا ہوا ہے، سندھ نے محسنوں کا سلوک کیا، ہمیں چاہیے اس سے جڑ کر رہیں۔ اردو میرا افتخار ہے، شناخت ایک سے زائد بھی ہوتی ہیں۔ آپ انگلستان جاتے ہیں، تو انگریزی سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہاں دوسری زبان نہیں سیکھ رہے۔

٭ شاعری کا مجموعہ 'باغ گل سرخ ' آنے کو ہے

خاندانی نام افتخار حسین عارف، ابتدائی تعلیم مدرسہ نظامیہ، فرنگی محل سے لی، جوبلی اسکول سے میٹرک اور جوبلی کالج سے انٹر کیا، 1965ءمیں جامعہ لکھنو سے ایم اے کیا، 1979ءمیں کولمبیا یونیورسٹی، نیویارک سے 'میڈیا مینجمنٹ' کا مختصر کورس کیا۔ 1965ءمیں ریڈیو پاکستان کراچی میں خبریں پڑھنے لگے، پھر 'پی ٹی وی' پر پروگرام 'کسوٹی' سے شہرت پائی، پھر نو برس پی ٹی وی پر پروڈیوسر رہے۔ 1977ءمیں لندن چلے گئے، وہاں 'بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس' (بی سی سی آئی) سے وابستہ ہو گئے، پھر 1981ءتا 1990ءاسی بینک کے ذیلی ادارے 'اردو مرکز' سے جُڑے رہے۔ بی بی سی سے پروگرام کیے،1991ءمیں واپس آئے اور اکادمی ادبیات پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ہوگئے، 1995ءتا 2000ءمقتدرہ قومی زبان اور 2000ءتا 2008ءاکادمی ادبیات کے چیئرمین رہے، 2005ءمیں نیشنل بک فاﺅنڈیشن کے مینجنگ ڈائریکٹر کی ذمہ داری بھی اٹھائی، 2009 ءتا 2011ءمیں دوسری بار مقتدرہ قومی زبان کے مسند نشیں ہوئے۔ اس کے بعد 'نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز' میں اردو اور ہندی کے پروفیسر رہے۔ دسمبر 2016ءمیں جب وہ تیسری بار 'مقتدرہ قومی زبان' کے صدر نشیں ہوئے، تو یہ 'ادارہ فروغ قومی زبان' ہو چکا ہے اور اب اس کے سربراہ کی مسند 'چیئرمین' کے بہ جائے 'ڈائریکٹر جنرل' ہے۔ اُن کی پہلی کتاب 'مہر دونیم' 1984ءمیں آئی، اس کے بعد بارہواں کھلاڑی، حرف باریاب اور جہان معلوم منصہ ¿ شہود پہ آئیں، پھر انتخاب کلام بہ عنوان 'شہر علم کے دروازے پر'، جب کہ کلیات 2009ءمیں 'کتاب دل ودنیا' کے نام سے منظر عام پر آئی۔ بہت سے اعزازات ملے، جن میں تمغہ حُسن کارکردگی، ستارہ ¿ امتیاز اور ہلال امتیاز نمایاں ہیں۔ افتخار عارف نے بتایا کہ اُن کی شاعری کا نیا مجموعہ 'باغ گل سرخ' آنے والا ہے۔ وہ اِن دنوں 'ادارہ فروغ قومی زبان' کا 'خط نسخ' میں شایع ہونے والا کام 'نستعلیق' میں ڈھال رہے ہیں، ساتھ ہی 600 کے قریب کتابیں بھی نیٹ پر ڈالی ہیں۔

٭ زبانیں، علم اور معیشت

افتخار عارف زبانوں کی ترقی کو سائنس اور بازار سے منسلک کرتے ہیں۔ سائنس کا بہت سا ترجمہ ہے، مگر علوم انگریزی میں مرتب ہوتے ہیں، اور بعض تبدیلیاں اتنی تیزی سے ہو رہی ہیں، کہ اس رفتار سے ترجمہ آسان نہیں، لیکن میں اِسے ناممکن نہیں کہہ رہا۔ بعض چیزیں موزوں ہو بھی سکتی ہیں اور بعض کو چھوڑ دینا چاہیے۔ اردو میں بہت سے الفاظ گرامر کے حساب سے غلط ہیں، جیسے رہائش گاہ، جب کہ رہنے کا 'حاصل مصدر' رہائش ہوا، سہولت کے لیے بہت سے لفظوں کا املا تبدیل کر دیا۔ گرامر قریب اور نزدیک کے بہ جائے ایک فیصلہ دیتی ہے۔ زبان جتنی آسان ہوگی، اُتنا آگے بڑھے گی، وہ قواعد جو پڑھنے والے کے لیے مشکل کر دے وہ نہیں چل سکتے، اس لیے ایسے شعبے قائم کرنا ضروری ہیں، جو زبان کو ٹھیک کرنے میں معاون ہوں۔

٭ 'آپ نے کون سے ایسے قرض اتارے؟'

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

اُن کے اِس شعر کی بابت استفسار کیاکہ آپ نے کون سے ایسے قرض اتارے؟ تو کہنے لگے کہ بعض اوقات ہمیں زندگی میں ایسے جرائم کی سزا ملتی ہے، جو ہم نے کیے ہی نہیں ہوتے! ہم نے پوچھا، ہجرت؟ تو وہ بولے 'جو بھی سمجھ لیجیے' پھر کہنے لگے کہ 'میں کبھی دنیا کے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتا، بس چاہتا تھا کہ کتاب ہو اور میں ہوں! میں یہ منصب نہیں چاہتا تھا، مجھے اللہ نے ساری نعمتیں دیں۔' اُن کی مشہور نظم 'بارہواں کھلاڑی' کے تناظر میں ہم نے پوچھا کہ آپ تو ہمیشہ پہلے کھلاڑی رہے، جس پر وہ بولے کہ ہر شعر ہم اپنے لیے نہیں کہتے، بلکہ ہم اپنے پس ماندہ اور مظلوم طبقے کو زبان دے رہے ہوتے ہیں۔ میں نے فیشن کے طور پر کمیونزم اختیار نہیں کیا۔ بائیں بازو اللہ کی نفی نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کی بات ہے، جہاں غریبوں کے مسائل حل ہوں۔ انگریزی کراچی اسلام آباد اور لاہور میں بولی جاتی ہے۔ انہی شہروں کے پیسے والے بچے سول سروس میں جا سکتے ہیں، باقی نہیں۔'

٭ سیاست دانوں کو اہل علم سے مل کر زبان کا مسئلہ حل کرنا ہوگا

افتخار عارف زبان کو نہایت سنجیدہ مسئلہ گردانتے ہوئے کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے اب تک زبان کی کوئی پالیسی نہیں بنی اور ایک غیر متنازع چیز متنازع بنا دی گئی۔ قائد نے ڈھاکا میں بھی صوبوں کو اپنی زبان کا حق دیا۔ میں نے عدالت میں بھی کہا کہ اردو کا مادری زبان سے کوئی جھگڑا نہیں، قائداعظم دلیل کے آدمی تھے، اردو کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ انہوں نے 1948ءمیں نہیں کیا، بلکہ یہ 1946ءاور اس سے بھی بہت پہلے طے تھا۔' قائد گجراتی برادری سے تھے اور انگریزی بولتے تھے، لیکن وہ یہ بات سمجھتے تھے کہ اردو دونوں حصوں میں سمجھی جاتی ہے۔ نفاذ اردو کے سوال پر افتخار عارف بولے کہ 'نفاذ' ایک جارحانہ لفظ ہے، اردو کا چلن عام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اب تک کی تمام دفتری اصطلاحات اردو میں مہیا ہوں، کیوں کہ تبدیلیاں روز رونما ہو رہی ہیں۔ اردو کا نفاذ ایک سیاسی اور قومی عمل ہے۔ ملک کا بہت سا خلفشار زبان کا مسئلہ حل ہونے سے ختم ہو جائے گا۔ اس میں حمیت قومی کو بھی دوش ہے، بہت سے چھوٹے چھوٹے ممالک نے بھی اپنی زبانوں کو رائج کیا۔ سیاست دان تنہا اسے حل نہیں کر سکتے، انہیں اہل علم سے مل کر کام کرنا ہوگا۔ مثلاً کس سطح تک مادری زبان پڑھائی جائے، کہاں تک اردو کا ساتھ ضروری ہے اور کس سطح سے انگریزی کا سلسلہ ہو۔
افتخار عارف، ڈاکٹر جمیل جالبی کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ جیسے بجلی کی فراہمی کے لیے کھمبوں اور تاروں کی تنصیب کی جاتی ہے، بلب لگائے جاتے ہیں، ہم نے اردو کے ذیل میں گویا اتنا کام کر دیا ہے کہ اگر بجلی دی جائے، تو بلب روشن ہو جائے گا۔ حکومت نے تین مرحلے تجویز کیے، جس میں فوری اقدام کے تحت تمام سرکاری بورڈ اردو میں کیے جا رہے ہیں، امید ہے کہ اگر یہ سلسلہ انہی لوگوں کے ساتھ جاری رہا، تو پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔

٭ قصہ 'اُمید' کا

ریڈیو پر ایک دن سلیم گیلانی نے افتخار عارف کو طلب کیا اور پوچھا کہ آپ نے پڑھا 'اُمِید (بغیر تشدید کے) کی جاتی ہے' لفظ تو اُمّید ہے، انہوں نے غالب کے مصرع کو دلیل بنایا کہ "منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید" اور کہا 'اس میں اُمّید پڑھیں گے، تو مصرع وزن سے خارج ہو جائے گا، یہ غلط دلیل تھی۔ جس پر سلیم گیلانی نے وہاں رکھی ہوئی لغت سامنے پٹخی اور کہا اس میں تو تشدید کے ساتھ امّید لکھا ہوا ہے۔ انہوں نے سوچا کہ نوکری تو اب گئی، اس لیے کہہ دیا کہ 'لغت تو اہل زبان کے محاورے سے ترتیب دی جاتی ہے۔' یہ سن کر سلیم گیلانی نے ساتھ بیٹھے حضرت کو ذوالفقار علی بخاری کہا تو بخاری صاحب کا تعارف ہوا، نام سنتے ہی انہوں نے بخاری سب کے قدم چھو لیے، انہوں نے پوچھا تم شکیل صاحب کے داماد ہو؟ (افتخار عارف اپنے خالو شکیل احمد کی بھانجی سے بیاہے) تو انہوں نے کہا ابھی ہوں گا۔ دراصل شکیل احمد اور بخاری صاحب آغا حشر کاشمیری کے شاگرد تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا کرتے ہو، تو انہوں نے بتایا کہ نوکری ڈھونڈتا ہوں، اس کے بعد بخاری صاحب نے دو کے بہ جائے پانچ بلیٹن کر دیے، جس کے 550 روپے ملتے، انگریزی میں رضوان واسطی کو اور اردو انہیں سب سے زیادہ پیسے ملتے
Load Next Story