ہمارے عہد کے ایک بڑے انسان

عہد کا سب سے بڑا انسان ہمارے گھر میں میرے سامنے موجود تھا۔۔۔۔


Saeed Parvez February 21, 2014

2014ء شروع ہوا تھا، میں نے جسٹس رانا بھگوان داس (سابق سربراہ سپریم کورٹ آف پاکستان) کو فون کیا اور ان کے گھر حاضری کی اجازت چاہی، تا کہ میں اپنی تازہ کتاب ''اماں'' پیش کر سکوں۔ جسٹس صاحب نے میری بات سنی اور بولے ''جناب سعید پرویز! میں خود آپ کے گھر حاضر ہوں گا''۔ جسٹس صاحب کی بات سن کر بے ساختہ میرے منہ سے نکلا ''سر! آپ آئیں گے!!'' جسٹس صاحب بولے ''کیوں بھئی! کیا ہم آپ کے گھر نہیں آ سکتے؟'' اب میرے پاس مزید کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ جسٹس صاحب اپنی آمد کے پروگرام سے مجھے آگاہ کر رہے تھے ''میں کل یا پرسوں جب آپ فارغ ہوں، صبح 10:30 بجے حاضر ہو جاؤں گا''۔ وہ مزید کہہ رہے تھے ''میں صبح واک کے لیے جاتا ہوں وہیں سے آپ کے گھر چلا آؤں گا''۔ میں نے ہمت کر کے ان سے درخواست کی کہ آپ اتوار والے دن آئیے تا کہ میرے بچے بھی آپ سے مل سکیں''۔ میری درخواست فوراً مانتے ہوئے انھوں نے کہا ''ٹھیک ہے میں اتوار والے دن دوپہر 12 بجے آ جاؤں گا''۔

یہ اتوار کا دن اور تاریخ 5 جنوری 2014ء تھی۔ جسٹس صاحب کا صبح میں فون آیا۔ وہ معذرت چاہتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ '' سعید پرویز صاحب ! اچانک ایک فوتگی کی وجہ سے مجھے حیدر آباد جانا پڑ گیا، لہٰذا آج حاضر نہ ہونے کی معذرت قبول فرمائیں، آیندہ آمد سے میں مطلع کر دوں گا''۔ عین اگلے روز یعنی 6 جنوری 2014ء کی صبح 9:30 بجے ہماری بھابی (بیگم حبیب جالب) کا لاہور میں انتقال ہو گیا۔ صبح 10:30 بجے سے تمام ٹی وی چینلز بھابی صاحبہ کے انتقال کی خبر مسلسل نشر کر رہے تھے۔ جسٹس رانا بھگوان داس صاحب اپنے پروگرام کے مطابق حیدر آباد پہنچ چکے تھے، میرے گھر سب سے پہلا تعزیتی فون جسٹس صاحب نے کیا وہ کہہ رہے تھے ''جناب سعید پرویز صاحب! آپ کی بھاوج کے انتقال کی خبر ٹی وی چینلز پر ابھی ابھی دیکھی ہے، خدا ان کی مغفرت کرے، ان کے درجات بلند کرے اور میری طرف سے تمام لواحقین کے لیے صبر جمیل کی بھی دعا ہے'' اور پھر سارا دن گزرنے کے بعد مجھے خیال آ رہا تھا کہ ''میری اس شہر میں کس کس سے شناسائی ہے''۔

خیر ہفتہ دس روز گزرے کہ اچانک جسٹس رانا بھگوان داس صاحب آ گئے۔ یہ اتوار کا ہی دن تھا اور 19 جنوری 2014ء تاریخ تھی۔ میرے چھوٹے بیٹے نعمان حسن نے دروازہ کھولا تو سامنے جسٹس صاحب کھڑے تھے۔ بیٹا انھیں پہچانتا تھا۔ وہ انھیں اندر لے آیا۔ میں اس وقت بھائی جالب صاحب کے بڑے بیٹے ناصر سے فون پر بات کر رہا تھا، میں نے اچانک ڈرائنگ روم میں جسٹس صاحب کو داخل ہوتے دیکھا تو کھڑا ہو گیا اور ناصر سے کہا ''جسٹس رانا بھگوان داس آئے ہیں، پھر بات کروں گا''۔ جسٹس صاحب مجھے کہہ رہے تھے ''آپ (فون پر) بات مکمل کر لیں''۔ مگر میں سب کچھ بھول گیا تھا۔ میں دیکھ رہا تھا۔ عہد کا سب سے بڑا انسان ہمارے گھر میں میرے سامنے موجود تھا۔ گھر کی پہلی منزل سے میرا منجلا بیٹا ڈاکٹر ذیشان حسن اترا اور جسٹس صاحب کو دیکھ کر وہ بھی حیران اور خوش ہو رہا تھا۔ جسٹس صاحب ذیشان سے کہہ رہے تھے ''اچھا تو آپ کی Name Plate دروازے پر لگی ہوئی ہے'' اور مزید پوچھ رہے تھے ''آپ نے ایم بی بی ایس کہاں سے کیا؟'' ذیشان نے بتایا ''سر! میں نے سندھ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا ہے''۔ جسٹس صاحب کے پوچھنے پر ذیشان نے یہ بھی بتایا کہ وہ Movenpick (ہوٹل شیرٹن کا نیا نام) میں چیف میڈیکل آفیسر ہے۔

ذیشان جسٹس صاحب سے کہہ رہا تھا ''سر! آپ گھر آئے آپ نے بڑا کرم کیا'' اور جواباً جسٹس صاحب کہہ رہے تھے ''بھئی! سعید صاحب سے ہماری نیاز مندی ہے، سو ہم حاضر ہو گئے'' اور میں سوچ رہا تھا یہ جو ہمارے گھر درویش آیا ہے یہی وہ شخص ہے جس نے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی پرواہ کیے بغیر جسٹس افتخار محمد چوہدری سابق چیف جسٹس آف پاکستان کی بحالی کا یادگار ترین فیصلہ سنایا تھا۔ مجھے یاد ہے جسٹس رانا بھگوان داس صاحب رخصت پر تھے اور اپنے عزیز و اقارب سے ملنے اور مقدس مقامات کی یاترا کے لیے ہندوستان گئے ہوئے تھے۔ پاکستان کے حالات انتہائی نازک تھے۔ انھیں فوری طور پر وطن واپسی کے لیے کہا گیا اور جسٹس صاحب سب کچھ چھوڑ چھاڑ وطن کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے واپس چلے آئے تھے۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہونے کے ناتے چیف جسٹس سپریم کورٹ کا حلف اٹھایا اور پھر فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری صاحب کو بحال کر دیا۔

میرا سب سے بڑا بیٹا فرحان حسن بھی جسٹس صاحب کی آمد کا سن کر آ گیا تھا۔ فرحان ایک نجی بینک میں ایریا منیجر ہے۔ فرحان نے بھی جسٹس صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''مجھے خوب یاد ہے جب آپ ہندوستان سے کراچی ایئرپورٹ پر اترے تھے تو آپ سے صحافیوں نے جسٹس افتخار صاحب کے کیس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا تھا کہ آئین اور قانون کے مطابق سب کچھ ہو گا'' جسٹس صاحب خوش ہو رہے تھے کہ حبیب جالب کے گھرانے کے بچے حالات و واقعات سے باخبر رہنے والے بچے ہیں۔ بچوں نے جسٹس صاحب کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔

میں نے جسٹس صاحب کو بتایا کہ یہی وہ کمرہ ہے جہاں حبیب جالب امن ایوارڈ کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا تھا۔ مرحوم حسن عابدی ایوارڈ کمیٹی کے سربراہ بنائے گئے۔ زاہدہ حنا صاحبہ ایوارڈ کمیٹی کے لیے تجاویز اور ضابطے لکھ کر لائی تھیں جنھیں منظور کیا گیا، ایوارڈ کمیٹی کے ارکان ممنون حسین (موجودہ صدر پاکستان) مسلم شمیم ایڈوکیٹ بھی موجود تھے۔

جسٹس رانا بھگوان داس سے میری پہلی ملاقات 2008ء میں ہوئی تھی۔ 2008ء کا حبیب جالب امن ایوارڈ بیرسٹر اعتزاز احسن کو پیش کیا گیا تھا اور ایوارڈ جسٹس رانا بھگوان داس کے ہاتھوں اعتزاز احسن نے وصول کیا تھا۔ یہ تقریب پاکستان کے ہائیڈ پارک کراچی پریس کلب میں منعقد ہوئی تھی۔ 30 اپریل 2008ء وہ دن تھا کہ جب وکلا تحریک کے روح رواں اعتزاز احسن کا حکومت کو دیے گئے الٹی میٹم کا آخری دن تھا۔ وکلا حضرات الٹی گنتی گنتے ہوئے آخری دن 30 اپریل تک پہنچے تھے، اتنے اہم دن اعتزاز احسن نے کراچی پریس کلب پہنچ کر حبیب جالب امن ایوارڈ کی تقریب کو وکلا تحریک کا حصہ بنا دیا، مجھے خوب یاد ہے، کراچی کا شیر دل صحافی مرحوم نجیب احمد تقریب شروع ہونے سے پہلے اسٹیج پر چڑھ کر فلک شگاف نعرے لگا رہا تھا۔ دو اہم قانون دان موجود تھے۔ صدر تقریب جسٹس رانا بھگوان داس اور سپریم کورٹ بار کے صدر اعتزاز احسن۔ پریس کلب کا بیک یارڈ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ملک کے تمام ٹی وی چینلز براہ راست تقریب نشر کر رہے تھے۔ جسے دنیا بھر میں دیکھا جا رہا تھا۔ ٹھیک 6 بجے شام تقریب کو شروع ہونا تھا۔ مجھے صحافی اے ایچ خانزادہ نے کہا ''چلیے سعید بھائی! تقریب کا آغاز کریں''۔ اس وقت تک اعتزاز احسن نہیں آئے تھے۔ ہم بھی یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ 30 اپریل الٹی گنتی کا آخری دن اعتزاز احسن نہیں آ سکیں گے۔ اب میں اسٹیج کی جانب بڑھ رہا تھا کہ پریس کلب کراچی اچانک نعروں سے گونج اٹھا۔ اپنے وقت کا مشہور نعرہ ''چیف تیرے جاں نثار' بے شمار بے شمار'' گونج رہا تھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ صاحب اعزاز جنھیں حبیب جالب امن ایوارڈ سال 2008ء وصول کرنا تھا وہی اعتزاز احسن تقریب گاہ میں پہنچ چکے تھے۔ زاہدہ حنا، عبدالحمید چھاپرا، شاعر صابر ظفر بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ یہ وہ تقریب تھی جو مجھے ہمارے عہد کے ایک بہت بڑے انسان رانا بھگوان داس کے پاس لے گئی تھی۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ حبیب جالب بھی سچے اور کھرے انسان تھے تو خدا اس حوالے سے مجھے سچے اور کھرے لوگوں سے ملواتا رہتا ہے۔ ذرا غور فرمائیں اب تک پچھلے سات سالوں میں حبیب جالب امن ایوارڈ ان سات شخصیات کو دیا جا چکا ہے۔ سوبھو گیان چندانی، اعتزاز احسن، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، ڈاکٹر رتھ فاؤ، فخر الدین جی ابراہیم اور معراج محمد خان۔ اب آٹھواں ایوارڈ سال 2014ء انشاء اللہ 30 اپریل کے دن بے باک صحافی عبدالحمید چھاپرا کو دیا جائے گا۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ تمام ایوارڈ یافتگان نے ایوارڈ خود وصول کیا ہے۔ جالب کو یاد کرتے ہوئے کالم ختم کروں گا وہ غزل جو قیدوبند کے سلسلوں سے بہت پہلے جالب صاحب نے کہہ دی تھی:

ہم کو نظروں سے گرانے والے
ڈھونڈ اب ناز اٹھانے والے
چھوڑ جائیں گے کچھ ایسی یادیں
روئیں گے ہم کو زمانے والے
رہ گئے نقش ہمارے باقی
مٹ گئے ہم کو مٹانے والے
دیکھ وہ صبح کا سورج نکلا
مسکرا اشک بہانے والے
ان زمینوں پہ گہر برسیں گے
ایسے کچھ ابر ہیں چھانے والے
آس میں بیٹھے ہیں جن کی جالبؔ
وہ زمانے بھی ہیں آنے والے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں