خوش دلی اور خوش گمانی
اگر یہ پاکستان کے عوام کے حق میں ہے جو کہ ہے تو پھر کیوں یہ لوگ بدگمانی کے بجائے خوش گمانی سے کام نہیں لیتے
ISLAMABAD:
مجھ سمیت وطنِ عزیز کے وہ تمام لوگ جو گزشتہ صدی کی پانچویں دہائی تک میں پیدا ہوئے اس بات کے شاہد اور گواہ ہیں کہ تمام تر مسائل کے باوجود ہمارے معاشرے میں خوش دلی اور خوش گمانی بہت حد تک موجود تھی، جو کہتے تھے وہ سنتے بھی تھے۔
اخبارات میں عموماً ایک ہی مرکزی فکاہیہ کالم ہوتا تھا جسے چراغ حسن حسّرت، احمد ندیم قاسمی، نصراللہ خان، انتظار حسین، ظہور عالم شہید اور ابنِ انشا جیسے باقاعدہ تربیت یافتہ اور اعلیٰ درجے کے ادبی لکھاری لکھا کرتے تھے، یہ لوگ سیاست، سیاست دانوں اور عوامی مسائل پر بڑے ہلکے پھلکے مگر بہت معنی خیز انداز میں بات کرتے تھے۔
آج کل کی میڈیائی افترا پردازی اور بدتمیزی کا سایا بھی اُن کی تحریروں میں نظر نہیں آتا ، ان کے کالموں میں بھی سیاست دانوں کے بگاڑے ہوئے نام، سکینڈلز، لطیفے اور طنزیہ جملے جگہ جگہ نظر آتے تھے مگر یہ وہ تنقید تھی جسے برائے اصلاح کہا جاسکتا ہے اور عام طور پر یہ لوگ اس حدیثِ مبارک پر بھی عمل کرتے تھے۔
جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب کسی شخص یا اجنبی سے پہلی بار ملو تو اُس کے بارے میں خوش گمانی سے کام لو ممکن ہے آگے چل کر وہ اس روّیئے کا حق دار ثابت نہ ہو مگر کسی شخص کے بارے میں بغیر اُسے جانے بدگمانی سے آغاز کرنا اور یہ خیال کرنا کہ اس بدگمانی کو غلط ثابت کرنا اُس کی ذمے داری ہے وہ منفی اور خطرناک روّیہ ہے جس نے آج ہمارے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔
ساری دنیا میں سیاسی حوالے سے حزبِ اختلاف کا مطلب وہ لوگ ہوتے ہیں جو حکمران جماعت کا حصہ نہیں ہوتے اور یوں اس کی سب غلط پالیسیوں یا غلطیوں کی نہ صرف نشاندہی کرتے ہیں بلکہ اُن کے بارے میں اپنا تجزیہ اور حل بھی پیش کرتے ہیں اور جماعتی سطح پر ایک Shadow Cabinet بھی تیار رکھتے ہیں۔
تاکہ جب انھیں موقع ملے تو وہ انھی مسائل کو حل کرنے کی پوزیشن میں ہوں اور سب سے بڑی بات یہ کہ اسمبلی یا سینیٹ میں کوئی جس طرف بھی بیٹھے اُس کی اصل پارٹی پاکستان اور اُس کے عوام ہی ہونا چاہیے کہ کوئی بھی سیاستدان وہ دائیں بازو کا ہو یا بائیں بازو کا اُس کے نظریات سُرخی مائل ہوں یا سبزی مائل اس کا اصل مقصد اورمنصب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ ملک کو اپنی ذات اور جماعت دونوں سے آگے اورپہلے رکھے۔
بدقسمتی سے وطنِ عزیزمیں یہ روایت پھلنے پھولنے کے بجائے خزاں کے ہتھے چڑھ گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹیوں کے سربراہوں اور ترجمانوں سمیت سب کے سب ایک ہذیان کی سی کیفیت میں مبتلا ہیں، ٹی وی چینل ہوں۔
اخبارات یا عوامی جلسے ہر جگہ پر لوگ ایک دوسرے کی توہین کرتے اور مذاق اُڑاتے نظر آتے ہیں اور رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی ہے کہ جس میں بعض لوگ باقاعدہ پلاننگ سے اور زیادہ تر بغیر کسی وجہ کے صرف شغل میلے کی خاطر ایسی گندی، بیہودہ ، جھوٹی،اخلاق سے گری ہوئی اور ملک دشمنی سے متعلق خبریں پھیلاتے رہتے ہیں کہ ان کی زد سے کوئی بھی محفوظ نہیں، ٹیکنالوجی کی ترقی اور آسان رسائی نے اس صورتِ حال کو مزید بھیانک اور خطرناک بنا دیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے چند روز قبل والے قوم سے خطاب میں انھوں نے اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے اپنے جس پیکا نامی آرڈینینس کی حمایت کی ہے اس پر میڈیا اور صحافی برادری کی بے چینی اور احتجاج صحیح بھی ہے اور قابلِ فہم بھی کہ بادی النظر میں اس کا اطلاق سوشل میڈیا پر کم اور اُن کی آزادی تحریروتقریر پر زیادہ ہوگا، اب اگر دونوں طرف کی کچھ باتیں اور تحفظات صحیح ہیں تو کیوں نہیں کوئی درمیانی راستہ نکالا جاتا جو کہ مہذب قوموں کا شیوہ ہے۔
میں پھر اس بات کو دہراؤں گا کہ اگر پاکستان ہم سب کا ہے اور ہم سب اس کی فلاح اور ترقی میں برابر کے حصے دار ہیں تو کیوں اس قانون کے اصل مقصد یعنی سوشل میڈیا کے ایک حصے کی شرانگیزی اور تخریب کاری کو روکنے کے لیے کوئی ایسا موثر طریقہ اور راستہ نہیں نکالا جاسکتا کہ اس کے غلط استعمال سے متعلق مبینہ خدشے ختم ہوجائیں اور پاکستان کے شہریوں کو ان کے لیڈروں سمیت وہ تحفظ بھی فراہم ہوجائے جس کے لیے یہ قانون بنایا گیا ہے۔
برادرم ڈاکٹراسلم ڈوگر آج کل روزانہ احباب کو مختلف مسائل سے متعلق اپنے تاثرات بذریعہ فیس بُک بھیجتے رہتے ہیں جن میں سے اکثر کا بنیادی موضوع یہی خوش دلی اور خوش گمانی کی کمی ہے۔
میں اس کالم کے آخر میں اُن کے کچھ اقوال درج کروںگا مگر فی الوقت میں اسی حوالے سے ایک اور بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں، میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں براہ راست سیاسی حالات یا شخصیات پر تبصرہ نہیں کرتا کہ اس میدان میں نہ صرف پہلے سے بہت رش پڑا ہوا ہے بلکہ اس موضوع کا مزاج اور معیاربھی انتہائی پست ہوچکا ہے لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ وزیراعظم کی تقریب کے بعد میں نے ٹاک شوز چینل بدل بدل کر سنے مگر ہر جگہ پر حزبِ اختلاف کے دوستوں نے یا تو اسے اپنے مبینہ لانگ مارچ یا تحریک عدم اعتماد سے پیدا شدہ سرکار کے خوف کا ردّعمل بتایا اور یہ اعلان فرمایا کہ عملی اور معاشی طور پر ان اعلانات پر عمل ممکن ہی نہیں ہے۔
میں کسی بحث میں پڑے بغیر یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ خواہ اس کی وجہ کوئی بھی ہو اگر یہ پاکستان کے عوام کے حق میں ہے جو کہ ہے تو پھر کیوں یہ لوگ بدگمانی کے بجائے خوش گمانی سے کام نہیں لیتے اور پاکستانی عوام کی گوناگوں تکالیف میں کمی کا اس اُمید پر خوش دلی اور ایک منفی اور مخالفانہ روّیئے کے بجائے حکومت سے یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ وہ یہ بہت مشکل کام کیسے کرے گی اور یہ کہ اگر یہ قابلِ عمل ہے تو اس کی حد تک اپنے عوام کی خاطر وہ اس کو متنازعہ بنانے کے بجائے مدد نہ سہی راستہ ضرور دیں گے، واضح رہے کہ یہ بات بھی میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی سیاست سے اُوپر اٹھ کر خوش دلی اور خوش گمانی کے حوالے سے ہی کر رہا ہوں اب آیئے ڈاکٹر اسلم ڈوگر کی باتیں سنتے ہیں۔
''سوشل میڈیا نے دنیا کو ایسا گلوبل ولیج بنا دیا ہے جس میں سیوریج کا نظام نہیں ہے اس سیوریج کی گندگی بد بو زندگی کو تلخ بنا رہی ہے۔''
''بعض لوگ اللہ کی مخلوق کے لیے عذاب بن کراللہ سے رحم کی تمنا کرتے ہیں انسانی عقل کی حد ہے مگر حماقت کی کوئی حد نہیں''
''امیر غریب کو بے رحمی سے لُوٹتا ہے مگر غریب ، غریب کو زیادہ بے رحمی سے لُوٹتا ہے''
مجھ سمیت وطنِ عزیز کے وہ تمام لوگ جو گزشتہ صدی کی پانچویں دہائی تک میں پیدا ہوئے اس بات کے شاہد اور گواہ ہیں کہ تمام تر مسائل کے باوجود ہمارے معاشرے میں خوش دلی اور خوش گمانی بہت حد تک موجود تھی، جو کہتے تھے وہ سنتے بھی تھے۔
اخبارات میں عموماً ایک ہی مرکزی فکاہیہ کالم ہوتا تھا جسے چراغ حسن حسّرت، احمد ندیم قاسمی، نصراللہ خان، انتظار حسین، ظہور عالم شہید اور ابنِ انشا جیسے باقاعدہ تربیت یافتہ اور اعلیٰ درجے کے ادبی لکھاری لکھا کرتے تھے، یہ لوگ سیاست، سیاست دانوں اور عوامی مسائل پر بڑے ہلکے پھلکے مگر بہت معنی خیز انداز میں بات کرتے تھے۔
آج کل کی میڈیائی افترا پردازی اور بدتمیزی کا سایا بھی اُن کی تحریروں میں نظر نہیں آتا ، ان کے کالموں میں بھی سیاست دانوں کے بگاڑے ہوئے نام، سکینڈلز، لطیفے اور طنزیہ جملے جگہ جگہ نظر آتے تھے مگر یہ وہ تنقید تھی جسے برائے اصلاح کہا جاسکتا ہے اور عام طور پر یہ لوگ اس حدیثِ مبارک پر بھی عمل کرتے تھے۔
جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب کسی شخص یا اجنبی سے پہلی بار ملو تو اُس کے بارے میں خوش گمانی سے کام لو ممکن ہے آگے چل کر وہ اس روّیئے کا حق دار ثابت نہ ہو مگر کسی شخص کے بارے میں بغیر اُسے جانے بدگمانی سے آغاز کرنا اور یہ خیال کرنا کہ اس بدگمانی کو غلط ثابت کرنا اُس کی ذمے داری ہے وہ منفی اور خطرناک روّیہ ہے جس نے آج ہمارے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔
ساری دنیا میں سیاسی حوالے سے حزبِ اختلاف کا مطلب وہ لوگ ہوتے ہیں جو حکمران جماعت کا حصہ نہیں ہوتے اور یوں اس کی سب غلط پالیسیوں یا غلطیوں کی نہ صرف نشاندہی کرتے ہیں بلکہ اُن کے بارے میں اپنا تجزیہ اور حل بھی پیش کرتے ہیں اور جماعتی سطح پر ایک Shadow Cabinet بھی تیار رکھتے ہیں۔
تاکہ جب انھیں موقع ملے تو وہ انھی مسائل کو حل کرنے کی پوزیشن میں ہوں اور سب سے بڑی بات یہ کہ اسمبلی یا سینیٹ میں کوئی جس طرف بھی بیٹھے اُس کی اصل پارٹی پاکستان اور اُس کے عوام ہی ہونا چاہیے کہ کوئی بھی سیاستدان وہ دائیں بازو کا ہو یا بائیں بازو کا اُس کے نظریات سُرخی مائل ہوں یا سبزی مائل اس کا اصل مقصد اورمنصب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ ملک کو اپنی ذات اور جماعت دونوں سے آگے اورپہلے رکھے۔
بدقسمتی سے وطنِ عزیزمیں یہ روایت پھلنے پھولنے کے بجائے خزاں کے ہتھے چڑھ گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹیوں کے سربراہوں اور ترجمانوں سمیت سب کے سب ایک ہذیان کی سی کیفیت میں مبتلا ہیں، ٹی وی چینل ہوں۔
اخبارات یا عوامی جلسے ہر جگہ پر لوگ ایک دوسرے کی توہین کرتے اور مذاق اُڑاتے نظر آتے ہیں اور رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی ہے کہ جس میں بعض لوگ باقاعدہ پلاننگ سے اور زیادہ تر بغیر کسی وجہ کے صرف شغل میلے کی خاطر ایسی گندی، بیہودہ ، جھوٹی،اخلاق سے گری ہوئی اور ملک دشمنی سے متعلق خبریں پھیلاتے رہتے ہیں کہ ان کی زد سے کوئی بھی محفوظ نہیں، ٹیکنالوجی کی ترقی اور آسان رسائی نے اس صورتِ حال کو مزید بھیانک اور خطرناک بنا دیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے چند روز قبل والے قوم سے خطاب میں انھوں نے اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے اپنے جس پیکا نامی آرڈینینس کی حمایت کی ہے اس پر میڈیا اور صحافی برادری کی بے چینی اور احتجاج صحیح بھی ہے اور قابلِ فہم بھی کہ بادی النظر میں اس کا اطلاق سوشل میڈیا پر کم اور اُن کی آزادی تحریروتقریر پر زیادہ ہوگا، اب اگر دونوں طرف کی کچھ باتیں اور تحفظات صحیح ہیں تو کیوں نہیں کوئی درمیانی راستہ نکالا جاتا جو کہ مہذب قوموں کا شیوہ ہے۔
میں پھر اس بات کو دہراؤں گا کہ اگر پاکستان ہم سب کا ہے اور ہم سب اس کی فلاح اور ترقی میں برابر کے حصے دار ہیں تو کیوں اس قانون کے اصل مقصد یعنی سوشل میڈیا کے ایک حصے کی شرانگیزی اور تخریب کاری کو روکنے کے لیے کوئی ایسا موثر طریقہ اور راستہ نہیں نکالا جاسکتا کہ اس کے غلط استعمال سے متعلق مبینہ خدشے ختم ہوجائیں اور پاکستان کے شہریوں کو ان کے لیڈروں سمیت وہ تحفظ بھی فراہم ہوجائے جس کے لیے یہ قانون بنایا گیا ہے۔
برادرم ڈاکٹراسلم ڈوگر آج کل روزانہ احباب کو مختلف مسائل سے متعلق اپنے تاثرات بذریعہ فیس بُک بھیجتے رہتے ہیں جن میں سے اکثر کا بنیادی موضوع یہی خوش دلی اور خوش گمانی کی کمی ہے۔
میں اس کالم کے آخر میں اُن کے کچھ اقوال درج کروںگا مگر فی الوقت میں اسی حوالے سے ایک اور بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں، میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں براہ راست سیاسی حالات یا شخصیات پر تبصرہ نہیں کرتا کہ اس میدان میں نہ صرف پہلے سے بہت رش پڑا ہوا ہے بلکہ اس موضوع کا مزاج اور معیاربھی انتہائی پست ہوچکا ہے لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ وزیراعظم کی تقریب کے بعد میں نے ٹاک شوز چینل بدل بدل کر سنے مگر ہر جگہ پر حزبِ اختلاف کے دوستوں نے یا تو اسے اپنے مبینہ لانگ مارچ یا تحریک عدم اعتماد سے پیدا شدہ سرکار کے خوف کا ردّعمل بتایا اور یہ اعلان فرمایا کہ عملی اور معاشی طور پر ان اعلانات پر عمل ممکن ہی نہیں ہے۔
میں کسی بحث میں پڑے بغیر یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ خواہ اس کی وجہ کوئی بھی ہو اگر یہ پاکستان کے عوام کے حق میں ہے جو کہ ہے تو پھر کیوں یہ لوگ بدگمانی کے بجائے خوش گمانی سے کام نہیں لیتے اور پاکستانی عوام کی گوناگوں تکالیف میں کمی کا اس اُمید پر خوش دلی اور ایک منفی اور مخالفانہ روّیئے کے بجائے حکومت سے یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ وہ یہ بہت مشکل کام کیسے کرے گی اور یہ کہ اگر یہ قابلِ عمل ہے تو اس کی حد تک اپنے عوام کی خاطر وہ اس کو متنازعہ بنانے کے بجائے مدد نہ سہی راستہ ضرور دیں گے، واضح رہے کہ یہ بات بھی میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی سیاست سے اُوپر اٹھ کر خوش دلی اور خوش گمانی کے حوالے سے ہی کر رہا ہوں اب آیئے ڈاکٹر اسلم ڈوگر کی باتیں سنتے ہیں۔
''سوشل میڈیا نے دنیا کو ایسا گلوبل ولیج بنا دیا ہے جس میں سیوریج کا نظام نہیں ہے اس سیوریج کی گندگی بد بو زندگی کو تلخ بنا رہی ہے۔''
''بعض لوگ اللہ کی مخلوق کے لیے عذاب بن کراللہ سے رحم کی تمنا کرتے ہیں انسانی عقل کی حد ہے مگر حماقت کی کوئی حد نہیں''
''امیر غریب کو بے رحمی سے لُوٹتا ہے مگر غریب ، غریب کو زیادہ بے رحمی سے لُوٹتا ہے''