غیر شفاف انتخابات کا دور
73 برسوں کے دوران آمروں اور سویلین ڈکٹیٹروں نے شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام حربے استعمال کیے ہیں
تحریک انصاف کی حکومت آرڈیننس پر چل رہی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب تحریک انصاف حزب اختلاف میں شامل تھی تو پارلیمنٹ کی موجودگی میں آرڈیننس کے اجراء کو جمہوری کلچر کے منافی جانتی تھی۔
2018 سے آج تک کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اس دوران 75 کے قریب قوانین آرڈیننس کے ذریعے نافذ ہوئے۔ اس دوران ایوانِ زیریں میں 376 قوانین کے مسودے جمع ہوئے جن میں سے 168 پارلیمنٹ کے تمام مراحل مکمل کر کے قانون بن گئے۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو 26 قانونی مسودوں کا مستقبل طے کرنا ہے۔ حکومت نے سائبر کرائمز آرڈیننس میں بنیادی تبدیلیاں کیں مگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس قانون کی ایک شق کو آئین کے منافی قرار دیا۔
اس شق کے تحت ایف آئی اے مبینہ فیک نیوز وائرل کرنے والے کو پر گرفتار کر سکتی ہے۔ حکومت نے ایک اور آرڈیننس جاری کیا۔جس کے تحت اب وزیر اعظم ، وفاقی اور صوبائی وزراء، منتخب اراکین اسمبلی انتخابی عمل میں شریک ہوسکتے ہیں اور اس آرڈیننس کے ذریعہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر الیکشن کمیشن کسی وفاقی اور صوبائی وزیر ، منتخب اراکین اور وزیر اعظم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکے گا۔ادھر بھارت میں عام انتخابات کے شفاف اور جمہوری انداز میں انعقاد نے مضبوط جمہوری نظام کو مستحکم کیا ہے۔
بھارت کا الیکشن کمیشن بیوروکریٹس اور ریٹائرڈ بیوروکریسی کے افسران پر مشتمل ہوتا ہے۔ بھارت کے الیکشن کمیشن کے اختیارات سپریم کورٹ سے زیادہ ہیں۔ بھارت کا سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے خلاف حکم امتناعی جاری نہیں کرتا۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے انتخابات میں ریاستی مداخلت کو روکنے کے لیے انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم ، وفاقی اور صوبائی وزراء اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب اراکین کی شمولیت پر پابندی عائد کی ہے۔
اسی طرح کوئی حکومتی عہدیدار الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد کوئی ترقیاتی اسکیم کا اعلان نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس دوران وزراء اور وزیر اعظم منتخب اراکین کسی منصوبہ کا افتتاح کرسکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن پولنگ کے موقعے پر بینکوں سے مقررہ رقم سے زیادہ نکلوانے کی ممانعت کرتا ہے۔ بھارت کی ریاست پنجاب میں پولنگ کے دنوں میں شراب خانے قانونی طور پر بند کر دیے جاتے ہیں ، جب 2002 میں نئی پارلیمنٹ منتخب ہوئی تو پرویز مشرف حکومت نے عام انتخابات کے اعلان کے ساتھ عبوری حکومت کے قیام کی اور بھارت الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی اہم شقوں کو ملک میں نافذ کرنے کا اصولی فیصلہ کیا تھا۔
2005میں پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو اور مسلم لیگ ن کے مرد آہن میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں ایک میثاق پر اتفاق ہوا تھا ، یہ میثاق جمہوریت کہلاتا ہے۔ اس میثاق میں دونوں جماعتوں نے عہد کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد الیکشن کمیشن کو مالیاتی اور انتظامی طور پر خود مختار بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے گی۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دورِ حکومت میں 2010 میں آئین میں اٹھارہویں ترمیم ہوئی۔ اس ترمیم میں صوبائی خود مختاری اور عوام کے جاننے کے حق کو آئینی تحفظ دینے کے لیے ریاست کی ہر شہری کو تعلیم دینے کی ذمے داری کے ساتھ خود مختار الیکشن کمیشن کے قیام کا فیصلہ ہوا۔
اس ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن کے سربراہ اور اراکین کے تقررکے لیے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کا اتفاق لازمی قرار دیا گیا۔ اسی طرح ضابطہ اخلاق کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا۔ انتخابی مہم میں سرکاری مداخلت کو روکنے کے لیے منتخب اراکین کی شرکت پر پابندی عائد کردی گئی۔
پہلے چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم نے کمیشن کو آزادانہ طور پر چلانے کی کوشش کی تو ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کے بعد یہ عہدہ سنبھالنے والے سربراہوں نے دھیمہ رویہ اختیار کیا۔ گزشتہ سال ڈسکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخاب میں 16کے قریب پریزائیڈنگ افسران لاپتہ ہوئے ، وہ ایک ساتھ پولنگ کے دوسرے دن علی الصبح ریٹرننگ افسر کے دفتر میں داخل ہوئے۔
الیکشن کمیشن نے پریزائیڈنگ افسروں کے لاپتہ ہونے اور ضلع حکام اور پنجاب حکومت کی انتخابی عمل میں مداخلت کا ثبوت ملنے پر انتخابی نتائج مسترد کردیے۔ اس حلقہ میں دوبارہ انتخابات ہوئے۔
الیکشن کمیشن نے انتخابی دھاندلیوں کے بارے میں تحقیقات کی اور ایک جامعہ رپورٹ مرتب کی تھی۔ اس رپورٹ کے تحت ضلع افسروں کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے اور لاپتہ ہونے والے پریزائیڈنگ افسروں کے خلاف مقدمات قائم کرنے کے فیصلے ہوئے۔ پاکستان میں پریزائیڈنگ افسروں کے پولنگ والی رات لاپتہ ہونے کے واقعات عام سی بات ہے مگر الیکشن کمیشن نے پہلی دفعہ اتنا جرات مند اقدام اٹھایا تھا۔
سینیٹ کے انتخابات کے لیے حکومت نے اوپن بیلٹ استعمال کرنے کی کوشش کی مگر الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اتنی جلدی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے بیلٹ پیپرکو اوپن کرنے کا نظام قائم نہیں ہوسکتا ، اس لیے فیصلہ پر فوری طور پر عملدرآمد نہیں ہوسکتا۔
الیکشن کمیشن نے اس مشین کے استعمال کی تمام اپیلوں کو باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے یہ رائے دی کہ یہ مشین شفاف انتخابات کی ضامن نہیں ہوسکتی اور اس مشین کے سافٹ ویئرکوکنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ حکومت نے قومی اسمبلی میں اکثریتی ووٹوں کی طاقت سے بغیر کسی بحث و مباحثہ کے اس ترمیم کو منظور کرایا۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ان مشینوں کی درآمد پر اربوں روپے خرچ ہوںگے، بجلی کی لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل علیحدہ ہونگے۔
اس بناء پر 2023 کے مجوزہ انتخابات میں ان مشینوں کا استعمال ممکن نہیں۔ حکومت ہر صورت اس فیصلہ کو نافذ کرنا چاہتی تھی مگر الیکشن کمیشن نے ابھی تک واضح فیصلہ نہیں کیا۔ خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ شروع ہوا تو کمیشن نے منتخب اراکین کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیا۔ حکومت نے پشاورکے الیکشن کمیشن کی پابندی کو پامال کیا۔
کمیشن نے تحریک انصاف کے ہی وزراء اور منتخب اراکین کی انتخابی مہم میں شرکت پر سرزنش کی۔ ایسی ہی سرزنش پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے منتخب اراکین کی بھی ہوئی۔ تحریک انصاف نے 2013 کے انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کی قیادت میں تحقیقاتی کمیشن قائم ہوا۔ تحریک انصاف 2013کے انتخابات میں بڑے پیمانہ پر دھاندلیوں کے الزامات کے شواہد فراہم نہ کرسکی۔
عمران خان اپنے زمانہ میں ہر جگہ میں بار بار یہ اعلان کرتے تھے کہ اگر وہ اقتدار میں آگئے تو مخالف جماعتوں کے مطالبہ پر تمام حلقوں میں دوبارہ گنتی کرانے کی حمایت کریں گے مگر جب مسلم لیگی رہنما سعد رفیق نے عمران خان کی لاہور کی نشست سے کامیابی کو چیلنج کیا اور ریٹرننگ افسر نے دوبارہ گنتی کا مطالبہ مان لیا تو عمران خان نے لاہور ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرلیا تھا۔
عمران خان نے میانوالی کے علاوہ لاہور کی یہ نشست خالی کرنے کا فیصلہ کیا تو ضمنی انتخاب میں خواجہ سعد رفیق نے کامیابی حاصل کی۔ اب شفاف انتخابات کے حصول کے لیے وزراء اور اراکین اسمبلی پر جو بندشیں عائد کی گئی ہیں موجودہ حکومت ان بندشوں کو ختم کرکے پھر پرانے الیکشن کمیشن کی طرف لوٹنا چاہتی ہے، مگر پرانے نظام کو نافذ کرنے سے انتخابات شفاف نہیں ہوسکیں گے۔
73 برسوں کے دوران آمروں اور سویلین ڈکٹیٹروں نے شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام حربے استعمال کیے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ موجودہ حکومت ان آمروں کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔