ناموس صحابہ کرام و اہل بیت عظامؓ
اصحاب و اہل بیت پر انگلی اٹھانا بے ایمانی کی علامت ہے
نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اصحاب و اہل بیت کی عزت و تکریم ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے تاہم مٹھی بھر ناعاقبت اندیش نجانے کس ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں متنازعہ گفتگو کرکے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں۔
کبھی خلیفہ بلا فصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ کی' امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو کبھی امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ سمیت اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے غیر محتاط گفتگو کر کے مسلمانوں میں فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں۔
یہ کام کسی مسلمان کا نہیں بلکہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لیے کسی اسلام دشمن کا لگتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے غیر محتاط گفتگو کرنا کسی طور بھی جائز نہیں ہے۔ وہ آپﷺ کے قریب ترین صحابہ ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور اکرمﷺ کے گھر میں پرورش پائی ہے، حسنین کریمین نبی کریم کے نواسے ہیں، دونوں نے آپ کے سایہ رحمت میں پرورش پائی ہے۔
اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عقد میں آپﷺ کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آئی ہیں، اسی نسبت سے آپ کو ذوالنورین کا لقب ملا یعنی دو نوروں والے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایمان لانے کے بعد نبی کریمﷺ کاتب وحی بنا رہے ہیں، وحی کی کتابت سے بڑی ذمے داری کا منصب اور کیا ہوگا؟ وہ امیر معاویہ جن کی ہمشیرہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور اکرمﷺ کے عقد میں ہیں اور ام المومنین بنیں۔ یہ کوئی فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والی خاتون نہیں ہیں، ابوسفیان کی یہ بیٹی بالکل ابتدا میں ایمان لائیں اور ہجرت حبشہ کرنے والی صحابہ کی جماعت میں شامل تھیں۔
کم و بیش ایک لاکھ چوالیس ہزار صحابہ و اہل بیت کی یہ مقدس جماعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ تھی، جنھوں نے حضورﷺ کی شرف صحبت سے فیض پایا، جن کی ساری زندگی میں آپ کی تاثیر صحبت کا عمل دخل ہے۔
اسی لیے حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے اصحاب کے بارے میں اللہ کے غضب سے بچو، انھیں ہدف تنقید نہ بنانا۔ ان کی نیتوں پر کہیں حملہ نہ کر بیٹھنا۔ جو کوئی ان سے محبت کرتا ہے وہ میری محبت کی وجہ سے کرتا ہے۔ ترمذی شریف میں رسول اللہ کا ارشاد ہے: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی اتباع کرو گے فلاح پا جاؤ گے۔
جماعتِ صحابہ کا وجود، رسول اللہ کے معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ومحبوب کے عالمگیر پیغام ِرسالت کو روئے زمین کے کونے کونے تک اس کی حقیقی روح کے ساتھ پھیلایا اور اس طرح آنحضور کا رحمۃ للعالمین ہونا بھی ثابت کردیا اور وما ارسلنک الا کافۃ للناس (سبا28) کی تفسیر بھی دنیا کے سامنے پیش کردی گئی۔
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاکیزہ برگزیدہ جماعت کے ذریعہ اسلام کا تعارف بھی کرادیاگیا اور رسول عربی کی سیرتِ طیبہ اور سنت کو عام کیاگیا۔ اگر رسول اللہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو الگ رکھ کر ان کوعام انسانوں کی طرح خاطی و عاصی تصور کرکے غیر معتبر قرار دیا جائے گا تو اسلام کی پوری عمارت ہی منہدم ہوجائیگی۔
نہ رسول اللہ کی رسالت معتبر رہے گی، نہ قرآن اور اس کی تفسیر اور حدیث کا اعتبار باقی رہے گا، کیونکہ اللہ کے رسول اللہ نے جو کچھ من جانب اللہ ہم کو عطاء کیا ہے وہ ہم تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کی معرفت پہنچا ہے۔
خود معلم انسانیت محمد عربی نے اپنے جاں نثار اطاعت شعار صحابہؓ کی تربیت فرمائی تھی۔ صحابہ کرامؓ نے اوّل اوّل، زبان رسالت سے آیات اللہ کو ادا ہوتے سنا تھااور کلام رسول کی سماعت کی تھی پھر دونوں کو دیانت وامانت کے ساتھ اسی لب ولہجہ اور مفہوم ومعانی کے ساتھ محفوظ رکھا اور بحکم رسول عربی اس کو دوسروں تک پہنچایا۔ صحابہ ہمارے لیے معیار حق اور مشعل راہ ہیں اور کیوں نہ ہوں، اللہ کریم نے جن کو رضی اللہ عنہ و رضو عنہا کا سرٹیفکیٹ عطا کیا، جنھیں زندگی میں ہی جنت کی بشارتیں دیں، ایسے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت ناقابل برداشت ہے۔
اس ملک میں کچھ اداروں کو مقدس گائے قرار دیا جاتا رہا، اب نام نہاد ریاست مدینہ کے حکمران بھی اسی صف میں کھڑا ہونے کی کوشش کررہے ہیں، اسی لیے ''پیکا'' جیسا قانون بنا کر ناصرف صحافیوں بلکہ اس ملک کے بائیس کروڑ عوام کی زبان بندی کا فیصلہ کیا گیا۔
یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ آپ اس ملک کی کسی حکومتی شخصیت بارے کوئی بات نہیں کرسکتے، ان پر انگلی نہیں اٹھا سکتے لیکن صحابہ کے بارے میں غیر محتاط گفتگو کیوں؟ اگر میری بات غلط ہے تو بتائیں سوشل میڈیا پر مذہبی اور فرقہ واریت کی بنیاد پر باتیں کر کے مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے والوں میں سے کتنوں کے خلاف سائبر کرائم کے مقدمات قائم ہوئے، کتنوں کو گرفتار کیا گیا، کتنوں کو سزائیں ہوئیں؟ کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔
اگر گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ایف آئی اے سائبر کرائم برانچ کی بے مثل و بے مثال کارگزاری دیکھوں تو لگتا ہے اس ادارے کی موجودگی میں کوئی ایسی ناپاک جسارت بھی نہیں کرسکے گا کہ نبی رحمتﷺ ، انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام و اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان اقدس میں کوئی نازیبا بات کہے۔
ایک ٹی وی شو کے دوران مراد سعید کے حوالے سے بات کرنے پر تو معروف صحافی اور وزیراعظم کے دست راست محسن بیگ کو آدھے گھنٹے کے اندر ایف آئی اے سائبر کرائم برانچ کے سرفروشوں نے چادر و چاردیواری کے تحفظ کو پامال کرتے ہوئے ان کے بیٹے سمیت دبوچ لیا اور ان کے گھر کے اندر سے ان کے سافٹ ویئر کی تبدیلی کا آغاز کیا گیا۔ لوگوں نے محسن بیگ کا تشدد زدہ چہرہ ٹی وی اسکرینوں اور سوشل میڈیا پر دیکھا۔
چند دن پہلے صابر ہاشمی نامی شخص کو وزیر اعظم کے خلاف ٹویٹر پر ٹرینڈ چلانے پر ایف آئی اے سائبر کرائم برانچ نے گرفتار کیا۔ ایک طرف یہ پھرتیاں اور دوسری طرف روز کوئی نہ کوئی ذہنی معذور سوشل میڈیا پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں غیرمحتاط پوسٹ شیئر کرتے ہیں ویڈیو کلپس اپ لوڈ ہوتے ہیں مگر نہ کوئی گرفتار ہوا اور نہ کسی کا سافٹ ویئر اپڈیٹ ہوا۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح حضرات صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ کی عزت و ناموس کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے جامع قانون بھی بنایاجائے۔ ایک ایسا قانون جس کے تحت ریاستی ادارے اس بات کے پابند ہوں کہ جہاں کہیں اصحاب و اہل بیت رسول کے حوالے سے غیر محتاط گفتگو سامنے آئے' ادارے فی الفور حرکت میں آئیں تاکہ کوئی ان مقدس ہستیوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی جرات نہ کرسکے۔
ہمیں بحیثیت مسلمان یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کسی سیاستدان، کسی جرنیل، جج یا بیوروکریٹ پر انگلی اٹھانا ، ان سے سوال کرنا حرام یا جرم نہیں لیکن اصحاب و اہل بیت پر انگلی اٹھانا بے ایمانی کی علامت ہے۔
کبھی خلیفہ بلا فصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ کی' امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو کبھی امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ سمیت اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے غیر محتاط گفتگو کر کے مسلمانوں میں فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں۔
یہ کام کسی مسلمان کا نہیں بلکہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لیے کسی اسلام دشمن کا لگتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے غیر محتاط گفتگو کرنا کسی طور بھی جائز نہیں ہے۔ وہ آپﷺ کے قریب ترین صحابہ ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور اکرمﷺ کے گھر میں پرورش پائی ہے، حسنین کریمین نبی کریم کے نواسے ہیں، دونوں نے آپ کے سایہ رحمت میں پرورش پائی ہے۔
اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عقد میں آپﷺ کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آئی ہیں، اسی نسبت سے آپ کو ذوالنورین کا لقب ملا یعنی دو نوروں والے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایمان لانے کے بعد نبی کریمﷺ کاتب وحی بنا رہے ہیں، وحی کی کتابت سے بڑی ذمے داری کا منصب اور کیا ہوگا؟ وہ امیر معاویہ جن کی ہمشیرہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور اکرمﷺ کے عقد میں ہیں اور ام المومنین بنیں۔ یہ کوئی فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والی خاتون نہیں ہیں، ابوسفیان کی یہ بیٹی بالکل ابتدا میں ایمان لائیں اور ہجرت حبشہ کرنے والی صحابہ کی جماعت میں شامل تھیں۔
کم و بیش ایک لاکھ چوالیس ہزار صحابہ و اہل بیت کی یہ مقدس جماعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ تھی، جنھوں نے حضورﷺ کی شرف صحبت سے فیض پایا، جن کی ساری زندگی میں آپ کی تاثیر صحبت کا عمل دخل ہے۔
اسی لیے حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے اصحاب کے بارے میں اللہ کے غضب سے بچو، انھیں ہدف تنقید نہ بنانا۔ ان کی نیتوں پر کہیں حملہ نہ کر بیٹھنا۔ جو کوئی ان سے محبت کرتا ہے وہ میری محبت کی وجہ سے کرتا ہے۔ ترمذی شریف میں رسول اللہ کا ارشاد ہے: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی اتباع کرو گے فلاح پا جاؤ گے۔
جماعتِ صحابہ کا وجود، رسول اللہ کے معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ومحبوب کے عالمگیر پیغام ِرسالت کو روئے زمین کے کونے کونے تک اس کی حقیقی روح کے ساتھ پھیلایا اور اس طرح آنحضور کا رحمۃ للعالمین ہونا بھی ثابت کردیا اور وما ارسلنک الا کافۃ للناس (سبا28) کی تفسیر بھی دنیا کے سامنے پیش کردی گئی۔
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاکیزہ برگزیدہ جماعت کے ذریعہ اسلام کا تعارف بھی کرادیاگیا اور رسول عربی کی سیرتِ طیبہ اور سنت کو عام کیاگیا۔ اگر رسول اللہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو الگ رکھ کر ان کوعام انسانوں کی طرح خاطی و عاصی تصور کرکے غیر معتبر قرار دیا جائے گا تو اسلام کی پوری عمارت ہی منہدم ہوجائیگی۔
نہ رسول اللہ کی رسالت معتبر رہے گی، نہ قرآن اور اس کی تفسیر اور حدیث کا اعتبار باقی رہے گا، کیونکہ اللہ کے رسول اللہ نے جو کچھ من جانب اللہ ہم کو عطاء کیا ہے وہ ہم تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کی معرفت پہنچا ہے۔
خود معلم انسانیت محمد عربی نے اپنے جاں نثار اطاعت شعار صحابہؓ کی تربیت فرمائی تھی۔ صحابہ کرامؓ نے اوّل اوّل، زبان رسالت سے آیات اللہ کو ادا ہوتے سنا تھااور کلام رسول کی سماعت کی تھی پھر دونوں کو دیانت وامانت کے ساتھ اسی لب ولہجہ اور مفہوم ومعانی کے ساتھ محفوظ رکھا اور بحکم رسول عربی اس کو دوسروں تک پہنچایا۔ صحابہ ہمارے لیے معیار حق اور مشعل راہ ہیں اور کیوں نہ ہوں، اللہ کریم نے جن کو رضی اللہ عنہ و رضو عنہا کا سرٹیفکیٹ عطا کیا، جنھیں زندگی میں ہی جنت کی بشارتیں دیں، ایسے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت ناقابل برداشت ہے۔
اس ملک میں کچھ اداروں کو مقدس گائے قرار دیا جاتا رہا، اب نام نہاد ریاست مدینہ کے حکمران بھی اسی صف میں کھڑا ہونے کی کوشش کررہے ہیں، اسی لیے ''پیکا'' جیسا قانون بنا کر ناصرف صحافیوں بلکہ اس ملک کے بائیس کروڑ عوام کی زبان بندی کا فیصلہ کیا گیا۔
یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ آپ اس ملک کی کسی حکومتی شخصیت بارے کوئی بات نہیں کرسکتے، ان پر انگلی نہیں اٹھا سکتے لیکن صحابہ کے بارے میں غیر محتاط گفتگو کیوں؟ اگر میری بات غلط ہے تو بتائیں سوشل میڈیا پر مذہبی اور فرقہ واریت کی بنیاد پر باتیں کر کے مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے والوں میں سے کتنوں کے خلاف سائبر کرائم کے مقدمات قائم ہوئے، کتنوں کو گرفتار کیا گیا، کتنوں کو سزائیں ہوئیں؟ کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔
اگر گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ایف آئی اے سائبر کرائم برانچ کی بے مثل و بے مثال کارگزاری دیکھوں تو لگتا ہے اس ادارے کی موجودگی میں کوئی ایسی ناپاک جسارت بھی نہیں کرسکے گا کہ نبی رحمتﷺ ، انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام و اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان اقدس میں کوئی نازیبا بات کہے۔
ایک ٹی وی شو کے دوران مراد سعید کے حوالے سے بات کرنے پر تو معروف صحافی اور وزیراعظم کے دست راست محسن بیگ کو آدھے گھنٹے کے اندر ایف آئی اے سائبر کرائم برانچ کے سرفروشوں نے چادر و چاردیواری کے تحفظ کو پامال کرتے ہوئے ان کے بیٹے سمیت دبوچ لیا اور ان کے گھر کے اندر سے ان کے سافٹ ویئر کی تبدیلی کا آغاز کیا گیا۔ لوگوں نے محسن بیگ کا تشدد زدہ چہرہ ٹی وی اسکرینوں اور سوشل میڈیا پر دیکھا۔
چند دن پہلے صابر ہاشمی نامی شخص کو وزیر اعظم کے خلاف ٹویٹر پر ٹرینڈ چلانے پر ایف آئی اے سائبر کرائم برانچ نے گرفتار کیا۔ ایک طرف یہ پھرتیاں اور دوسری طرف روز کوئی نہ کوئی ذہنی معذور سوشل میڈیا پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں غیرمحتاط پوسٹ شیئر کرتے ہیں ویڈیو کلپس اپ لوڈ ہوتے ہیں مگر نہ کوئی گرفتار ہوا اور نہ کسی کا سافٹ ویئر اپڈیٹ ہوا۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح حضرات صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ کی عزت و ناموس کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے جامع قانون بھی بنایاجائے۔ ایک ایسا قانون جس کے تحت ریاستی ادارے اس بات کے پابند ہوں کہ جہاں کہیں اصحاب و اہل بیت رسول کے حوالے سے غیر محتاط گفتگو سامنے آئے' ادارے فی الفور حرکت میں آئیں تاکہ کوئی ان مقدس ہستیوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی جرات نہ کرسکے۔
ہمیں بحیثیت مسلمان یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کسی سیاستدان، کسی جرنیل، جج یا بیوروکریٹ پر انگلی اٹھانا ، ان سے سوال کرنا حرام یا جرم نہیں لیکن اصحاب و اہل بیت پر انگلی اٹھانا بے ایمانی کی علامت ہے۔