سندھ حکومت نے شاہ رخ جتوئی پر عائد دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کی حمایت کردی
جب قتل پر راضی نامہ ہوگیا تو دہشت گردی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟ پراسیکیوٹر جنرل سندھ کا سپریم کورٹ میں جواب
لاہور:
سندھ حکومت قتل کے مجرم شاہ رخ جتوئی کی حمایت میں کھل کر سامنے آگئی، سپریم کورٹ میں دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ جب قتل پر راضی نامہ ہوگیا تو دہشت گردی کی دفعات برقرار کیسے رہ سکتی ہے؟
سپریم کورٹ میں شاہ رخ جتوئی اور ساتھی مجرمان کی عمر قید کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی جس میں پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے شاہ رخ جتوئی پر سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کی حمایت کردی۔
شاہ رخ جتوئی کے وکیل نے کہا کہ شاہ رخ کے خلاف دہشت گردی کا کیس نہیں بنتا، سپریم کورٹ کے 7 رکنی بنچ کا فیصلہ واضح ہے، راضی نامہ ہونے کے باوجود شاہ رخ جتوئی آٹھ سال سے جیل میں ہے۔
دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کی درخواست پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سندھ حکومت بتائے کیا دہشت گردی کی دفعہ الگ سے برقرار رہ سکتی ہے؟ اس پر پراسیکیوٹر جنرل سندھ لطیف کھوسہ نے کہا کہ شاہ رخ جتوئی کے خلاف اصل کیس تو 302 کا تھا، جب قتل پر راضی نامہ ہوگیا تو دہشت گردی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟ اگر شاہ زیب صرف زخمی ہوتا تو دہشتگردی کی دفعہ بھی نہ لگتی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ انسداد دہشت گردی قانون میں کہاں لکھ ہے کہ راضی نامہ نہیں ہوسکتا ؟ وکیل شاہ رخ جتوئی نے کہا کہ اگر عدالت یہ قرار دے تو بہت لوگوں کا بھلا ہو جائے گا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت ایسا کوئی فیصلہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی، دہشت گردی اور قتل دو الگ الگ جرائم ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ دہشت گردی کے کیس میں سمجھوتہ نہیں ہوسکتا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا سڑک پر کسی کو کلاشنکوف سے قتل کرنا دہشت گردی نہیں ہوگی؟ اس پر پراسیکیورٹر جنرل نے کہا کہ میری ذاتی رائے میں یہ دہشت گردی ہے لیکن عدالتی فیصلے کے مطابق نہیں ہے، شاہ رخ جتوئی 17 سال کا بچہ تھا رات گیارہ بجے گلی میں واقعہ پیش آیا، مقتول کے اہل خانہ راضی نامہ کرکے آسٹریلیا منتقل ہو چکے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو سوال اٹھائے ہیں ان پر فریقین کو مزید تیاری کا موقع دیتے ہیں، ضروری ہوا تو عدالتی معاون مقرر کرکے لارجر بنچ کی درخواست بھی کریں گے۔
بعدازاں عدالت نے مزید سماعت 10 مارچ تک ملتوی کر دی۔