تعلیم کو بچا لیجیے
دنیا میں قوموں کی ترقی اور خوش حالی کا سچا حوالہ تعلیم و تعلم ہی ہے
BUREWALA:
یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ جن قوموں نے تعلیم کو اپنے منشور اور اپنی ترجیحات میں شامل کیا ، وہ آج ترقی یافتہ اورکامیاب اقوام ہیں۔ دنیا میں قوموں کی ترقی اور خوش حالی کا سچا حوالہ تعلیم و تعلم ہی ہے۔
ماضی میں مسلمانوں نے علم کے ذریعے دنیا پر حکمرانی کی۔ آج مغربی دنیا علمی و سائنسی تحقیق کی بدولت ہم سے بہت آگے ہے۔ دنیا میں مسلسل ترقی اورکامیابی کے حصول میں تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور ایک صحت مند اور بہترین تعلیمی نظام کی ضمانت استاد ہی دے سکتا ہے۔ استاد کی وجہ سے ایک باشعور اور تعلیم یافتہ معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
اساتذہ قوم کے معمار ہیں اور نونہالوں کی سیرت کو سنوارنے ، انھیں مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور ان کی کردار سازی میں اہم ترین فریضہ سر انجام دیتے اور انھیں محقق ، ڈاکٹر ، انجینئر ، سائنسدان ، سیاستدان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارہائے منصبی پر فائزکرتے آرہے ہیں۔ درس و تدریس کے پیشے کو دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اسلام نے بھی معلم کو بے حد عزت و احترام عطا کیا ہے۔
خود خاتم النبین محمد ﷺ نے فرمایا '' مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔'' اس سے ظاہرہوتا ہے کہ اسلام میں معلم کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلیٰ و ارفع ہے۔ اپنے مقام و مرتبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اساتذہ کو غورکرنا چاہیے کہ وہ اپنے فرائض منصبی کو احسن طور پرسر انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔ وہ اپنے طلباء کی صحیح سمت میں رہنمائی کررہے ہیں یا اپنی خدمات کو محض ایک ڈیوٹی سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔
ایک استاد کے لیے طلباء کی تربیت کرنا ، انھیں صحیح راستہ دکھانا ، زندگی کے نشیب و فراز سے آشنا کرنا ، مشکلات سے نمٹنے کا سلیقہ سکھانا ، آگے بڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا اور معاشی واقتصادی ترقی کے لیے ہنرمندی کی اہلیت پیدا کرنا بطور معلم اہم ترین فریضہ ہوتا ہے۔ استاد کا مقام اس کی حیثیت اور مرتبہ بہت اعلیٰ ہے۔ دنیا میں علم کی قدر اسی وقت ممکن ہے جب استاد کو معاشرے میں وہ مقام دیا جائے جس کا وہ حق دار ہے۔
بلاشبہ اساتذہ کی محنت سے قوموں کی تقدیر بدل جاتی ہے، مگر ہمارے سرکاری اسکولوں میں کئی خامیاں پائی جاتی ہیں، لیکن ان کی بنیادی وجہ اساتذہ نہیں ، بلکہ ہمارا نظام تعلیم ہے۔ پالیسی میکرز نہ تو اسکولوں اور اساتذہ کے مسائل سے واقف ہیں اور نہ ہی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ اساتذہ کو فریضہ تدریس کی ادائیگی کے بجائے گھروں سے بچے اکٹھے کرنے ، بچوں کی تعداد بڑھانے ، حاضری پوری کرنے ، پولیو کے قطرے پلانے ، ووٹنگ لسٹ بنانے، مردم شماری کرنے ، روزانہ ڈینگی ایکٹیویٹیز کرنے ، اینٹوں کے بھٹوں پر بچوں کے والدین کو لے جا کر ان کے کارڈ بنوانے اور دیگرکئی کاموں میں مصروف کرکے بچوں کو تعلیم کے حقیقی ثمرات سے محروم کیا جاتا ہے، حالانکہ اساتذہ کا کام پڑھانا ہے، ان سے صرف تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔
تعلیم کے علاوہ دیگرکاموں کے لیے الگ سے ملازمین کا انتظام کرنا چاہیے ، تاکہ اساتذہ پوری توجہ سے بچوں پر محنت کرسکیں۔ملک میں تعلیمی اداروں اور اساتذہ کے مسائل نشاندہی کے باوجود کم نہیں ہورہے۔ بیشتر پرائمری اور مڈل اسکولوں میں کمرے پورے نہیں ہیں۔ پورے اسکول میں ایک یا دوکمرے ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے شدید سردیوں میں بھی بچوں کو باہر سردی میں اور شدید گرمیوں میں گرمی میں تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے۔
بیشتر اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد ہی پوری نہیں ہے۔ صرف پنجاب میں پرائمری سے ہائی اسکولوں کو تقریباً ایک لاکھ اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے۔ ایک استاد کو بیک وقت دو تین کلاسوں کو پڑھانا پڑتا ہے۔ اس صورت میں ہر طالب علم پر مکمل تو جہ دینا استاد کے لیے ممکن نہیں۔ سرکاری اسکولوں میں زیادہ تعداد کا مسئلہ بھی درپیش ہوتا ہے۔ افسران کی طرف سے بچوں کی تعداد بڑھانے پر تو زور دیا جاتا ہے، لیکن اس تعداد کے مطابق کمروں اور اساتذہ کا انتظام نہیں کیا جاتا۔ کئی سرکاری اسکولوں کی ایک ایک کلاس میں 50 سے 150تک تعداد ہوتی ہے۔
اتنی بڑی تعداد کو استاد بیک وقت پڑھا اور سمجھا سکتا ہے اور نہ ہی ان کا ہوم ورک چیک کرسکتا ہے۔ کسی بھی کلاس میں بچوں کی تعداد 30 سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اساتذہ کی پیشہ ورانہ ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی تربیت کا ایک مفید، موثر اور قابل عمل منصوبہ ترتیب دیا جانا چاہیے۔ ہر تحصیل میں ٹیچر ٹریننگ اکیڈمی قائم کی جانی چاہیے جو جدید تقاضوں کے مطابق پیشہ ورانہ تربیت کی منصوبہ بندی کرے ۔
ابلاغ کے جدید آلات کو اساتذہ کی تربیت کے لیے استعمال کیا جائے۔جرمنی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران نے احتجاج کیا اور اساتذہ کے برابر تنخواہ کا مطالبہ کیا، جس پر جرمن چانسلر نے جواب دیا کہ میں آپ لوگوں کو ان کے برابر کیسے کروں، جنہوں نے آپ کو اس مقام تک پہنچایا۔ اساتذہ کی معاشی ضروریات کے حوالے سے جرمنی کی مثال قابل تقلید ہے۔ ایم اے، ایم ایس سی ، ایم فل ڈگری ہولڈر اساتذہ کو گریڈ 16 تا 17 دیا جانا چاہیے اور تنخواہ بھی دیگر محکموں کے 16 تا 17 گریڈ کے ملازمین کے برابر ہونی چاہیے۔
اساتذہ کی تکریم میں اضافے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں اور انھیں وہ تمام مراعات اور سہولیات دی جائیں جو اس ملک میں طبقہ اشرافیہ اور بیوروکریسی کو حاصل ہیں۔ اساتذہ کو 'معلم کارڈ' جاری کیا جانا چاہیے جو انھیں معاشرے کے دیگر طبقات سے ممتاز کرے اور اس کارڈ کی بنیاد پر انھیں ہر جگہ ، ہر ادارے میں فوقیت اور سہولت حاصل ہو۔ سرکاری طور پر اساتذہ کو رہائش گاہیں فراہم کی جائیں اور ان کے بچوں کی تعلیم اور میڈیکل کے اخراجات کا بیڑہ بھی حکومت اٹھائے۔ تعلیم حاصل کرنے کا پہلا زینہ ہی استاد کو عزت دینا ہے۔ افسران سمیت کسی کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ اساتذہ کی عزت نفس مجروح کرے۔
تعلیمی مسائل اور متعلقہ امور پر بات کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا جانا چاہیے، جہاں انھیں تعلیمی پالیسیوں پر آزادانہ تنقید کا حق حاصل ہو۔ اساتذہ کو اس سرکاری مشینری میں شامل کیا جانا چاہیے جو شعبہ تعلیم کے مستقبل کے فیصلے کرتی ہے۔ اچھی کارکردگی دکھانے والے اساتذہ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مرکزی ، صوبائی اور ضلع سطح پر ان کی مکمل حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور سالانہ بنیادوں پر حسن کارکردگی ایوارڈز سے نوازا جانا چاہیے۔ پنجاب کے وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس نے اپنی وزارت میں بہت عمدہ کام کیے ہیں۔
وہ تعلیمی مسائل کے حل کے لیے کئی مثبت تبدیلیاں لاچکے ہیں، جس سے اسکولوں اور اساتذہ کو متعدد مسائل سے نجات ملی ہے۔ امید ہے کہ ملک میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے شعبہ تعلیم میں موجود تمام خامیوں کو دورکر کے اس میں بہتری لانے کی کوشش کی جاتی رہے گی۔
یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ جن قوموں نے تعلیم کو اپنے منشور اور اپنی ترجیحات میں شامل کیا ، وہ آج ترقی یافتہ اورکامیاب اقوام ہیں۔ دنیا میں قوموں کی ترقی اور خوش حالی کا سچا حوالہ تعلیم و تعلم ہی ہے۔
ماضی میں مسلمانوں نے علم کے ذریعے دنیا پر حکمرانی کی۔ آج مغربی دنیا علمی و سائنسی تحقیق کی بدولت ہم سے بہت آگے ہے۔ دنیا میں مسلسل ترقی اورکامیابی کے حصول میں تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور ایک صحت مند اور بہترین تعلیمی نظام کی ضمانت استاد ہی دے سکتا ہے۔ استاد کی وجہ سے ایک باشعور اور تعلیم یافتہ معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
اساتذہ قوم کے معمار ہیں اور نونہالوں کی سیرت کو سنوارنے ، انھیں مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور ان کی کردار سازی میں اہم ترین فریضہ سر انجام دیتے اور انھیں محقق ، ڈاکٹر ، انجینئر ، سائنسدان ، سیاستدان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارہائے منصبی پر فائزکرتے آرہے ہیں۔ درس و تدریس کے پیشے کو دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اسلام نے بھی معلم کو بے حد عزت و احترام عطا کیا ہے۔
خود خاتم النبین محمد ﷺ نے فرمایا '' مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔'' اس سے ظاہرہوتا ہے کہ اسلام میں معلم کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلیٰ و ارفع ہے۔ اپنے مقام و مرتبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اساتذہ کو غورکرنا چاہیے کہ وہ اپنے فرائض منصبی کو احسن طور پرسر انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔ وہ اپنے طلباء کی صحیح سمت میں رہنمائی کررہے ہیں یا اپنی خدمات کو محض ایک ڈیوٹی سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔
ایک استاد کے لیے طلباء کی تربیت کرنا ، انھیں صحیح راستہ دکھانا ، زندگی کے نشیب و فراز سے آشنا کرنا ، مشکلات سے نمٹنے کا سلیقہ سکھانا ، آگے بڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا اور معاشی واقتصادی ترقی کے لیے ہنرمندی کی اہلیت پیدا کرنا بطور معلم اہم ترین فریضہ ہوتا ہے۔ استاد کا مقام اس کی حیثیت اور مرتبہ بہت اعلیٰ ہے۔ دنیا میں علم کی قدر اسی وقت ممکن ہے جب استاد کو معاشرے میں وہ مقام دیا جائے جس کا وہ حق دار ہے۔
بلاشبہ اساتذہ کی محنت سے قوموں کی تقدیر بدل جاتی ہے، مگر ہمارے سرکاری اسکولوں میں کئی خامیاں پائی جاتی ہیں، لیکن ان کی بنیادی وجہ اساتذہ نہیں ، بلکہ ہمارا نظام تعلیم ہے۔ پالیسی میکرز نہ تو اسکولوں اور اساتذہ کے مسائل سے واقف ہیں اور نہ ہی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ اساتذہ کو فریضہ تدریس کی ادائیگی کے بجائے گھروں سے بچے اکٹھے کرنے ، بچوں کی تعداد بڑھانے ، حاضری پوری کرنے ، پولیو کے قطرے پلانے ، ووٹنگ لسٹ بنانے، مردم شماری کرنے ، روزانہ ڈینگی ایکٹیویٹیز کرنے ، اینٹوں کے بھٹوں پر بچوں کے والدین کو لے جا کر ان کے کارڈ بنوانے اور دیگرکئی کاموں میں مصروف کرکے بچوں کو تعلیم کے حقیقی ثمرات سے محروم کیا جاتا ہے، حالانکہ اساتذہ کا کام پڑھانا ہے، ان سے صرف تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔
تعلیم کے علاوہ دیگرکاموں کے لیے الگ سے ملازمین کا انتظام کرنا چاہیے ، تاکہ اساتذہ پوری توجہ سے بچوں پر محنت کرسکیں۔ملک میں تعلیمی اداروں اور اساتذہ کے مسائل نشاندہی کے باوجود کم نہیں ہورہے۔ بیشتر پرائمری اور مڈل اسکولوں میں کمرے پورے نہیں ہیں۔ پورے اسکول میں ایک یا دوکمرے ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے شدید سردیوں میں بھی بچوں کو باہر سردی میں اور شدید گرمیوں میں گرمی میں تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے۔
بیشتر اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد ہی پوری نہیں ہے۔ صرف پنجاب میں پرائمری سے ہائی اسکولوں کو تقریباً ایک لاکھ اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے۔ ایک استاد کو بیک وقت دو تین کلاسوں کو پڑھانا پڑتا ہے۔ اس صورت میں ہر طالب علم پر مکمل تو جہ دینا استاد کے لیے ممکن نہیں۔ سرکاری اسکولوں میں زیادہ تعداد کا مسئلہ بھی درپیش ہوتا ہے۔ افسران کی طرف سے بچوں کی تعداد بڑھانے پر تو زور دیا جاتا ہے، لیکن اس تعداد کے مطابق کمروں اور اساتذہ کا انتظام نہیں کیا جاتا۔ کئی سرکاری اسکولوں کی ایک ایک کلاس میں 50 سے 150تک تعداد ہوتی ہے۔
اتنی بڑی تعداد کو استاد بیک وقت پڑھا اور سمجھا سکتا ہے اور نہ ہی ان کا ہوم ورک چیک کرسکتا ہے۔ کسی بھی کلاس میں بچوں کی تعداد 30 سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اساتذہ کی پیشہ ورانہ ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی تربیت کا ایک مفید، موثر اور قابل عمل منصوبہ ترتیب دیا جانا چاہیے۔ ہر تحصیل میں ٹیچر ٹریننگ اکیڈمی قائم کی جانی چاہیے جو جدید تقاضوں کے مطابق پیشہ ورانہ تربیت کی منصوبہ بندی کرے ۔
ابلاغ کے جدید آلات کو اساتذہ کی تربیت کے لیے استعمال کیا جائے۔جرمنی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران نے احتجاج کیا اور اساتذہ کے برابر تنخواہ کا مطالبہ کیا، جس پر جرمن چانسلر نے جواب دیا کہ میں آپ لوگوں کو ان کے برابر کیسے کروں، جنہوں نے آپ کو اس مقام تک پہنچایا۔ اساتذہ کی معاشی ضروریات کے حوالے سے جرمنی کی مثال قابل تقلید ہے۔ ایم اے، ایم ایس سی ، ایم فل ڈگری ہولڈر اساتذہ کو گریڈ 16 تا 17 دیا جانا چاہیے اور تنخواہ بھی دیگر محکموں کے 16 تا 17 گریڈ کے ملازمین کے برابر ہونی چاہیے۔
اساتذہ کی تکریم میں اضافے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں اور انھیں وہ تمام مراعات اور سہولیات دی جائیں جو اس ملک میں طبقہ اشرافیہ اور بیوروکریسی کو حاصل ہیں۔ اساتذہ کو 'معلم کارڈ' جاری کیا جانا چاہیے جو انھیں معاشرے کے دیگر طبقات سے ممتاز کرے اور اس کارڈ کی بنیاد پر انھیں ہر جگہ ، ہر ادارے میں فوقیت اور سہولت حاصل ہو۔ سرکاری طور پر اساتذہ کو رہائش گاہیں فراہم کی جائیں اور ان کے بچوں کی تعلیم اور میڈیکل کے اخراجات کا بیڑہ بھی حکومت اٹھائے۔ تعلیم حاصل کرنے کا پہلا زینہ ہی استاد کو عزت دینا ہے۔ افسران سمیت کسی کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ اساتذہ کی عزت نفس مجروح کرے۔
تعلیمی مسائل اور متعلقہ امور پر بات کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا جانا چاہیے، جہاں انھیں تعلیمی پالیسیوں پر آزادانہ تنقید کا حق حاصل ہو۔ اساتذہ کو اس سرکاری مشینری میں شامل کیا جانا چاہیے جو شعبہ تعلیم کے مستقبل کے فیصلے کرتی ہے۔ اچھی کارکردگی دکھانے والے اساتذہ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مرکزی ، صوبائی اور ضلع سطح پر ان کی مکمل حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور سالانہ بنیادوں پر حسن کارکردگی ایوارڈز سے نوازا جانا چاہیے۔ پنجاب کے وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس نے اپنی وزارت میں بہت عمدہ کام کیے ہیں۔
وہ تعلیمی مسائل کے حل کے لیے کئی مثبت تبدیلیاں لاچکے ہیں، جس سے اسکولوں اور اساتذہ کو متعدد مسائل سے نجات ملی ہے۔ امید ہے کہ ملک میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے شعبہ تعلیم میں موجود تمام خامیوں کو دورکر کے اس میں بہتری لانے کی کوشش کی جاتی رہے گی۔