یوکرین پر روس کا حملہ

یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ روس کا یوکرین پر حملہ سراسر جارحیت ہے

usmandamohi@yahoo.com

یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ روس کا یوکرین پر حملہ سراسر جارحیت ہے۔ یوکرین ایک آزاد مختار ملک ہے جسے تمام ممالک نے تسلیم کیا ہے، وہ اقوام متحدہ کا ممبر بھی ہے۔ اس طرح ایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر اسے قائم و دائم رہنے کا پورا حق حاصل ہے۔

روس حملہ کرنے سے پہلے اس خوش فہمی میں تھا کہ وہ چند گھنٹوں میں ہی یوکرین پر قبضہ کرلے گا اب روس کو اپنی طاقت کا بھی اندازہ ہو چکا ہے اور وہ یوکرینی قوم کی استقامت کو بھی کبھی نظر انداز نہیں کرسکے گا۔ چنانچہ اب روس کو اپنی جگ ہنسائی اور ایک جارح ملک قرار پانے سے بچنے کے لیے یوکرین سے اپنی فوجوں کو واپس بلا لینا چاہیے اور مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

بہرحال روس کا حملہ خود اس کے اپنے لیے ایک کلنک کا ٹیکہ بن چکا ہے کیونکہ اس نے طاقت کے زور پر ایک آزاد خودمختار ملک کو ہتھیانے کی کوشش کی ہے۔ روس کے حملے نے طاقتور ممالک کے حوصلے بڑھا دیے ہیں اور کمزور ممالک کے لیے مستقل خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اب ہر کمزور ملک اپنے طاقتور پڑوسی سے خوفزدہ رہے گا کہ نہ جانے کب وہ اس پر چڑھ دوڑے۔

روس کے اس جارحانہ رویے نے بھارت کو بہت تقویت بخشی ہے۔ اس وقت بھارت میں انتہا پسند ہندو نریندر مودی پر پورا دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ روسی ماڈل کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان پر حملہ کردے اور گلگت بلتستان کو ہتھیا لے کیونکہ ان کے مطابق یہ خطہ ان کا اپنا ہے اور پاکستان نے اس پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ مودی تو دو سال قبل بھی گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا۔

اس نے اس جارحیت کے لیے تیاری بھی پوری کرلی تھی مگر اس کے حملے سے قبل ہی چینی فوجوں نے لداخ میں پیش قدمی شروع کردی تھی جس سے مودی کا گلگت بلتستان کو ہتھیانے کا سارا پروگرام دھڑ دھوس ہو گیا تھا۔


اب روسی ماڈل پر عمل کرنے کا مودی سوچ تو رہا ہے مگر شاید وہ اس پر عمل درآمد کبھی نہ کرسکے کیونکہ اگر اس نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو پھر چین لداخ تک ہی اپنی فوجوں کو محدود نہیں رکھے گا ، بلکہ مقبوضہ کشمیر کو بھی اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کرے گا تاکہ کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے اورکشمیریوں کو بھارتی غلامی سے نجات مل سکے۔

چینی فوجوں کی لداخ میں موجودگی نے سیاچن پر بھارتی قبضے کو کمزورکردیا ہے اور اسی لیے بھارتی آرمی چیف نے پاکستان کو سیاچن سے دونوں طرف سے فوجوں کو ہٹانے کی پیشکش کی ہے۔ بھارت کی جانب سے ایسی آفر پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔ البتہ پاکستان ضرور بھارت کو سیاچن کے محاذ سے فوجیں ہٹانے کا مشورہ دیتا رہتا تھا مگر بھارت ہمیشہ پاکستان کی آفر کو حقارت سے ٹھکرا دیتا تھا۔

اب بھارت پر چینی فوجوں کا ایسا خوف طاری ہے کہ لگتا ہے وہ برسوں پرانے سرکریک کے مسئلے کو بھی حل کرنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔ بھارت نے اگرچہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں غیر حاضر رہ کر روس کے حق میں اپنا ووٹ دے دیا ہے مگر اس سے اسے چین کے خلاف روس کی مدد حاصل نہیں ہو سکے گی۔

روس ہرگز چین کے خلاف نہیں جاسکتا اس لیے کہ اس پر امریکی و یورپی ممالک کی پابندیوں کے لگنے کے بعد چین کی مدد درکار ہوگی پھر چین اور روس پہلے ہی اپنے مضبوط اتحاد کے ذریعے مغربی ممالک کی اجارہ داری ختم کرنے پر متفق ہوچکے ہیں۔ چین اور روس کی دوستی امریکا اور اس کے حواری ممالک کے لیے کھلا چیلنج ہے چنانچہ اس وقت ان کی اولین کوشش ہے کہ کسی طرح ان دونوں کی دوستی میں دراڑ ڈالی جائے مگر لگتا ہے وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔

جہاں تک لداخ کا معاملہ ہے تو چین نے جس علاقے کو اپنا لیا ہے اسے روس بھی چین سے واپس نہیں دلا سکے گا کیونکہ روس پہلے بھی اس معاملے میں غیر جانبدار تھا اور اب بھی اس کی وہی پالیسی جاری رہے گی۔ اس طرح بھارت کی یہ خوش فہمی کہ اس نے روس کا ساتھ دیا ہے چنانچہ روس چین سے اس کے علاقے واپس کرا دے گا ایسا ہونا ناممکن ہے ادھر مغربی ممالک کو ناراض کرکے مودی نے اپنے لیے سخت مشکلات کھڑی کرلی ہیں۔

لگتا ہے اب بھارت کو مغرب کی پشت پناہی حاصل نہیں ہو سکے گی اب کشمیر کے مسئلے پر بھی مغرب کی پالیسی میں تبدیلی آسکتی ہے اور مغربی میڈیا جو ہر وقت بھارت کے قصیدے پڑھتا رہتا تھا ، اب پاکستان کے خلاف مہم سے باز آسکتا ہے۔ بہرحال اس وقت پاکستان نے جو غیرجانبدارانہ خارجہ پالیسی اختیارکی ہوئی ہے اسے سختی سے اس پر کاربند رہنا چاہیے اس سے وطن عزیز کو ضرور فائدہ ہوگا ، تاہم ہمیں اپنی معیشت کو ٹھیک کرنے پر اب بھرپور توجہ مرکوز کرنا ہوگی تاکہ غیروں کے دباؤ سے بچا جاسکے۔
Load Next Story