روشن مستقبل کے امکانات معدوم

مسائل جمہوریت سے قبل چوٹیاں تھیں اب پہاڑوں کا منظر پیش کر رہے ہیں


م ش خ March 04, 2022
[email protected]

ہم جو اترے تو پھر اندھیرا ہے

سو یہی غم کی شام چلنے دو

ملک میں تعمیر و ترقی خوشحالی امن ادارہ جاتی امور انصاف کے تقاضے غرض نہ جانے کیا کیا گلے ہیں اس قوم کو جو نظر بھی آ رہے ہیں، مسائل جمہوریت سے قبل چوٹیاں تھیں اب پہاڑوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

حکومت باور کرا رہی ہے کہ ہم نے بحرانوں سے قوم کو نکال دیا ہے ، اپوزیشن کہتی ہے کہ بحرانوں نے قوم کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے اور قوم ہے کہ ہکا بکا منہ کھولے ان دونوں کے دعوؤں کو برداشت کرتی ہے۔

مشیر حضرات اصلاح کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں جب کہ اپوزیشن اپنے گیت گا رہی ہے اور قوم ہے کہ تالیاں بجا رہی ہے۔ سیاست دانوں پر کرپشن کے الزامات ہیں اور وہ بھی اپنا دفاع کرتے ہیں موجودہ حکومت کہتی ہے کہ ہم ملک کو سیدھے راستے پر لا رہے ہیں اور یہ جو کچھ بھی ہے پچھلی حکومتوں کا کیا دھرا ہے اور مزے کی بات دیکھیں کہ 60 فیصد سیاسی لیڈر پچھلی حکومتوں میں موجود رہے ہیں وہ ان حکومتوں کا حصہ رہے تو اس وقت اگر اصلاح کے چراغ جلا لیتے تو قوم مختلف مسائل کا شکار نہیں ہوتی۔

پاکستان کی 4 بڑی سیاسی پارٹیاں اسمبلیوں میں موجود ہیں اور قوم نے انھیں اپنے مسائل کے حوالے سے ووٹ دیے تھے مگر کسی ایم این اے یا وزیر نے ہفتہ وار کبھی اپنے حلقوں کا دورہ نہ کیا صرف تشویش کے اظہار کے بیانات اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔

ماضی اتنا ایڈوانس نہیں تھا اب تو مشینری، پلمبر، مزدور حتیٰ کہ ایک غیر تعلیم یافتہ ڈرائیور وہ بھی شعور کی دہلیز پر کھڑا مسکرا رہا ہے۔ شہر میں کوئی واقعہ ہوتا ہے تو لوگ ماہر پروڈیوسر اور تجربہ کار کیمرہ مین کی طرح سچائی پر مبنی ویڈیو ریکارڈ کرکے انٹرنیٹ پر آن ایئر کردیتے ہیں ان باتوں کو سننے اور دیکھنے کے بعد کیا آنے والے الیکشن میں امیدوار اپنے حق میں ووٹ لینے میں کامیابی سے ہمکنار ہوں گے جب سارے بگڑے ہوئے کاموں کو بہتر طریقے سے فوج، معزز عدالتیں اور رینجرز کردیتی ہے تو پھر سیاسی حضرات کیا کر رہے ہیں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔

B اور C کلاس ہوٹل (5 اسٹار ہوٹل شامل نہیں) میں صاحب حیثیت حضرات رات کا کھانا کھانے جاتے ہیں، سیاست دان سمجھتے ہیں کہ قوم کے پاس بہت پیسہ ہے مہنگائی کا تو شور شرابہ ہے دیہات میں رہنے والے تو اگر شہر جاتے ہیں تو سارا دن چائے اس لیے نہیں پیتے کہ وہ 40 روپے کی ہے۔

ان کی قوت خرید سے کوسوں دور ہے کبھی کسی اپوزیشن لیڈر نے چینل پر بیٹھ کر یہ کہا ہی نہیں کہ ہمیں بجٹ دیا جائے تاکہ ہم اپنے حلقوں میں جا کر مثبت کام کروائیں اسمبلیوں میں آتے ہیں نئے الیکشن ہوتے ہیں اور پھر اسمبلیوں میں جانے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتے ہیں مگر آنے والا الیکشن پچھلے الیکشن سے بہت مختلف ہوگا بلکہ ہو سکتا ہے کہ امیدواروں کو کچھ حلقوں میں مایوسی بھی ہوگی مگر مستقبل کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔

ان سیاستدانوں کو اگلے الیکشن کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ اب وقت بہت تیزی سے چرخے کی طرح گھوم رہا ہے بلکہ سب اچھا ہے کا راگ بھی مسلسل ایک اچھی موسیقی کی طرح زور و شور سے بج رہا ہے ٹھوس اور خوبصورت شور کے ساتھ سیاسی حضرات قومی مسائل پر روشنی کے چراغ جلانے کے موڈ میں نہیں ہیں پٹرول کی قیمت میں 10 روپے کمی کی گئی جو تخت پر بیٹھے ہیں وہ مسلسل بیانات کے چراغ جلا رہے ہیں جو باہر بیٹھے ہیں وہ کہتے ہیں کہ کم ازکم 50 روپے کمی کا اعلان کرنا چاہیے تھا مگر کسی بھی سیاسی شخصیت نے ٹران سپورٹ پر توجہ دینے کی زحمت ہی نہیں کی شہروں میں تو لوگ مر پیٹ کر گزارا کر رہے ہیں مگر جو دیہاتوں میں رہتے ہیں اور صبح و شام ایک تحصیل سے دوسری تحصیل کا سفر کرتے ہیں وہ بے چارے من مانے کرائے دے رہے ہیں کرایوں میں کسی نے کمی نہیں کی ۔گزشتہ دنوں صرف 4 کلو میٹر جانے کے لیے ایک رکشہ والے سے بات کی اس نے 400 روپے کا مطالبہ کردیا پہلے وہ بہت خوش ہوا مگر ہمارا ویران اور گھبرایا چہرہ دیکھ کر کہنے لگا کہ صاحب کیا سوچ رہے ہو، میں نے کہا پٹرول کی قیمت تو اب کم ہوگئی ہے تو 400 روپے کیوں مانگ رہے ہو، اس نے ایک زناٹے دار گفتگو کا تھپڑ ہمارے چہرے پر جڑ دیا، کہنے لگا 10 روپے کم ہوئے ہیں 100 روپے کم نہیں ہوئے ہیں۔ کس دنیا میں رہتے ہو بھیا! تعلیم حاصل کرکے بھی رہے جاہل کے جاہل۔

پٹرول کی جب بھی قیمت کم کی گئی ہے پمپ والوں نے صبح سے اس کا آغاز کیا اور جب پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ غیر تعلیم یافتہ حضرات رات 12 بجے کے بعد قیمت پوری لیتے ہیں یعنی کے انٹرنیشنل اوقات کے تحت چلتے ہیں۔ کیا کیا سنائیں کیا سنیں گے۔ قارئین میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کاش ہم بھی مکینک بن جاتے۔ تعلیم حاصل کرکے بھی ہم مکینک ہی ہیں۔ خوبصورت عہد زریں دور شروع ہو چکا ہے ہر خوبصورت کتاب ہم پر سحر طاری کردیتی ہے۔ جنھوں نے کتاب لکھی وہ کہلائے صاحب کتاب، اور ہم کہلائے غائب علم۔ جب تک سب اچھا ہے کہ رپورٹیں موصول ہوتی رہیں گی مسائل جوں کے توں رہیں گے۔

وزیر اعظم مہنگائی پر توجہ دے رہے ہیں مگر یہ ان کے اکیلے کے بس کی بات نہیں ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال کرنا ہوگا کوئی پرسان حال نہیں۔ ویگن،کوچز مالکان نے عوام کو کوئی سہولت نہیں دی۔ تین خوبیاں انسان کو بام عروج پر لے جاتی ہیں ٹھنڈا دماغ، خوبصورت زبان اور نرم دل۔ مگر سیاسی طور پر ان پر عمل نہیں ہو رہا۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ ہمیں اقتدار مل جائے، حکومت کہتی ہے کہ الیکشن کے بعد اس کا فیصلہ ہوگا، قوم کہاں کھڑی ہے اس کا کسی کو احساس ہی نہیں۔ ہم جیسے جرنلسٹ لکھتے رہے ہیں اور شاید بقیہ عمر بھی مسائل کے حوالے سے لکھتے لکھتے پوری ہو جائے گی۔

کیونکہ سیاسی طور پر افراتفری نے ادھم مچا رکھا ہے، شام کو چینل دن کی نشریات دوبارہ دکھاتے ہیں، اس کو دیکھنے کے بعد ہمارے سیاسی حضرات دوسرے دن کی تیاری کرتے ہیں، اس میں مسائل کے وقت ریموٹ کو بڑھا دیا جاتا ہے یہ اس قوم کی کتنی بڑی بدنصیبی ہے۔ قومی مسائل کے وقت نہ جانے کیوں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ چاروں صوبوں میں غیر قانونی چارجڈ پارکنگ اور اضافی فیس نے شہریوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ پاکستان کو ماضی کی حکومتوں میں جو آئی ایم ایف سے رقم ملتی رہی اس پر کسی حکومت نے وائٹ پیپر شایع نہیں کیا کہ ہمیں 12 ڈالر (مثال کے طور پر) ملے تھے 2 ڈالر میں ڈیم بنائے، 2 ڈالر میں نئی فیکٹریاں قائم کی گئیں، 2 ڈالر میں کراچی سے لے کر پنڈی تک ریلوے کا نظام اور ڈبے تبدیل کیے۔

2 ڈالر میں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے کراچی سے لے کر خٰبر تک نئی بسیں چلائی گئیں، 2 ڈالر میں کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیے گئے، 2 ڈالر قومی ایئرلائن کی بہتری پر خرچ ہوئے، 2 ڈالر نوکریوں، تعلیم، کنواری بچیوں کے لیے غربت مٹاؤ فنڈ میں رکھے گئے۔ آج تک قوم کو نہیں بتایا گیا کہ یہ رقم کہاں خرچ ہوئی۔ ہاں یہ ضرور بتا دیا گیا کہ پیدا ہونے والا ہونہار پیدائش کے وقت ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کا قرض دار ہے۔ ہے نا کمال کی بات؟ مسائل پر لکھوں تو سیاسی حضرات ناراض ہو جاتے ہیں کہ انھیں قوم کا بہت درد ہے۔

بھلا بتائیے ای او بی آئی سینئر سٹیزن کا ادارہ ہے اس میں بھی کرپشن پائی گئی۔ اب اس سے بڑی اور کیا زیادتی ہوگی کہ بزرگوں کی آمدنی بھی داؤ پر لگا دی گئی اور ساری عمر کولہو کے بیل کی طرح کام کرنے والے عمر رسیدہ فرد کو 8,500 روپے دیے جاتے ہیں ماضی کی حکومت کے وزیر خزانہ نے تو سالوں 5,250 روپے دیے، ان بزرگوں کو جب کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار خود بزرگی کی دہلیز پر بیٹھے ہیں۔

وزیر اعظم کا شکریہ کہ انھوں نے 8,500 روپے ان غریبوں کے کردیے۔ اس سے کیا ہوتا ہے مگر 5,250 سے تو بہتر ہیں۔ سیاسی جھگڑوں نے قوم کو پریشان کر دیا ہے، مسائل جوں کے توں ہیں، چاروں صوبوں کا یہی حال ہے، اپوزیشن روز شیروانی تیار کروانے کی باتیں کرتی ہے کاش ان کے پاس ٹیلر اچھا ہوتا کیا خوب شاعر نے کہا اور خوب کہا:

ضد ہے کیا وقت کو بدلنے کی

یوں ہی سب بے لگام چلنے دو

اہلیت کیا ہے میری چھوڑ

نام کافی ہے نام چلنے دو

حق کو چھوڑو کتاب کو چھوڑو

حکم ہے بس کام چلنے دو

ہم جو اترے تو پھر اندھیرا ہے

سو یہی غم کی شام چلنے دو

شاہ جائے گا شاہ آئے گا

تم رہو گے غلام چلنے دو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں