زباں فہمی زیر زبر پیش

ہمارے یہاں، انگریزی جھاڑنے والوں کی معلومات کا یہ عالَم ہے تو پھر سارا زور اُردو کے اعراب ہی پر کیوں صَرف کیا جاتا ہے


ہمارے یہاں، انگریزی جھاڑنے والوں کی معلومات کا یہ عالَم ہے تو پھر سارا زور اُردو کے اعراب ہی پر کیوں صَرف کیا جاتا ہے۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی 135

''سر! یہ Zero بم کیا ہوتا ہے؟''

''یہ زیر۔و۔بم ہے یعنی اُتار چڑھاؤ جیسے آواز کا اتارچڑھاؤ، نشیب وفراز۔ فارسی کے خالص (ایرانی) تلفظ میں زیر کے نیچے بھی زیر بولتے ہیں یعنی زِیر، اس کے ساتھ، اور کے لیے، واؤ ملاتے ہیں، جسے حرفِ عطف کہتے ہیں، پھر دوسرا لفظ آتا ہے، مگر بولنے میں ملاکر ہی بولتے ہیں۔ زیروبم اور زِیروبَم دونوں طرح درست ہے''۔

''اچھ...چھا...سر! میں تو سمجھا کہ یہ بھی کوئی Bomb ہے، ZeroBomb''

کہیے ہنسی آئی ہمارے، کسی کے ساتھ ہونے والے اس مکالمے پر؟

اب ذرا وضاحت بھی ہوجائے۔ طبلے کی جوڑی کا داہنی شریک یعنی دائیں جانب یا سیدھے ہاتھ کی طرف کا طبلہ بم کہلاتا ہے جبکہ بایاں۔یا۔ الٹے ہاتھ کی طرف کا زیر کے نام سے موسوم ہے۔ طبلے یا ڈھولکی کے دائیں بائیں رُخ کو یہ نام دیا جاتا ہے، جبکہ اس سے مراد مُوسِیقی کے سُروں کا اُتارچڑھاؤ بھی ہوتا ہے، نیز جیسا کہ ماقبل بیان کیا، نشیب وفراز، خواہ حالات کے ہوں یا کسی اور مضمون میں اُن کا استعمال ہوا ہو (مکرر وضاحت: فارسی لفظ نیز اور ہَم کا مطلب 'بھی'۔ اس کے بعد 'بھی' لگانا غلط ہے)۔

آن لائن لغت اردو لغت ڈاٹ اِنفو کے منقول بیان کی رُو سے اردو ادب میں اس ترکیب کا اولین استعمال 1791ء کی کتاب 'طُوطی نامہ ' میں ہوا، جبکہ اس کے استعمال کی دو مثالیں بھی دی گئی ہیں۔ موجوں کے تموّج کے لیے بھی اس کا استعمال کہیں دیکھا تھا، پھر ایک بہت زیادہ مستعمل فقرہ، ''سانس کا زیروبم'' بھی نظر سے گزرچکا ہے۔ بچپن سے نصابی کتب میں زیروزبر اور شِیروشَکر جیسی تراکیب پڑھتے آئے، مگر اَب چونکہ تعلیم کے شعبے میں ہر سطح پر زوال دیکھنے کو ملتا ہے، اس لیے ایسے لوگ بھی بکثرت ملتے ہیں جو ایسی تراکیب کو بھی انتہائی دقیق زبان کا حصہ سمجھتے ہیں۔

یہ کالم ابھی زیرتحریر ہی تھا کہ فیس بک پر ہمارے ایک معاصر جناب اُسامہ سرسری کی ایک عبارت نظر سے گزری: سرسری صاحب سے کسی نے کہا کہ یہ اردو زبان کا عیب ہے کہ اس میں زیر زبر لگانی پڑتی ہے اور اردو کی عبارت عربی بن جاتی ہے۔ ایسا نہ تو انگریزی میں ہوتا ہے اور نہ ہی ہندی میں۔ انھوں نے جواب میں کہا کہ ''یہ اردو زبان کی خوبی ہے کہ لفظ کا درست تلفظ بتانے کے لیے زبر زیر پیش لگانے کی سہولت ہے، جیسا کہ دنیا کی بلیغ ترین زبان عربی اور شیریں ترین زبان فارسی میں ہے، ایسی سہولت نہ تو ہندی میں ہے نہ انگریزی میں''۔ اب یہاں سے راقم حروف یعنی سہیل کا بیان شروع ہوتا ہے۔

(ایک مرتبہ پھر وضاحت: راقم اور حروف یا راقم اور سطور کو ملاکر لکھنا درست نہیں، کیونکہ یہ کوئی عربی تراکیب نہیں۔ اردو کا کام کسی لفظ کو عربائے بغیر بھی چلتا ہے۔ اسی طرح ابھی ابھی ایک دوست نے واٹس ایپ پر پوچھا کہ آیا کثیرالسمتی کوئی لفظ ہے۔ میں نے کہا، ہرگز نہیں۔ درست ترکیب کثیرجہتی ہے جسے اردو کے اہل قلم زبردستی عربا کر کثیرالجہات اور کثیرالجہتی بنادیتے ہیں): یہی بات کسی اور انداز سے بھی کہی جاسکتی ہے۔ راقم نے متعدد زبانوں کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اُن کے تکنیکی معاملات بنظرِغائر دیکھے اور کم ازکم مبادیات پر اظہارِخیال کی جسارت کرسکتا ہے۔

ہمارے دیسی انگریزوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ فرنگی زبانوں بشمول انگریزی میں کس کس نوعیت کی دقتیں، کسی طالب علم کے لیے مسائل کے پہاڑ کھڑے کرسکتی ہیں۔ انگریزی میں شامل لاطینی الاصل الفاظ خواہ رومن سے براہ راست آئے ہوں یا فرینچ، جرمن، ہِسپانوی اور پرتگیز سے مستعار ہوں، اُن پر کوئی مخصوص علامت کیوں لگائی جاتی ہے۔

فرینچ میں دائیں اور بائیں طرف سے لگائی جانے والی ٹیڑھی علامت کیوں استعمال ہوتی ہے اور اس سے مفہوم کس طرح تبدیل ہوسکتا ہے۔ فرینچ میں حرف 'G'کی آواز ہے، ژے (Gé) اور اس کی بنیاد حرف 'e'پر لگا ہوا یہ مخصوص نشان ہے (ویسے مستثنیات میں یہ Girlکے گاف جیسی آواز بھی دیتا ہے)۔ حرف 'J'کو ''ژی'' کہا جاتا ہے۔ حرف 'E'ایسی ہی مختلف علامات کی مدد سے کسی لفظ میں پانچ طرح ادا کیا جاتاہے۔ تکنیکی دشواری کی وجہ سے خاکسار یہاں ایک ویب سائٹ سے متن نقل کررہا ہے، ورنہ پوری فرینچ کلاس یہیں ہوجاتی:

In addition, French uses several accents: grave accents (à, è, and ù) and acute accents (é). A circumflex applies to all vowels, except Y (considered as a vowel): â, ê, î, ô, û. A tréma (French for dieresis) is also applied: ë, ï, ü, ÿ. Two combined letters (called orthographic ligatures) are used: æ and œ. Finally, a cedilla is used on the c to make it sound like an English s: ç.

[https://en.wikibooks.org/wiki/French/Lessons/Alphabet]۔ ہسپانوی میں حرف Nپر عربی کے ہمزہ سے مماثل علامت کیوں لگتی ہے اور اس کا مطلب و مصرَف کیا ہے:Ñ۔ ہسپانوی لوگ اپنی زبان کو Español کہتے ہیں۔ یہ گویا حرف نون پر تشدید کے ساتھ اینّ ہے۔ (کیا خبر یہ تشدید بھی اُسی دور کی یادگار ہو جب ایک معمولی بولی، اَندَلُس [ANDALUS]کی سرکاری وترقی یافتہ زبان عربی سے اشتراک کرتے ہوئے، بتدریج باقاعدہ زبان، ہِسپانوی[Spanish] بن رہی تھی، بعہد ِ خلافت بنواُمیّہ)۔ ہمارے یہاں عوام النّاس ہی کیا نامور اہل قلم بھی اَندَلُس کو اُندلَس بول کر، بہ یک وقت، اردو، عربی، ہسپانوی اور انگریزی سے ناواقفیت کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں۔

آج بھی ہِسپانیہ یعنی Spainکے ایک بڑے علاقے کا نام اَندَلُوسیہ [Andalusia] ہے جو کبھی پورے ملک کا نام ہوا کرتا تھا۔ صاحبو! اردو میں اعراب کے استعمال کو عجیب وغریب یا اَدَق چیز سمجھنے والوں سے کہنا چاہتا ہوںکہ سب چھوڑیے، انگریزی میں حرف E کی پانچ حالتیں یا کیفیتیں، فرینچ وغیرہ سے مستعار ہیں تو کہاں کہاں اور کس کس مفہوم میں مستعمل ہیں۔ یہ ساری باتیں کسی ایم اے انگریزی سے معلوم کرلیں یا کسی معلم انگریزی سے۔ قوی امکان یہی ہے کہ اُسے بھی کہیں سے معلوم کرنا پڑے گا۔

جب ہمارے یہاں، انگریزی جھاڑنے والوں کی معلومات کا یہ عالَم ہے تو پھر سارا زور اُردو کے اعراب ہی پر کیوں صَرف کیا جاتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ اپنی زبان بولنے اور سیکھنے میں شرم، عار اور دقت محسوس نہ کریں۔ ہمیں تو سیرت رسول (بے شمار درودوسلام) سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی زبان پر عبور حاصل کرو، اُس کی مختلف شکلیں پہچانو، اُس کی شاخیں یعنی بولیاں بھی سیکھو تاکہ کہیں کوئی بات سمجھنے اور سمجھانے میں پیچھے نہ رہو۔ اسی ضمن میں یہ درس بھی ملتا ہے کہ غیرملکی زبان سیکھنا، ہرکَس وناکَس پر واجب یا لازم نہیں، بلکہ بَربِنائے ضرورت سیکھنا چاہیے۔ بوجوہ صحابہ کرامؓ کی مثالیں دُہرانے سے گریز کرتے ہوئے ایک اور اَہم بات کرنا چاہتا ہوں:

روزنامہ ایکسپریس میں محترم عثمان جامعی کی تحریک وفرمائش پر زباں فہمی کا سلسلہ 2015ء میں شروع ہوا، مگر ماقبل، اس کی بنیاد، 1990ء کی دہائی میں، بچوں کے رسائل 'پھول' اور 'آنکھ مچولی' میں اسی راقم کے قلم سے پڑچکی تھی۔ اُس زمانے میں سارا زورِقلم صحتِ تلفظ پر تھا اور پوری فہرست مرتب کرکے پیش کیا کرتا تھا۔

یہ بات یوں دُہرانی پڑی کہ آن لائن دستیاب مواد میں دیگر کے علاوہ، ہمارے ایک بزرگ معاصر کی چند سال پرانی ایسی ایک فہرست شامل ہے جس میں متعدد الفاظ بشمول اَسمائے معرفہ[Proper nouns]کے اعراب کے فرق سے معانی بدلنے کی مثالیں موجود ہیں۔ افادہ عام (یعنی عام لوگوں کے فائدے) کے لیے یہاں کچھ الفاظ مع مثال دُہراتا چلوں۔

ا)۔فُلاں صاحب نے فُلاں کام بدرجہ (بہ درجہ) اَتَم (الف اور تے پر زبر کے ساتھ، یعنی پوری طرح، مکمل اور کامل: عربی) انجام دیا۔

وہ خاندانی گائک تھا، اسی لیے اُتّم (الف پر پیش اور تے پر تشدید اور زبر کے ساتھ، یعنی اونچے: سنسکرت /ہندی) سُروں میں گارہا تھا۔

ب)۔ اسی اَثناء (الف پر زبر کے ساتھ، یعنی عرصے، دوران، وقفے: عربی) میں یہ ہوا کہ ہم دوسری جگہ ملازم ہوگئے۔

اِثْنا جیسے اِثْنا عَشَر (یعنی بارہ12/:عربی) جیسے فُلاں صاحب، اِثنا عشری (آئمہ دواز دِہ یعنی بارہ اماموں کو ماننے والے) شیعہ ہیں۔ عام طور پر لوگ اسے بھی اَثناء ہی بولتے ہیں جو ظاہر ہے کہ غلط ہے۔

ج)۔ ہمارے بزرگ، مرحوم معاصر کا نام اَشْفاق احمد تھا (الف کے اوپر زبر، یعنی شفقت کی جمع:عربی)، جبکہ اہل پنجاب اپنے مقامی لب ولہجے کے زیرِاثر اِسے اِشْفاق: (الف کے نیچے زیر، یعنی اچھے اخلاق، اچھا سلوک:عربی) کہتے ہیں، جو درست نہیں۔

د)۔ ہمارے گرد بہت سی اچھی اَشْکال (شکل کی جمع یعنی صورتیں، چہرے، مجازاً مرادہیں لوگ:عربی) تو پھر اَگر میں نے کہا ، سبحان اللہ!

(پاک ہے وہ ذات، یعنی اُس کے سوا کوئی بے عیب نہیں اور اُسی نے ایسے لوگ بھی پیدا کیے) تو حضرت مولانا، آپ کو اِس میں کیا اِشْکال: (الف کے نیچے زیر کے ساتھ، یعنی مُشکل، دقت ،دشواری، پیچیدگی : عربی) ہے؟۔

ہ)۔حکومت کو چاہیے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے فوری اِقدام (الف کے نیچے زیر کے ساتھ، یعنی قدم اٹھانا: عربی)کرے۔ اِقدام کیا جاتا ہے، اُٹھایا نہیں جاتا اور یہ اَقدام نہیں ہے۔

ز)۔ میں کسی کی اَمارَت (الف کے اوپر زبر کے ساتھ، یعنی امیر ہونا: عربی) سے مرعوب نہیں ہوتا، خواہ وہ دُبئی ، متحدہ عرب اِمارات سے مال بنا کر لوٹا ہو۔ (اِمارَت الف کے نیچے زیر اور رے پر زبر کے ساتھ، یعنی ریاست کی جمع: عربی)

ح)۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام آزَر (الف مد زبر کے بعد، زے پر زبر کے ساتھ:آرامی /عربی) تھا، جبکہ قدیم ایرانی شمسی تقویم کا نواں مہینہ آذر: (ذال کے ساتھ یعنی آگ: پہلوی/قدیم فارسی) کہلاتا ہے۔

ط)۔ صحابہ کرامؓ میں مردوں کا نام سَلمہ، سَلَمہ اور سَلِمہ تھا، جبکہ صحابیات میں سَلمیٰ نام ہوا کرتا تھا۔

دیگر بے شمار مثالوں کا ذکر فی الحال موقوف، کیونکہ بندہ اس وقت، وقت کی تنگ دامنی کا شکارہے۔ ہاں چلتے چلتے یاد دلاؤں کہ کسی زمانے میں پاکستان ٹیلی وژن کے ایک ڈرامے کا نام ''زیر ، زبر ، پیش'' تھا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں