پاکستان میں کرکٹ کی بہار

جس طرح اپنے کھلاڑیوں کو عمدہ کھیل پر داد ملے گی یقینا آسٹریلیا کو بھی اجنبی ماحول کا سامنا نہیں ہوگا

جس طرح اپنے کھلاڑیوں کو عمدہ کھیل پر داد ملے گی یقینا آسٹریلیا کو بھی اجنبی ماحول کا سامنا نہیں ہوگافوٹوفائل

آسٹریلوی کرکٹ ٹیم آخری بار کب پاکستان آئی تھی، اگر میں سادہ الفاظ میں بتاؤں تو اس وقت 4 سالہ بابر اپنے والد اعظم صاحب کی گود میں کھیل رہے ہوں گے،اب انھیں کپتانی کا موقع مل رہا ہے،شاہین شاہ آفریدی کی تو پیدائش بھی اس سیریز کے 2 سال بعد ہوئی تھی،اب وہ بولنگ اٹیک کو لیڈ کریں گے،1998 کے بعد کینگروز اب دوبارہ پاکستانی میدانوں پر ایکشن میں نظر آئیں گے۔

24 سال قبل جو بچے اپنے والدین کا ہاتھ پکڑ کر اسٹیڈیم گئے ہوں گے وہ اب خود جوان ہونے پر دوبارہ اس ٹیم کو کھیلتے دیکھ پائیں گے،کچھ عرصے قبل تک تو کسی کو یقین ہی نہیں تھا کہ آسٹریلیا کی ٹیم یہاں آئے گی مگر اب اس محرومی کا مداوا ہونے والا ہے،پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ تو کافی پہلے بحال ہو گئی تھی مگر اب کسی بڑی ٹیم کے کھیلنے سے مکمل بحالی کی جانب قدم بڑھے گا، اس سے قبل جو ٹیمیں آئیں ان کے کئی اسٹارز مختلف وجوہات پر دستبردار ہو گئے تھے البتہ آسٹریلیا کی مضبوط ٹیم دورے پر آئی ہے۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ کسی کھلاڑی نے بھی کوئی بہانہ نہیں بنایا، جب سیکیورٹی مسائل حل ہوئے تو کوویڈ نے مشکلات پیدا کیں مگر شکر ہے کہ اب معاملات کنٹرول میں ہیں، پی ایس ایل کے دوران دنیا نے دیکھا ہوگا کہ پاکستانی کرکٹ سے کتنی محبت کرتے ہیں،راولپنڈی ٹیسٹ کے بھی بیشتر ٹکٹس فروخت ہونے کی اطلاعات ہیں،شائقین سے بھرے ہوئے اسٹیڈیم سے اچھا پیغام جائے گا،کرکٹ آسٹریلیا ایک پروفیشنل ادارہ ہے۔

اس نے سیریز شروع ہونے سے کئی روزقبل ہی میڈیا منیجر برائن مرگٹرائڈ کو پاکستان بھیج دیا تھا، انھوں نے کئی کھلاڑیوں کے ورچوئل میڈیا سیشنز رکھے، تصاویر کے پورے فولڈز تیار کیے، دوسری جانب پی سی بی کے پاس تاریخی سیریز کو یادگار بنانے کا سنہری موقع تھا، اپنے کرکٹرز کے انٹرویوز رکھے جاتے،روز کسی کی میڈیا سے بات کراتے، سابقہ اسٹارز کی سیریز پر یادیں تازہ کرتے مگر تقریبا خاموشی چھائی رہی،چار ٹیمیں تو پی ایس ایل سے فارغ ہو گئی تھیں، کم از کم ان کے پلیئرز کے پہلے میڈیا سیشنز رکھ لیتے مگر نجانے کیوں بہت کم ہی ایسا ہوا،خیر جو میڈیا ڈپارٹمنٹ پی ایس ایل فائنل والے دن ٹرافی کے ساتھ کپتانوں کی تصاویر جاری کرے یا چیمپئن لاہور قلندرز کی تصویر سے مین آف دی فائنل محمد حفیظ کو ہی غائب کر دے ہم اس سے کیا زیادہ امیدیں رکھیں۔

پی ایس ایل کے لاہور میں میچز سے قبل قلندرز نے ماحول بنا دیا تھا لیکن اس تاریخی سیریز سے قبل جو گہماگہمی نظر آنی چاہیے تھی وہ نہیں دکھائی دی،البتہ بورڈ نے ایک اچھا کام یہ کیا کہ آسٹریلیا کے ساتھ مل کر ٹیسٹ سیریز کی ٹرافی کو سابق کرکٹرز رچی بینو اور عبدالقادر سے منسوب کر دیا، عبدالقادر کی پاکستان کرکٹ کیلیے گراں قدر خدمات ہیں اور وہ اس اعزاز کے بخوبی حقدار ہیں،مگر کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے اسٹارز کی زندگی میں ہی عزت افزائی کیا کریں، جسے میانداد ، ظہیر عباس ، انضمام الحق جیسے ہیروز ہیں ان کو بھی ایسے اعزاز دینے چاہیئں، آسٹریلیا اور بھارت بورڈر گاوسکر ٹرافی کا انعقاد کرتے ہیں۔

یقینا دونوں اسٹارز اپنے نام سے سیریز ہوتی دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہوں گے، رمیز راجہ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد کئی مثبت کام کیے، امید ہے وہ اس حوالے سے بھی کچھ سوچیں گے، پی ایس ایل2 برس بعد بغیر رکے مکمل ہوئی، اس کا بڑا کریڈٹ رمیز کو ہی جاتا ہے، آسٹریلوی ٹیم کی آمد بھی بڑی بات ہے، اگر بورڈ کا سربراہ کوئی ایسا شخص ہو جس کا دنیا میں نام ہو تو اس سے یقینا مثبت اثر پڑتا ہے۔


امید ہے اب انگلینڈ اورنیوزی لینڈ کی ٹیمیں بھی دورہ کریں گی۔ آسٹریلیا سے سیریز کا پہلا ٹیسٹ راولپنڈی میں ہو رہا ہے، وہاں کی پچ بالکل فلیٹ نظر آتی ہے،آسٹریلوی اس سے خوش نہیں، ان کے براڈ کاسٹر نے تو تصویر کے ساتھ روڈز سائن بورڈزبھی لگا دیے، سمجھ نہیں آتا کہ وہ چاہتے کیا تھے، کیا ہم گراسی باؤنسی پچ بنا دیں تاکہ اپنی ہی بیٹنگ کا حشر نشر ہو جائے، ہوم سیریز میں ہر بورڈ اپنی ٹیم کی قوت و کمزوری کو دیکھ کر پچز تیار کرتا ہے،پاکستان بھی ایسا کر کے درست کر رہا ہے،سیریز سے قبل ہمارے کئی پیسرز انجریز اور کوویڈ کی وجہ سے دستیاب نہیں رہے۔

حیران کن طور پر بورڈ نے زیادہ ریزرو کھلاڑیوں کو اسکواڈ کے ساتھ نہیں رکھا اور باری باری بلاتے رہے، لازمی قرنطینہ کی وجہ سے کئی کو تو پریکٹس کا موقع بھی نہیں مل سکا، شاہین شاہ آفریدی پر زیادہ بوجھ ہوگا،انھیں ٹی ٹوئنٹی کے چار اوورز سے اب ٹیسٹ میں لمبے اسپیلز کے موڈ میں آنا ہوگا، یاسر شاہ مکمل فٹ نہیں مگر دیگر اسپنرز بھی اچھے ہیں اور موقع ملنے پر صلاحیتوں کا لوہا منوا لیں گے۔

بابر اعظم کے لیے پی ایس ایل کی مایوسیوں کو بھلا کر عمدہ کارکردگی دکھانے کا اچھا موقع ہوگا،عابد علی کی عدم دستیابی کے سبب اب اوپننگ میں بھی تبدیلی ہوگی،البتہ ان تمام باتوں کے باوجود ہماری ٹیم اتنی مضبوط ہے کہ ہوم گراؤنڈ پر آسٹریلیا کو چیلنج کر سکے،کمنز، لبوشین، اسمتھ، اسٹارک، وارنر جیسے اسٹارز کو اپنے سامنے کھیلتے دیکھنے سے اچھی بات پاکستانی کرکٹ شائقین کے لیے کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔

جس طرح اپنے کھلاڑیوں کو عمدہ کھیل پر داد ملے گی یقینا آسٹریلیا کو بھی اجنبی ماحول کا سامنا نہیں ہوگا، اب تک دونوں ٹیموں کو اندازہ نہیں کہ پاکستانی سرزمین پرکون کس پر بھاری پڑے گا، پہلے ٹیسٹ کے بعد ہی بہت سی باتوں کا علم ہو سکے گا، البتہ ایک بات تویقینی ہے کہ ایک زبردست سیریز دیکھنے کو ملے گی، آسٹریلیا فاسٹ پچز تیار کر کے ہماری ٹیم کو اننگز سے ہراتا رہا ہے، اب ہمیں اسپن پچز بنا کر اس سے حساب چکتا کرنا چاہیے۔

سیریز کا نتیجہ جو بھی ہو ہمارے لیے اہم کامیابی ایک بڑی ٹیم کا یہاں آ کر کھیلنا ہے،بھارت جیسے دشمنوں کو ہماری خوشیاں ایک آنکھ نہیں بھا رہیں اور اس نے پھر دھمکی آمیز ای میل سے سیریز کو سبوتاژ کرنا چاہا لیکن شکر ہے آسٹریلیا کیویز کے طرح بے وقوف نہیں اور انھوں نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جعلی دھمکی کو نظرانداز کر دیا،پاکستان میں ان دنوں کرکٹ کی بہار آئی ہوئی ہے، امید ہے اب عالمی ستارے ایسے ہی ملکی میدانوں پر جگمگاتے رہیں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
Load Next Story