مضبوط لوکل گورنمنٹ سسٹم ناگزیر محروم طبقوں کو نمائندگی دینا ہوگی ایکسپریس فورم
99 فیصد کام مکمل، بل جلد منظور کر لیا جائیگا، مسرت چیمہ
عام آدمی تک ریلیف پہنچانے کیلیے مضبوط لوکل گورنمنٹ سسٹم ناگزیر ہے جس کیلیے سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
بلدیاتی نظام کا تسلسل قائم رکھنے کیلیے سول سوسائٹی کو اپنا پریشر بڑھانا ہوگا، مشترکہ مفادات کونسل کا فوری اجلاس بلا کر آئینی ترمیم کے ذریعے وفاقی حکومت ، مقامی حکومتوں کے نظام کو مانیٹر کرے۔
ان خیالات کا اظہار حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ''مقامی حکومتوں کے انتخابات اور سول سوسائٹی کا کردار ''کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سرانجام دیے۔ چیئرپرسن اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ پنجاب اسمبلی مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ جہاں حقیقی جمہوریت ہو وہاں بلدیاتی نظام لوگوں کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل کرتا ہے۔
اس نظام کو لپیٹ دینا کسی بھی طور درست اقدام نہیں، نظام کوئی بھی ہو، اس کا تسلسل برقرار رہے تو وقت کے ساتھ اس میں بہتری لازمی آتی ہے ، کرونا کی وجہ سے ہمارے ہاں بلدیاتی نظام میں تاخیر ہوئی تاہم تمام سٹیک ہولڈرز سے طویل مشاورت اور ترامیم کے بعد بلدیاتی نظام کا بل اسمبلی میں موجود ہے، اس پر 99 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے، جلد منظور کر لیا جائے گا۔
نمائندہ سول سوسائٹی پروفیسر ارشد مرزا نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے نظام کو سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر، تسلسل اور تواتر کے ساتھ موجود رہنا چاہیے، یہ ضروری نہیں ہے کہ حکومت تبدیل ہو تو مقامی حکومتوں کی بساط بھی لپیٹ دی جائے۔دانشور سلمان عابد نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے نظام کو ہر دور مختلف چیلنجز کا سامنا رہا ہے اور بدقسمتی سے ہم ابھی تک گورننس کی بہتری کیلئے ایسا نظام نہیں لاسکے جو لوگوں کی توقع کے مطابق ہو۔
کسی نے بھی بلدیاتی اداروں کو آرٹیکل 140 (اے) کے تحت مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات دینے کی کوشش نہیں کی۔نمائندہ سول سوسائٹی عرفان مفتی نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ گورننس کا بحران ہے جو گزشتہ 74 برسوں میں حل نہیں ہوسکا، جس نظام میں عورت و دیگر محروم طبقات کو شامل نہ کیا جائے وہ نظام ڈیلور نہیں کر سکتا۔
بلدیاتی نظام کا تسلسل قائم رکھنے کیلیے سول سوسائٹی کو اپنا پریشر بڑھانا ہوگا، مشترکہ مفادات کونسل کا فوری اجلاس بلا کر آئینی ترمیم کے ذریعے وفاقی حکومت ، مقامی حکومتوں کے نظام کو مانیٹر کرے۔
ان خیالات کا اظہار حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ''مقامی حکومتوں کے انتخابات اور سول سوسائٹی کا کردار ''کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سرانجام دیے۔ چیئرپرسن اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ پنجاب اسمبلی مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ جہاں حقیقی جمہوریت ہو وہاں بلدیاتی نظام لوگوں کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل کرتا ہے۔
اس نظام کو لپیٹ دینا کسی بھی طور درست اقدام نہیں، نظام کوئی بھی ہو، اس کا تسلسل برقرار رہے تو وقت کے ساتھ اس میں بہتری لازمی آتی ہے ، کرونا کی وجہ سے ہمارے ہاں بلدیاتی نظام میں تاخیر ہوئی تاہم تمام سٹیک ہولڈرز سے طویل مشاورت اور ترامیم کے بعد بلدیاتی نظام کا بل اسمبلی میں موجود ہے، اس پر 99 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے، جلد منظور کر لیا جائے گا۔
نمائندہ سول سوسائٹی پروفیسر ارشد مرزا نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے نظام کو سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر، تسلسل اور تواتر کے ساتھ موجود رہنا چاہیے، یہ ضروری نہیں ہے کہ حکومت تبدیل ہو تو مقامی حکومتوں کی بساط بھی لپیٹ دی جائے۔دانشور سلمان عابد نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے نظام کو ہر دور مختلف چیلنجز کا سامنا رہا ہے اور بدقسمتی سے ہم ابھی تک گورننس کی بہتری کیلئے ایسا نظام نہیں لاسکے جو لوگوں کی توقع کے مطابق ہو۔
کسی نے بھی بلدیاتی اداروں کو آرٹیکل 140 (اے) کے تحت مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات دینے کی کوشش نہیں کی۔نمائندہ سول سوسائٹی عرفان مفتی نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ گورننس کا بحران ہے جو گزشتہ 74 برسوں میں حل نہیں ہوسکا، جس نظام میں عورت و دیگر محروم طبقات کو شامل نہ کیا جائے وہ نظام ڈیلور نہیں کر سکتا۔