پیکا آرڈیننس صحافتی تنظیموں کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری
جسٹس اطہر من اللہ کی پی بی اے اور صحافتی تنظیموں کی درخواستوں کو یکجا کرکے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت
PARIS:
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی بی اے اور صحافتی تنظیموں کی پیکا آرڈی ننس کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کرلیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن اور صحافتی تنظیموں کی پیکا ترمیمی آرڈی ننس کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔ پی بی اے، ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی، کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز بھی درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔
درخواست گزاروں کی جانب سے بیرسٹر ربیع بن طارق عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے پیکا کی سیکشن 20 کو چیلنج ہی نہیں کیا؟ آپ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں؟ دیگر پٹیشنرز نے تو ہتک عزت کو کریمنلائز کرنے کو بھی چیلنج کیا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہم نے پیکا ترمیمی آرڈی ننس کو چیلنج کیا ہے، ترمیمی آرڈی نینس جعلی خبروں اور غلط معلومات روکنے کی آڑ میں درحقیقت عوامی شخصیات کے کام پر بحث و تبصروں کو روکے گا، پبلک آفس ہولڈرز کے کام پر بحث اچھی حکمرانی اور فعال جمہوریت کے لیے ضروری ہے، صدارتی ترمیمی آرڈننس آنکھوں میں دھول جھونکنے جیسا قانون ہے جو کالعدم قرار دئیے جانے کے قابل ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ آرڈی ننس کے اجرا کے لیے صدر مملکت کے پاس مناسب جواز ہونا ضروری ہے، آرڈی ننس کے سیکشن 2 اور 3 معلومات کے حق کو کم کرتے ہیں، پیکا ترمیمی آرڈی نینس آئین کے آرٹیکل 19 اور 19-A کے ذریعہ فراہم کردہ بنیادی حقوق کے بھی خلاف ہے، یہ آرڈی نینس سیلف سینسر شپ کو فروغ دینے کا باعث بنے گا اس لیے اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی بی اے کی اس درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا۔ چیف جسٹس نے پی بی اے کی درخواست بھی دیگر پٹیشنرز کے ہمراہ یکجا کر کے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی بی اے اور صحافتی تنظیموں کی پیکا آرڈی ننس کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کرلیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن اور صحافتی تنظیموں کی پیکا ترمیمی آرڈی ننس کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔ پی بی اے، ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی، کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز بھی درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔
درخواست گزاروں کی جانب سے بیرسٹر ربیع بن طارق عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے پیکا کی سیکشن 20 کو چیلنج ہی نہیں کیا؟ آپ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں؟ دیگر پٹیشنرز نے تو ہتک عزت کو کریمنلائز کرنے کو بھی چیلنج کیا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہم نے پیکا ترمیمی آرڈی ننس کو چیلنج کیا ہے، ترمیمی آرڈی نینس جعلی خبروں اور غلط معلومات روکنے کی آڑ میں درحقیقت عوامی شخصیات کے کام پر بحث و تبصروں کو روکے گا، پبلک آفس ہولڈرز کے کام پر بحث اچھی حکمرانی اور فعال جمہوریت کے لیے ضروری ہے، صدارتی ترمیمی آرڈننس آنکھوں میں دھول جھونکنے جیسا قانون ہے جو کالعدم قرار دئیے جانے کے قابل ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ آرڈی ننس کے اجرا کے لیے صدر مملکت کے پاس مناسب جواز ہونا ضروری ہے، آرڈی ننس کے سیکشن 2 اور 3 معلومات کے حق کو کم کرتے ہیں، پیکا ترمیمی آرڈی نینس آئین کے آرٹیکل 19 اور 19-A کے ذریعہ فراہم کردہ بنیادی حقوق کے بھی خلاف ہے، یہ آرڈی نینس سیلف سینسر شپ کو فروغ دینے کا باعث بنے گا اس لیے اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی بی اے کی اس درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا۔ چیف جسٹس نے پی بی اے کی درخواست بھی دیگر پٹیشنرز کے ہمراہ یکجا کر کے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔